پہلے تو آپ کو رمضان المبارک کے آغاز پر رحمتیں برکتیں سمیٹنے پر مبارکباد۔ مسجدیں نمازیوں سے بھر گئی ہیں۔ پہلے مسجد کا چھتا ہوا حصہ بمشکل بھرتا تھا اب تو مسجد کے صحن آباد ہو رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر نوجوان پاکستانی ہیں۔ ان کا خشوع خضوع دیدنی ہوتا ہے۔ ایک بڑی تعداد رمضان میں ثواب کماتی ہے۔ اس سے کہیں بڑی اکثریت رمضان میں مال کماتی ہے۔ پہلے پانچ چھ روز عجلت سے سنایا گیا کلام پاک عجلت میں سن کر باقی پورا رمضان دکانوں پر بیٹھ کر سال بھر کی کسر نکالی جائے گی۔
میں پاکستان کا ہم عمر ہوں بلکہ چار پانچ سال بڑا۔ سارے نشیب و فراز دیکھتا آرہا ہوں۔ پاکستان بنتے دیکھا۔ ٹوٹتے دیکھا۔ پہلا جزوی مارشل لا، پھر پورے پورے مارشل لا۔ 1973ء کا آئین منظور کرنے والوں نے کہا کہ ہم نے اس آئین میں آرٹیکل 6رکھ کر مارشل لا کا راستہ ہمیشہ کے لئے روک دیا ہے۔ اس کے چار سال بعد ہی بہت سفاک قسم کا مارشل لا نافذ ہو گیا۔ ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ سب زبان دراز چپ رہے۔ آسمان گرا نہ زمین شق ہوئی۔ پھر سوچا گیا کہ اپنا صدر ہو۔ دو تہائی اکثریت ہو تو مارشل لا کا خطرہ نہیں رہے گا۔ پھر بھی 12اکتوبر 1999ء کی سیاہ رات آگئی۔ پھر وردی اتروانے پر سب نے کریڈٹ لیا کہ ہمارے دبائو سے وردی اتری ہے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وردی بھی وردی والوں نے ہی اتر وائی تھی۔ پھر وردی کو شلوار قمیص والوں نے 3سال کی توسیع بھی دی۔ آج کل یہ بحث زوروں پر ہے کہ غیر علانیہ فوجی حکومت ہے، Electedوزیر اعظم کو Selectedکہا جارہا ہے۔
مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے کہ اکیسویں صدی میں جب دنیا سمٹ رہی ہے، شہری آزادیاں عروج پر ہیں اس وقت ایک انتہائی اہم اور حساس محل وقوع رکھنے والے ملک پاکستان میں اس قسم کے الزامات عائد ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو شروع سے اپنے ہمسایوں بھارت اور افغانستان سے خطرات لاحق رہے ہیں۔ بھارت کا رویہ معاندانہ رہا۔ اس لئے سلامتی کی جستجو میں پاکستان بتدریج Garrison Stateبنتا گیا۔ یہ الجھی ہوئی صورت حال ہم کو ہی سلجھانا ہے۔ شکایتوں سے تو یہ لگتا ہے کہ اسے حل کرنے باہر سے کوئی آئے گا۔ ملک اپنا ہے ادارے اپنے۔ فوج اپنی۔ مسئلے کی پہچان تو ہمیں ہے مگر مسئلہ حل کرنے کی خواہش نہیں ہے۔ صرف طعن و تشنیع اور جذباتی بیان۔ دنیا صدیوں کا سفر کرتی ہوئی آج جس مرحلے پر ہے وہاں صرف منطق، تحقیق اور تکنیک سے مسائل حل کئے جاتے ہیں۔ اپنی خامیوں کو درست کیا جاتا ہے۔ پہلے جزوی مارشل لا سے اب آج کل کے غیر علانیہ تک کے عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے میں یہ علانیہ کہہ سکتا ہوں کہ غلطیاں دونوں نے کیں۔ سیاسی قیادت نے بھی اور فوجی قیادت نے بھی۔ لیکن فوجی قیادت نے اپنی اصلاح کی ہے۔ اپنی تنظیم، تربیت، تحقیق ترک نہیں کی ہے۔ لیکن سیاسی قیادت نے اپنی غلطیوں کو آج تک تسلیم ہی نہیں کیا اس لئے اصلاح کی نوبت کہاں آتی۔ میرا مشاہدہ ایک یہ بھی ہے کہ عام طور پر جو ہم سویلین ملٹری تنازع کہتے ہیں یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ عام سویلین تو اپنی دو وقت کی روٹی کی فکر میں الجھا رہتا ہے اس کا ملٹری سے کہاں تنازع ہوگا۔ یہ صرف سیاستدانوں اور طالع آزما جرنیلوں کا تنازع ہے۔ جو ہمیشہ جذباتی اندازِ فکر اختیار کرتے ہیں۔ گزشتہ عشروں میں عالمی سیاست اور حکمرانی میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، نائن الیون، چین کی معاشی برتری، یورپی یونین، ایک کرنسی، پاسپورٹ اور ویزے سے آزادی، ان واقعات نے جینے کے انداز ہی بدل دئیے ہیں۔ ہمارے معزز سیاسی قائدین کے ذہنوں پر ان عالمگیر تبدیلیوں نے کوئی اثرات مرتب نہیں کئے۔ سیاستدان بھی کوئی تحقیق نہیں کرتے نہ ہی یونیورسٹیاں ان کی کوئی مدد کرتی ہیں۔ انتخابات، جمہوریت آزادیٔ اظہار کے نام پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے والی این جی اوز بھی سیاسی قائدین کی تربیت نہیں کرتیں کہ بار بار ہونے والے انتخابات بے اثر کیوں رہتے ہیں۔ منتخب حکمراں بے اختیار کیوں رہتے ہیں۔
یہ تو بہت ہی آسان منطق ہے کہ ادارے ایسا نہیں کرنے دیتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اصطلاحات بھی بدلتی دیکھی ہیں۔ پہلے انہیں غیر سیاسی قوتیں کہا جاتا تھا۔ پھر غیر جمہوری کہا گیا۔ ایک دَور میں غیر مرئی اور خفیہ کا لقب دیا گیا۔ سی آئی اے نے ایک کتاب خود اپنے بارے میں لکھوائی تھی۔
The Invisible Government۔ یہ اصطلاح بھی ہمارے ہاں رائج رہی۔ انتقالِ اقتدار کی ترکیب۔ قیامِ پاکستان سے پہلے انگریز سے حکومتی اختیارات مقامی لیڈر شپ کے ہاتھوں میں آنے کے لئے استعمال ہوتی تھی۔ مارشل لاؤں کے بعد یہ فوجی قیادت سے منتخب سول قیادت کو اختیارات منتقل کرنے کے لئے برتی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک منتخب سیاستدان کو مکمل اقتدار پہلی اور آخری بار 20دسمبر 1971کو منتقل ہوا۔ اس حد تک کہ انہیں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی جہیز میں دینا پڑا۔ 1977ء کے الیکشن سے سیاستدانوں کی جو مجبوریاں شروع ہوئیں وہ آج تک جاری ہیں۔ یہ الیکشن بعد میں کالعدم قرار دے دیئے گئے۔
ضروری ہے کہ اس تکلیف دہ تنازع پر غیر جذباتی طور پر صرف زمینی حقائق کی روشنی میں تحقیق کی جائے کہ ایک ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کیوں کرتا ہے۔ اس میں اس ادارے کی کتنی زیادتی ہے اور سیاستدانوں کی کتنی کوتاہی۔ ایک ادارہ جب اپنے اختیارات پوری طرح استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، خلا چھوڑتا رہتا ہے پھر خود یہ برادری ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائد کرکے اپنا اعتبار خود ختم کرتی رہتی ہے۔ جنرل ضیا کے دَور میں جہاد اگر پرائیوٹائز ہوا تو کیا صرف فوج نے کیا۔ مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں کیا اس میں شامل نہیں تھیں؟ لیکن الزام صرف فوج پر۔ پی پی پی 1988ء میں ایک تہائی اقتدار عجلت میں حاصل کرنے کے لئے بے تاب تھی۔ تمغۂ جمہوریت بھی دیا گیا۔ سیاستی حکومتوں کی برطرفی پر سیاسی جماعتیں جشن مناتی رہیں۔ ملک میں ایک Structural imbalance ہے۔ تنظیم کا عدم توازن۔ ایک طرف ایک ادارہ جہاں تربیت، تنظیم اور تحقیق ہر لمحہ ہے۔ دوسری طرف پورے ملک کو سنبھالنے کی دعویدار سیاسی جماعتیں۔ کسی کی بھی پورے ملک میں تنظیم نہیں ہے۔ کوئی ایک صوبے تک محدود ہے کوئی دو تک۔ سیاسی پارٹیاں آج کی ٹیکنالوجی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتیں۔ اب تو سیٹھوں کی کمپنیاں بھی پروفیشنل CEOرکھ رہی ہیں۔ یہ پارٹیاں ملکی بنیاد پر اپنے آپ کو منظم کریں۔ موروثیت ختم کریں۔ کارکنوں کو اندرونِ ملک و بیرونِ ملک انتظام کی تربیت دلوائیں۔ دوسری پارٹیوں سے لیڈر نہ لیں۔ وہ پارٹی سے وفادار ہو ہی نہیں سکتے۔ اپنے ماہرین ہوں۔ واضح تعلیمی، سائنسی، مذہبی، سماجی اور انتظامی پالیسیاں بنائیں۔ قومیتوں کے حقوق تسلیم کریں۔ جس صوبے کی معدنیات ہیں ان کو اس کا حصّہ بھی دیں، رائلٹی بھی۔ کہیں کوئی خلا نہ چھوڑیں۔ تب کسی دوسرے ادارے کو حدود سے تجاوز کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ