بفر زون Buffer Zone عرف عام میں اس علاقے کو کہا جاتا ہے جو دو مختلف اور بعض صورتوں میں متحارب علاقوں یا ملکوں کے درمیان ایک ایسا قطعہ ہو جو دونوں کے اثر اور انتظام سے آزاد ہو یعنی ایک ایسی سرحدی پٹی کی طرح ہوتا ہے کہ جس کے دونوں کنارے بیک وقت ملاقات اور جدائی یا جمع اور تفریق کا استعارہ بن جاتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ بفرزون صرف جغرافیے تک محدود نہیں زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر سطح پر یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر وطن عزیز کی سیاست میں نگران حکومتوں کی شکل میں ایک بفر زون 31مئی سے25جون تک متحرک اور موجود رہے گا اور چونکہ اس دوران میں تمام سیاسی پارٹیاں قانونی اور اصولی طور پر ایک ہی صف میں کھڑی ہوجائیں گی اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بفر زون میں قیام کے مختصر اور متعین عرصے میں سارا معاشرہ اپنے اپنے نمایندوں کی وساطت سے اس بات پر توجہ دے کہ ہمارے یہاں جمہوریت کے ٹھیک سے نہ چلنے اور اداروں کا ایک دوسرے سے مل کر اور اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام نہ کرنے کی وجوہات اور مسائل کیا ہیں کیونکہ ایسا نہ کرنے کی شکل میں ہم صرف ’’بھنور‘‘ تبدیل کریں گے۔ کنارے اب بھی اسی طرح نظروں سے دور اور اوجھل رہیں گے جیسے گزشتہ ستر برس سے چلے آ رہے ہیں اور یہ وہی منظر اور کیفیت ہے جس کی تصویر منیر نیازی مرحوم نے ایک شعر میں کچھ اس طرح سے کھینچی ہے کہ
منیر اس ملک پر آسیب کا سایا ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
مجھے یاد ہے کوئی چالیس برس قبل جب یہ شعر پہلی بار سامنے آیا تھا تو پاک ٹی ہاؤس کی ایک سے زیادہ میزوں پر اس کے مفہوم اور اثر کو سمجھنے کے بجائے اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ منیر نیازی نے اس میں ’’حرکت‘‘ کے لفظ کو ’’گردش‘‘ کے وزن پر باندھا ہے جو عروضی اعتبار سے غلط ہے بدقسمتی سے یہی وہ رویہ ہے جو ہم نے بحیثیت قوم عمومی طور پر ہر شعبے میں اپنا رکھا ہے کہ ہم اصل بات کے بجائے فروعات میں الجھے رہتے ہیں اور دوسرے کو وہ حق اور Space نہیں دیتے جس کی خود اپنے لیے طلب اور توقع کرتے ہیں۔
جب تک ہم سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور میڈیا کی ’’خبریاتی اشتہا‘‘ اور ذاتی پسند‘ ناپسند یا برادری بازی سے اوپر اٹھ کر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ پاکستان ہم سب کا ہے اور ہم اس کے یکساں مرتبے کے حامل شہری ہیں اور یہ کہ تمام سیاسی پارٹیاں محب وطن ہیں اور اپنی اپنی فہم اور صلاحیت کے مطابق سب کی سب اس کی ترقی اور عوام کے بہتر معیار زندگی کے لیے کوشاں ہیں اور یہ کہ غلطیاں سب سے ہوتی یا ہو سکتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہر اچھے کام کی تحسین اور اعتراف بھی کرتے ہیں چاہے اس کا کریڈٹ حکومت وقت یا ہمارے کسی سیاسی مخالف ہی کو کیوں نہ جاتا ہو، قومیں اپنی تختیاں لگانے یا مخالفین کی لگائی ہوئی تختیاں چھپانے سے نہیں بنتیں۔
اول تو یہ نمبر ٹانکنے والی روش ہی غلط ہے کہ کوئی حکومت یا عہدیدار اس کام کو بطور احسان یا کارنامہ پیش کرے اور اس کا کریڈٹ لے جو اس کا فرض منصبی ہے اور جس کے لیے اس کو اقتدار اور اختیار دیا گیا تھا، چلیے ہم کچھ دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ اس کی وجہ ہماری تاریخ‘ حالات‘ اجتماعی نفسیات اور نمائش پسندی یا کارگزاری کے اظہار کی وہ فطری خواہش بھی ہو سکتی ہے جو ہر انسان میں ہوا کرتی ہے۔
درخت اعلان کردہ تعداد سے کم ہی سہی مگر پھل اور سایا ہم سب کو دیں گے اور کراچی میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے اوراس کی تعمیر نو کا جو جذبہ پروان چڑھ رہا ہے‘ اس کا فائدہ آگے چل کر ہر پاکستانی کو ہو گا۔ اب نواز شریف کا مقدمہ ہو‘ نعیم الحق کا تھپڑ یا زرداری کے داؤ پیچ سب کے بارے میں خود ان کے حمایتی بھی اس ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں جس میں حق و انصاف اور پاکستانیت کو باقی ہر چیز پر ترجیح دینے کارجحان فروغ پا رہا ہے جو یقیناً ایک مثبت اور خوش آیند روش ہے۔ نگران حکومت کے اس بفر زون کو اگر اس رویے کے استحکام کے لیے استعمال کیا جائے تو میرے نزدیک یہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ ہو گا۔ انتخابات سے پہلے، اس کے دوران اور بعد میں کیا حالات و واقعات ہوتے ہیں۔
کون جیتے گا کون ہارے گا! دھاندلی کے کیا کیا الزامات لگیں گے اور خلائی مخلوق کا اس میں کہاں کہاں ذکر آئے گا، یہ سب باتیں تو اپنے وقت پر ہوتی رہیں گی ،الیکشن کا معمول کا ضابطہ اخلاق بھی جاری ہو گا اور اس کی خلاف ورزیاں بھی ہوں گی کہ راتوں رات کسی معاشرے کا کلچر نہ تبدیل ہوا ہے اور نہ ہو گا مگر اس بفرزون میں اس تبدیلی کا پودا ضرور لگایا جا سکتا ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے اختلافی نظریات سے قطع نظر اس ملک کے یکساں عزت اور ذمے داری کے حامل شہری ہیں اور ہمارے تمام تر نظریاتی اختلافات کی بنیاد اصل میں اس ملک کو ایک بہتر‘ مثالی‘ پرسکون اور ترقی یافتہ ملک بنانا ہے، سو آئیے ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھیں۔ دوسروں کی رائے کا احترام کریں اور جس کا جو حق بنتا ہے۔
وہ اس کو کھلے دل سے دیں۔ پچھلی حکومت نے جو اچھے کام کیے ہیں ان کی تحسین کریں اور دوسرے لوگ جو اچھے کام کرنے کا وعدہ اور ارادہ کر رہے ہیں ان کو توجہ اور غور سے سنیں اور سمجھیں اور اس کے بعد اپنی مرضی سے جس کو چاہیں ووٹ دیں مگر اس کا مقصد اور خواہش صرف اور صرف پاکستان کی ترقی اور باہمی محبت کا فروغ ہونا چاہیے کہ یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ایک مقولہ ہے کہ ’’اپنا حق چھوڑو نہیں اور دوسرے کے حق کو چھیڑو نہیں‘‘ اگر ہماری یہ نگران حکومت اس بفرزون میں صرف اس ایک بات کے پھیلاؤ کو ہی اپنا فرض اور استحقاق سمجھ لے تو ہم سمجھیں گے کہ اس نے اپنا حق ادا کر دیا، سو اس کی نذر اپنا ایک پرانا شعر نئی امیدوں اور حوصلے کے ساتھ کہ
امجد نہ قدم روک کہ وہ دُور کی منزل
نکلے گی کسی روز‘ اسی گردِ سفر سے
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ