ہم نگراں دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ سیّد عابد علی عابد کا بہت ہی خوبصورت شعر۔ تصور کیجئے
شرع و آئین کی تعزیر کے باوصف شباب
لب و رُخسارکی جانب نگراں ہے کہ جو تھا
ایسے نگراں اور ایسے لب و رخسار اور حسنِ انتخاب
آج جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں تو تاریخ کا ایک باب اپنی بے یقینیوں، کشمکشوں، تہمتوں کے ساتھ بند ہو رہا ہے۔ تاریخ ایک اور دروازہ کھول رہی ہے۔ جسے نگراں دور کہا جاتا ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس کی نگرانی میں کل ایک عبوری حکومت قائم ہو گی۔ جس کی ترجیح دو ماہ بعد پُرامن، منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ سندھ اور کے پی میں تو اقتدار کی غلام گردشیں منتخب حکمرانوں سے خالی ہو چکی ہیں۔ اب اسلام آباد کے محلّات سے بھی 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں تاج و تخت سنبھالنے والے دَر و دیوار پر حسرت سے نظر ڈالتے ہوئے رُخصت ہو رہے ہوں گے۔
بہت ہی تاریخی لمحات، زیادہ تر پاکستانی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہوں گے کہ جمہوریت کے نام پر بادشاہی کرنے والوں سے جان چھوٹ رہی ہے۔ صرف وہی لوگ اندوہ میں ہوں گے جن کی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں تھے۔ 2013ء کے الیکشن کے نتائج جس رات آئے۔ ایک چینل نے مجھے تبصرے کے لئے بلایا۔ میں نے کہا تھا کہ یہ نتائج 1970ء کے انتخابات کی طرح خطرناک ہیں کہ ایک بڑے صوبے میں اکثریت کے بل پر پورے پاکستان پر حکمرانی کا حق ایک جماعت کو مل رہا ہے۔ پھر صحیح معنوں میں قومی قیادت نہیں ہے۔ دُوسرے بڑے صوبے سندھ میں اس کا کوئی اَثر نہیں ہے۔ کے پی ، بلوچستان میں بھی بہت زیادہ سیاسی مقبولیت نہیں ہے۔ چاروں صوبوں میں الگ الگ سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں، جمہوریت کا حسن تو ہیں، لیکن پاکستانی معاشرے کا تار و پود ابھی ایسے حسن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے معاشرہ مزید تقسیم ہوگا، جمہوریت مزید کمزور ہوگی، انارکی بڑھے گی۔
آج جب 2013ء کے انتخابات کے سارے فاتح رُخصت ہو چکے ہیں۔ آپ ملک میں سیاسی انتشار کی شدت دیکھ لیں۔ ملک میں نسلی، لسانی، فرقہ واریت کتنی بڑھ چکی ہے۔ شہیدوں، زخمیوں، بیواؤں، یتیموں کی تعداد میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے ملک میں کوئی بھی سیاسی شخصیت ایسی نہیں ہے جسے چاروں صوبوں میں یکساں طور پر مقبولیت حاصل ہو۔
وقت یقیناً آ گیا ہے کہ عوام پھر فیصلہ کریں گے کہ آئندہ پانچ سال کے لئے وفاق اور صوبے وہ کس سیاسی جماعت کو سونپتے ہیں۔ حکومتیں اپنی مدت پوری کر رہی ہیں۔ 5 سالہ میعاد فاتح سیاسی پارٹی کو ملنی ہے، شخصیت کو نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 2013ء میں ملک کی باگ ڈور ملی تھی۔ وہی مدّت پوری کر کے رُخصت ہو رہی ہے۔ ایک قائد ایوان کو عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا۔ برسراقتدار جماعت ان کی جگہ دُوسرا قائدایوان لے آئی۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ الیکشن جیتنے والی جماعت کو مدّت پوری نہیں کرنے دی گئی۔
حملے شروع ہو چکے ہیں، چارٹوں، گرافوں، اشتہاروں، دُھواں دھار تقریروں کے ذریعے، شہیدوں کا خون کسی کو یاد نہیں ہے۔ محروموں کی سسکیاں، آرمی پبلک اسکول پشاور کے والدین کا کرب، قصور کے لڑکوں سے زیادتی اور وڈیوز، قصور کی زینب، سندھ میں کاروکاری، جنوبی پنجاب میں وَنّی، جاگیرداروں، سرداروں کے مظالم کے مزید 5 سال، مذہبی استحصال اور فرقہ واریت کے مزید پانچ سال، انتخابی مہم کی گرد اِن سب کو چھپا رہی ہے۔
فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔ کیا انہیں آزادانہ یہ فیصلہ کرنے دیا جاتا ہے، کیا برادری کا جبر، نادیدہ قوتوں کا دباؤ، لینڈ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، واٹر مافیا، سب نگراں حکومت ختم کر سکے گی۔ کیا عوام میں میڈیا نے یہ شعور پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ جائزہ لیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اکیسویں صدی کی دُوسری دہائی میں وہ کر سکیں جو کرنا چاہئے تھا۔ جو وقت کا تقاضا تھا، جو پاکستانیوں کی مانگ تھی۔
تاریخ یہ سوال کر رہی ہے کہ دو تہائی اکثریت کے باوجود منتخب حکمراںعدم تحفظ کا شکار کیوں تھے۔ ایک صنعت کار تاجر حکمراںکے باوجود معیشت کے اشاریے بہتر کیوں نہیں ہیں۔ پبلک سیکٹر سے پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، ریلوے کے خسارے کیوں بڑھتے رہےہیں۔ ریاست کے اداروں کے درمیان تعلقات بتدریج بہتر ہونے کے بجائے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر کیوں ہوئے ہیں۔ آخری ایک ڈیڑھ سال میں تو سابق وزیراعظم نے اداروں میں کھلے تصادم کی صورت برپا کر دی۔ اس وقت یہ تعلقات کشیدگی کی انتہا پر ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا متبادل کون ہے۔ پہلے پی پی پی ہوتی تھی۔ اب بظاہر پاکستان تحریک انصاف یہ دعویٰ کر رہی ہے۔ عوام بھی یہ سمجھ رہے ہیں۔ لیکن کیا اس کی جڑیں پورے ملک میں ہیں۔ اس کی تنظیم ہر صوبے میں مضبوط بنیادوں پر ہے، پارٹیاں بدلنے والے بنی گالا کا رُخ کر رہے ہیں۔ بھٹو صاحب، بی بی، خود نوازشریف ان سیاسی مسافروں کے ہاتھوں نقصان میں رہے۔ یہ پارٹی پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ وزارتیں مانگتے ہیں۔ گروپنگ کرتے ہیں۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کا سخت مقابلہ ہوگا۔ میاں نواز شریف کے بیانیے نے ’’عمران لہر‘‘ نہیں بننے دی ہے مگر میاں نوازشریف کے بیانیے کا امتحان اب ہوگا جب وفاق اور پنجاب میں ان کی حکومت نہیں ہوگی۔ غیرجانبدار نگراں حکومت میں کیا ان کو اس طرح سرکاری سہولتیں اور پروٹوکول میسّر ہوگا۔ یہ بیانہ مزاحمت کا راستہ ہے۔ اس کے لئے بہادروں، سرفروشوں کی ٹیم درکار ہوتی ہے۔ یہ بیانیہ انتخابات کے لئے نہیں انقلاب کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ بیلٹ نہیں بُلٹ۔ پرچی نہیں برچھی، پاکستان میں بھی پارٹیاں اس کشمکش سے گزر چکی ہیں۔ دُوسرے ملکوں میں بھی یہ بیانیے اسی وقت نتیجہ خیز ہوتے ہیں۔ جب اس کے لئے نظریاتی ٹیم تشکیل دی جائے جو تاریخ کا مطالعہ رکھتی ہو۔ گھر بار کاروبار سب کو بھلا چکی ہو۔ مسلم لیگ (ن) کی جڑیں پنجاب کے علاوہ دُوسرے صوبوں میں تو اس طرح گہری نہیں ہیں۔ ساری پارٹیوں کی مشترکہ کوشش ہوگی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ سے زیادہ سیٹیں چھین لی جائیں۔ اُمیدوار ٹکٹ لینے سے انکار کر دیں۔ آزاد اُمیدوار زیادہ کامیاب ہوں۔
پی پی پی کو سندھ میں بڑا چیلنج نہیں ہوگا۔ لیکن نئے اتحاد اس کی سندھ میں اکثریت کچھ کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ کراچی سمیت سندھ کے کئی علاقوں میں عوام کو پی پی پی سے کافی شکایتیں ہیں۔ پنجاب اور کے پی میں پی پی پی کو سیاسی حمایت میسّر نہیں ہے۔
بلوچستان میں اُمیدواروں کو باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) مل گیا ہے۔ زیادہ اُمیدوار اس کا سایہ اپنے سر پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نومولود کی دائی بھی سب کو یہی ہدایت کر رہی ہے۔
فاٹا کا کے پی میں انضمام اس پانچ سالہ دور کی سب سے اچھی خبر ہے۔ مگر یہ بالکل آخر میں آئی ہے۔ اسلئے یہ 2018ء کے انتخابات پر اثرانداز نہیں ہو سکے گی۔
ایسی صورت حال میں 25جولائی 2018ء کے انتخابات ایک رسمی کارروائی ہوں گے۔ یہ قواعد و ضوابط کی جمہوریت تو لے آئیں گے لیکن پرمغز جمہوریت نہیں۔ اور کسی بڑی تبدیلی کا سرچشمہ نہیں بنیں گے۔ نتائج پہلے سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے۔ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیٹیں کچھ کم ہو سکتی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اسلام آباد سے محروم ہو سکتی ہے۔ معاشرہ اور اس کے مسائل انہی پارٹیوں کے درمیان فٹ بال بنےرہیں گے۔
2018ء کے الیکشن زوال پذیر پاکستانی معاشرے کو پستی کی طرف جانے سے اسی صورت میں روک سکتے ہیں کہ الیکشن کمیشن قوانین پر سختی سے عمل کرے۔ اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال میں صرف قومی مفاد پیش نظر رکھے۔
معاشرے میں جب انصاف میسّر نہ ہو، میرٹ پر روزگار نہ ملتا ہو، اپنے جائز مسائل حل کروانے کے لئے ایک فرد کو فرقہ، زبان اور نسل کا سہارا لینا پڑے تو وہاں فرقہ واریت، لسانیت، اور نسل پرستی شدّت اختیار کرتی ہے۔ نقیب اللہ کے قتل، بلوچستان اور سندھ میں نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات، بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کی ہلاکتیں، اقلیتوں کی املاک، زبردستی مذہب کی تبدیلی، زمینوں پر قبضوں کی وارداتوں نے پاکستانیت کو متاثر کیا ہے۔ یہ رُجحانات زیادہ تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اچھی حکمرانی کی مثالیں بہت کم ہیں۔ اس لئے اکثریت میں عدم تحفظ کا احساس بھی ہے۔ اور بے بسی کا عالم بھی، وہ جب قومی سطح پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا کوئی لیڈر دکھائی نہیں دیتا، چاروں صوبے اپنے آپ کو جس کے سپرد کر دیں۔ اس لئے کبھی لوگ چیف جسٹس سے ساری اُمیدیں باندھ لیتے ہیں کبھی آرمی چیف سے۔
ہماری قیادت کے دعویدار افراد کو اور قومی سیاسی جماعتوں کو عوام کی اس بے کسی کے احساس کو اہمیت دینی چاہئے۔ ان کے دل اور ذہن جیتنے چاہئیں۔
خودمختار خارجہ پالیسی وقت کی ضرورت ہے لیکن قومی سیاسی پارٹیاں اس پر کوئی مبسوط پروگرام نہیں دے ر ہیں۔
ایک بڑا چیلنج معیشت ہے، کسی سیاسی جماعت کے پاس اقتصادی ماہرین کی ایسی ٹیم نہیں ہے جو قوم کو یقین دلا سکے کہ وہ سرکاری کارپوریشنوں کے 700 ارب کا خسارہ منافع میں بدلنے کی اہلیت رکھتی ہے جو درآمدات کے مقابلے میں برآمدات بڑھا سکتی ہے۔ جو چھ کروڑ نوجوانوں کو مصروفِ کار کر کے ان کی توانائیوں سے ملک کو ترقّی یافتہ قوموں کی صف میں لے جا سکتی ہے۔ بنی گالا سے کوئی ایسی دستاویز سامنے آئی ہے نہ بلاول ہائوس سے نہ ہی رائے ونڈ سے۔ جو پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا روڈ میپ دے رہی ہو۔ اس لئے مجھے 2018ء کے الیکشن ایک رسمی کارروائی ہی لگ رہے ہیں۔ دن بہت کم رہ گئے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ