آج سے تقریبا 25 برس قبل گاؤں کو الوداع کیا اور الوداع کرنے کا سبب ابا کی نوکری تھی۔روزگار کی وجہ سے ابا شہر میں مقیم تھے اور اماں گاؤں میں رہتی تھیں ۔ہم پانچ بھائی تھے ۔اماں سارا دن ہم بھائیوں کے پیچھے رہتیں ۔میں چونکہ اپنے بھائیوں سے بڑا تھا تو اماں اکثر سمجھانے بیٹھ جاتیں کہ دیکھ علی اپنے باپ کے بعد اب تو بڑا ہےلہذا اپنے بھائیوں کا خیال رکھا کرو ۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ہم بھائیو ں کی عمروں میں سال سال کا فرق تھا ۔میں اپنے چھوٹے بھائی سے محض 5برس بڑا تھا ۔یہ نہیں تھا کہ میں بڑا شریف بچہ تھا بلکہ میں بہت ہی شرارتی اور تیز دماغ تھا ۔جب بھی میرے شرارتی دماغ میں کوئی تخریب کاری آتی تو میں ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں کے ذریعے عمل درآمد کرواتا اور خود اماں کے سامنے شریف بن جاتا ۔گاؤں میں پرائمری تک اسکول تھا ۔ہم پانچوں بھائی وہیں زیر تعلیم تھے ۔ زیر تعلیم بھی کیا تھے بلکہ یوں سمجھئیے کہ زبردستی زیر تعلیم کروائے گئے ۔ابا چونکہ شہر میں ہوتے اور ہم بھائی گاؤں کی گلیاں ناپنے میں آزاد ۔۔۔پڑھائی کرنے کا دل کیا تو کتابیں کھولتے ۔ ورنہ ٹائر لے کر گاؤں کی گلیوں کو رونق بخشتے اگر ٹائر سے دل بھر گیا تو گلی ڈنڈا کھیلتے ۔اور اگر کبھی گھر سے نکلے زیادہ دیر ہوجاتی تو اماں چھڑ ی لے کر ( کپاس کی ٹہنی ) ہمیں ڈھونڈنے نکل پڑتی اور کبھی غلطی سے اماں کو دیکھ لیتے تو ہوتا کچھ یوں کہ اماں پیچھے پیچھے اور ہم بھائی آگے آگے شعیب اختر بنے ہوتے ۔اور کبھی کبھار تو اماں راہ چلتے شخص سے کہتی کہ ویر ان کمبختوں کو تو پکڑ کر میرے حوالے کردو۔ابا جب بھی چھٹیوں میں گھر آتے تو اماں ان سے کہتیں کہ دیکھ بشیر بچے اب بڑے ہو رہے ہیں اور میری بات بالکل نہیں مانتے تُو اس طرح کر کہ ہمیں شہر بلا لے اپنے پاس تاکہ بچے تیری نظر کے سامنے رہیں ۔اور میں اکیلی جان کب تک ان کے پیچھے گلیوں میں پھر وں ۔ابا تھے کہ اماں کی بات کو ہی نہ مانتے ۔ابا بھی بیچارے بھی کیا کرتے تین ہزار ابا کی تنخواہ تھی اور اخراجات اونٹ کے منہ میں زیرہ والی مثال ۔ابا جب بھی گھر آتے تو اماں ایک ہی گردان کرتیں کہ ہمیں شہر لے چل ۔اماں کو لگتا تھا کہ شہر جا کر اس کے بچے ٹاٹ وا لےاسکول کی نسبت کسی اچھے اسکول میں پڑھنا شروع کردیں گے کہ شائد الٹی سیدھی شرارتوں سے بھی باز رہیں گے ۔ اماں بیچاری نہیں جانتی تھیں کہ شہر میں ایک کمرے کا مکان ملنا اور پھر اس مکان کا کرایہ دینا انتہائی ہی مشکل امر ہے ۔ابا جب بھی گھر آتے تو اماں کی ہر بار کی طرح ایک ہی تکرار ہوتی اور تو اور کبھی کبھار تو نوبت جھگڑے تک پہنچ جاتی ۔تب ابا ہمیں ظالم دکھتے اور اماں مظلوم ۔آخر کار اب نے اماں کی بات مانتے ہوئے ہمیں شہر بلا لیا ۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔شہر شفٹ ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا کہ ابا کا روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں انتقال ہو گیا اور ہماری دنیا اندھیر ہو گئی ۔ابا کے انتقال کے بعد اماں نے ہم دونوں بڑے بھائیوں کو مکینک کی دکان پر بٹھا دیا اور باقی تینوں کو دوبارہ پھر ٹاٹ والے اسکول میں داخل کروا دیا ۔ماضی کہیں نہ کہیں ضرور اپنے آپ کو دہراتا ضرور ہے ۔بھائی کے انتقال کے بعد بھتیجے کا آج میری چھوٹی سایئکل مکینک کی دکان میں پہلا دن ہے اور آج میری آنکھوں کے سامنے اپنا ماضی بار بار آرہا ہے اور آنکھیں ہیں کہ خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں ۔
فیس بک کمینٹ