ہم کو کہتے تھے "بلبلِ ملتان”
اور کیا کیا خطاب ملتے تھے
ملتان شہر کو مشاعروں سے متعارف کروانے والا خوبصورت اور پرکشش اردو بولنے اور لکھنے والا، جس کے اشعار دلوں کو موم کردیتے ہوں، جس کی شخصیت جاذبِ نظر اور پرکشش تھی، حسینوں اور خوبرویوں کی محفلوں میں زندگی گزرنے والا، ادبی محفلوں کا رسیااحباب کو اپنے اشعار سنا کر ان سے اشعار سننے کا سلیقہ جا ننے والا، محفل شعرو سخن میں آگ لگانے والا اور ہر خاص و عام میں محبتیں بانٹنے والا شاعر تھا وہ۔ سید فقیر اللہ بخش کشفی الاسدی ملتانی اس کا نام تھا۔
کشفی ملتانی 15 جون 1900ء کو مظفرگڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے نزدیکی قصبہ دائرہ دین پناہ میں سید عبد الوہاب کے گھر پیدا ہوئے اصل نام سید فقیر اللہ بخش تھا اور کشفی ملتانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ کشفی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور 1917ء میں ڈیرہ غازی خان چلے گئے۔ وہاں سے 1921ء میں میٹرک پاس کیا اور مولانا غلام نبی سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ 1924ء میں ملتان آگئے اور درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ 1944ء تک اسی پیشے سے منسلک رہے۔ کشفی اصولوں کے پابند رہے انہوں دوران ملازمت حکومت کے خلاف قلم نہیں اٹھایا، اسی وجہ سے وہ تحریک آزادی کے متحرک کارکن نہیں تھے۔ کشفی نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ حاصل کی اور ساڑھے دس روپے پنشن پر ریٹائر ہوگئے ۔کشفی کو ملتان اور مظفرگڑھ سے بے حد محبت تھی اس کا اظہار ان کے کلام میں جابجا ملتا ہے
اک مظفر گڑھی کے ہاتھوں سے کارنامہ ہوا ہے لاثانی
جس کی تخلیق نغمہء صحرا نام کشفی بہ عرف ملتانی
آپ نےخواجہ غلام فرید کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا جو 1962ء میں بزم ثقافت ملتان نے ” نغمہ صحرا” کے نام سے شائع کیا۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ ملتان میں گزارا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل طور پر مظفرگڑھ میں رہائش پذیر ہوگئے اور آخری دم تک وہیں رہے۔ کشفی کو ملتان سے بے حد محبت تھی اور ملتان کو حسینوں کا شہر کہا کرتے تھے۔وہ بلا کے حسن پرست تھے، ملتان میں ایک شام باغ کی سیر سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور کیفی جامپوری بھی ہمراہ تھے، ایک خوبرو چہرہ نظرآیا تو برجستہ کہا
تیری آنکھیں ہیں کہ آہو فتن کی آنکھیں
محوِ حیرت تھیں جوانانِ چمن کی آنکھیں
ایک دلچسپ واقعہ تقسیم سے قبل کا ہے کہ ایک خوبرو ہندو ہیڈ مسٹریس کے تبادلے پر کشفی صاحب نے نظم لکھی۔ جس کے اشعار کچھ یوں ہیں ۔
لیلاوتی وہ سرد خراماں چلی گئی
میرے چمن سے فصلِ بہاراں چلی گئی
کیا جانے کیا بلا تھی؟ شعلہ تھی؟ برق تھی؟
بجلی گرا کے شعلہ بداماں چلی گئی
جب یہ نظم اخبار میں شائع ہوئی تو ڈپٹی کمشنر جو بڑے جابر اور ظالم تھے سیخ پا ہوگئے۔ آپ کی طلبی ہوئی، احباب پریشان ہوئے کہ آج کشفی کی خیر نہیں۔ مگر جب افسر مجاز نے عدالت کے کٹہرے میں بلا کر پوچھا تو کشفی نے فوراً جواب دیا حضور اس طرف بھی توجہ فرمائیں کہ ایک ہندو عورت کا نام کس طرح شعر کے وزن میں ڈھل کر غزل کے مزاج میں گھل مل گیا ہے۔ اس حاضر جوابی پر ڈی سی صاحب مسکرائے اور آپ سلام کہہ کر باہر چلے آئے
کشفی کے ایک دوست جن کا نام پنڈت جیون لال تھا چھاؤنی میں آنریری مجسٹریٹ تھے، وہ اپنے بنگلے پر رقص و سرود کی محفلیں سجاتے تھے۔ ایک دن ملتان کی مشہور طوائف بدر النساء کے رقص پر بطور خاص کشفی کو مدعو کیا گیا، ناچ گانے کی محفل اختتام کو پہنچی تو یار لوگوں نے آپ سے بدرالنساء کے رقص کے بارے میں ارشاد کا شور مچایا اور کشفی نے درج ذیل اشعار فی البدیہہ کہے، جو قادر الکلامی کا واضح ثبوت ہیں ۔
اے مری پیکرِ حسن اندام اے بدرالنساء
آج تیرے حسن کا گلزار ہے پھولا ہوا
ناچتی ہے جب تُو اپنے دلربا انداز سے
آفریں کے نغمے اٹھتے ہیں دلوں کے ساز سے
کشفی بطور صحافی بھی چھائے رہے انہوں نے ایک رسالہ بشارت نکالا جس کو بڑی شہرت نصیب ہوئی، یہ رسالہ 1951ء کے اوائل میں شروع ہوا اور آپ کی وفات کے تین ماہ بعد بھی مئی 1976ء تک شائع ہوتا رہا۔ اس رسالے میں علمی وادبی مضامین کے علاوہ جنوبی پنجاب کے مسائل، عوام کی مشکلات ، معاشرتی، اقتصادی، سیاسی معاملات اور حکومتی ایوانوں کی صورت حال پیش کی جاتی تھی۔ وہ جنوبی پنجاب کی غریب عوام کے مسائل اپنے اشعار کے ذریعے حکمرانوں تک پہنچاتے رہے۔
کشفی کو مسرت نذیر کی فلمیں دیکھنے کا بھی بے حد شوق تھا اور کچھ احباب ایسے عقیدت مند تھے کہ اس کی تصاویر کو گھروں میں محبوبہ کے طور پر لگایا ہوا ہوتا۔
زمانہ آیا کچھ ایسا کہ اب تو ہر گھر میں
لٹک رہی ہے مسرت نذیر کی تصویر
کشفی بلا کی شراب نوشی کرتے تھے۔ انہوں نے سب کچھ داؤ پر لگایا اور کامل میخواری سے لطف اندوز ہوئے احباب نے نشہ کی لت کو ختم کرنے کا کہا تو کشفی نے افیون شروع کر دی اور آخری ایام میں اس سے بھی توبہ کرلی جو کہ اس کی نظم ” توبہ ” سے ظاہر ہے ۔
دل سے کرتا ہوں مں سو بار الہٰی توبہ
سر پہ عصیاں کا ہے انبار الہٰی توبہ
اپنی اس زیست میں ہیں کتنے گنہ میں نے کئے
ہر گنہ بن گیا شہکار الہٰی توبہ
بن گئی زیست مری وجہ گناہ گاری کی
اب ہوں میں زیست سے بیزار الہٰی توبہ
کشفی کی صحت پر شراب اور افیون نے بڑا اثر ڈالا جس نے جسمانی طور پر معذور کر دیا حالانکہ کشفی پوری زندگی حالات سے نبرد آزما رہے کشفی آخری دم تک جرات اور ہمت سے کام لیتے رہے جو کہ ان کی نظم ” وصیت” سے واضح ہے ۔
میں مر جاؤں تو میری لاش پر رونا نہیں
میرے اس انجام سے مایوس بھی ہونا نہیں
کشفی کی اس ” وصیت” کے باوجود 20 فروری 1976ء کو آپ کی وفات پر وہ کہرام وچیخ و پکار بلند ہوئی کہ اس کا بیان الفاظ میں کرنا ممکن نہیں ادبی حلقوں میں بھی بہت زیادہ افسوس کا اظہار کیا گیا ۔
جنوبی پنجاب میں شاید ہی کسی شاعر وادیب کی وفات پر اتنے دکھ اور غم کا اظہار کیا گیا ہو جتنا کشفی کی موت پر کیا گیا ۔
کشفی کو کوئی پوچھنے آئے تو دوستو
کہنا کہ چند شعر سنا کر چلے گئے
فیس بک کمینٹ