میرا اور اس کا تعلق ساٹھ سال سے بھی زیادہ کا تھا۔ آج، جب میں اس کا ذکر کر رہا ہوں تو میرے دل میں ہول سا اٹھ رہا ہے۔ 1953 سے اب تک کتنے سال ہوئے؟ آپ خود ہی حساب لگا لیجئے۔ اس سال پاکستان کا پہلا مارشل لا لگا تھا۔ اور یہ مار شل لا صرف لاہور میں ہی لگا تھا کیونکہ احمدیوں کے خلاف تحریک نے اسی شہر میں زور پکڑا تھا۔ روزنامہ زمیندار پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اخبار کے ایڈیٹر مولانا اختر علی خاں گرفتار کر لئے گئے تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کے پوتے اور مولانا اختر علی خاں کے صاحب زادے منصور علی خاں نے ’’آثار‘‘ کے نام سے نیا اخبار نکالا تھا۔ اس اخبار کے لئے انہیں ’’نیاخون‘‘ چاہئے تھا۔ شاہد حمید تو ایسا نیا خون نہیں تھا کہ وہ کئی چھوٹے موٹے اخباروں کے چکر لگاتا ہوا اس اخبار میں آیا تھا لیکن میں اس کی نسبت سے نیا خون تھا۔ میں سب ایڈیٹر تھا اور وہ میرا نیوز ایڈیٹر۔ اس طرح ہمارا تعلق بڑے چھوٹے کا تھا۔ اور پھر وہ اس وقت بھی شادی شدہ تھا۔ لیکن وہ ایسا دبلا پتلا اور چھوٹا سا تھا کہ نیوز ایڈیٹر کا رعب تو رہا ایک طرف، الٹی ہماری دوستی ہو گئی تھی۔ اور پھر یوں ہوا کہ اس نے انگریزی ادب میں ماسٹر کر لیا، اور لیکچرر بن کر اخبار چھوڑ دیا۔ نیوز ایڈیٹر کی جگہ میرے لئے خالی ہو گئی۔ میں آثار اور زمیندار سے ہوتا ہوا آخرکار روزنامہ امروز کا ہو رہا۔ اور وہ منٹگمری اور دوسرے کئی شہروں میں لڑکے لڑکیوں کو پڑھاتا ہوا گورنمنٹ کالج لاہور سے ریٹائر ہوا۔ لیکن صحافت میں بھی تو اس نے نام کمایا۔ اور یہ نام اس نے روزنامہ آفاق میں کمایا۔ وہ لاہور شہر میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں پر کالم لکھتا تھا۔ اس کے یہ کالم بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ چونکہ وہ پاک ٹی ہاؤ س کے مستقل بیٹھنے والوں میں سے تھا اس لئے ناصر کاظمی اور انتظار حسین سے اس کی دوستی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ انتظار حسین کو روزنامہ آفاق میں وہی لے کر گیا تھا۔ اور اسی اخبار میں انتظار حسین نے کالم لکھنا شروع کئے تھے۔ ان دنوں انتظار حسین ’’خنداں‘‘ کے نام سے کالم لکھتا تھا۔
لیکن اس کی عملی زندگی کا آغاز تو ایک استاد کی حیثیت سے ہوا تھا۔ پاکستان آکر اس نے سب سے پہلے ایک اسکول میں ہی نوکری کی تھی۔ پھر وہ ایسا استاد بنا کہ کئی اخباروں میں کام کرنے کے باوجود ہمیشہ استاد ہی رہا۔ اس کے استاد ہونے کی یہ حیثیت اس کے ترجموں میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے ترجموں کی وجہ سے ہی علمی اور ادبی حلقوں میں مشہور ہوا۔ لیکن یہ ترجمے ایسے نہیں جیسے دوسرے ترجمہ کرنے والے کرتے ہیں۔ یہ ایک استاد کے ترجمے ہیں۔ اب وہ ٹالسٹائی کے ناول وار اینڈ پیس کا ترجمہ ہو، یا دوستویسکی کے ناولوں برادر کرامازوف اور کرائم اینڈ پنشمنٹ کا، یا جین آسٹن کے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈائس کا، یہ صرف ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ ان ناولوں میں جہاں تاریخی واقعات کا حوالہ آیا ہے، یا عیسائی عقیدے کا ذکر ہے، یا پھر کسی علاقے کا بیان ہے، یا کسی تاریخی خاندان کے احوال ہیں، وہاں ترجمہ کر نے والا یہ استاد اپنے پڑھنے والے پر ہی نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ خود ہی اس کے متعلق معلومات حاصل کرتا پھرے بلکہ وہ بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرتا ہے اور پورے کے پورے صفحے حاشیوں سے بھر دیتا ہے۔ اور پھر روسی ناولوں کا ترجمہ کر نے سے پہلے وہ یہ دیکھتا ہے کہ انگریزی میں ان ناولوں کے کتنے ترجمے ہو چکے ہیں۔ وہ تمام ترجمے پڑھتا ہے۔ اور جو انگریزی ترجمہ اسے اصل کے قریب نظر آتا ہے اس کا ترجمہ کرنا شروع کرتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام ایک استاد ہی کر سکتا ہے۔ ایسا استاد جو کمالیت پسند بھی ہو۔ کمالیت پسند یا انگریزی میں perfectionist۔ اس کی اس کمالیت پسندی سے انتظار حسین چڑ جاتا تھا۔ وہ کہتا ’’زیادہ پیسنے سے آٹا کرکرا ہو جاتا ہے‘‘۔ لیکن اس استاد کو اس کی پروا نہیں تھی۔ اور یہ استاد ہی تھا جو دوسروں کے ترجمے کی غلطیاں بھی نکالتا تھا۔ مقتدرہ قومی زبان کی انگریزی اردو لغت چھپی تو یہی استاد تھا جس نے اس لغت پر ایک طویل مضمون لکھا۔ اور لکھا کہ فلاں فلاں انگریزی لفظ کا غلط ترجمہ کیا گیا ہے حتیٰ کہ شان الحق حقی کی لغت چھپی تو اسے اس لغت میں بھی غلطیاں نظر آگئیں۔ آخر ان لغتوں سے وہ ایسا بیزار ہوا کہ اس نے خود ہی انگریزی اردو لغت تیار کرنا شروع کر دی۔ پورے دس گیارہ سال لگا کر اس نے انگریزی اردو کی ایک ایسی لغت تیار کر دی جسے آکسفرڈ ڈکشنری کی طویل لغت کے برابر کہا جا سکتا ہے۔ مگر آخری وقت تک وہ ترستا ہی رہا کہ یہ لغت اس کی زندگی میں چھپ جائے۔ لیکن وہ نہیں چھپی۔ کہتے ہیں اس کی وجہ اردو اور انگریزی کے اچھے پروف ریڈر کی کمی ہے۔ تو کیا لاہور میں ایسے پروف ریڈر نہیں ہیں جو انگریزی اور اردو زبان پر پوری قدرت رکھتے ہوں؟
مجھے اس سے شکایت رہی کہ اس نے ’’گئے دن کی مسافت‘‘ کے نام سے جو آپ بیتی لکھی وہ قیام پاکستان پر آکر ختم کر دی۔ وہ جس علاقے میں پیدا ہوا، جہاں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور جس طرح وہ گھر سے بھاگ کر دہلی پہنچا اور گاندھی جی کی پرارتھنا سنی، وہ سب تو اس کتاب میں موجود ہے، لیکن موجود نہیں ہے تو یہ احوال کہ پاکستان پہنچنے کے بعد اس پر اور اس کے خاندان پر کیا گزری۔ میں اس سے کہتا ہی رہا کہ پاکستان میں اس نے جو ساٹھ پینسٹھ سال گزارے ہیں ان پر بھی تو لکھو۔ لیکن وہ ٹال جاتا تھا۔ شاید وہ ڈرتا تھا کہ اگر اس نے اپنی یہ زندگی پوری سچائی کے ساتھ سب کے سامنے رکھ دی تو بہت سے لوگ اس سے ناراض ہو جائینگے۔ وہ ایسا مرنجاں مرنج انسان بھی نہیں تھا۔ وہ ناراض ہونا بھی جانتا تھا، اور ناراض کرنا بھی۔ لیکن خدا جانے کیوں اپنی آپ بیتی میں وہ ڈر گیا۔ حالانکہ پاکستان میں اس نے جو ساٹھ پینسٹھ سال گزارے وہی اس کی زندگی کا حاصل تھے۔ وہ خود بھی بہت کتابیں پڑھتا تھا اور اپنے دوستوں کو بھی پڑھواتا تھا۔ جب تک اس کی صحت نے اجازت دی وہ ہر سال ہی لندن جاتا۔ وہاں سے وہ نئی چھپنے والی کتابیں ہی نہیں لاتا بلکہ وہاں کے اخباروں میں ہماری دلچسپی کے جو مضمون چھپتے تھے وہ بھی لے آتا تھا۔ اسکے دوستوں میں کون ایسا تھا جس نے اسکی لائی ہوئی کتابوں سے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ ’’یہ کتاب انتظار حسین کیلئے ہے، یہ زاہد ڈار کے لئے اور یہ تمہارے لئے‘‘۔ اس طرح ہم نے نئی سے نئی کتاب پڑھ ڈالی۔ پہلے ہم پاک ٹی ہاؤ س میں ملتے تھے۔ ٹی ہائوس اجڑا تو ہم نے نیرنگ گیلری آباد کی۔ اب میرا اور اس کا گھر قریب ہو گئے تھے۔ ہر اتوار کو اس کی گاڑی میرے گھر کے سامنے کھڑی ہوتی۔ وہ مجھے لے کر نیرنگ گیلری جاتا۔ اور جب تک وہ بالکل ہی بستر سے نہیں لگ گیا اس کا یہی وطیرہ رہا۔ اس نے کتنی بیماریوں کا مقابلہ کیا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہمارے اکرام اللہ کہتے ہیں کہ اگر اس کا بیٹا لاہور کا بہت بڑا ڈاکٹر نہ ہوتا تو وہ کب کا اس دنیا سے جا چکا ہوتا۔ وہ بیمار ہوتا اور ٹھیک ہو جاتا۔ لیکن آخری بیماری نے اسے بستر پر ڈال دیا۔ دھان پان تو وہ پہلے ہی تھا، اب وہ بالکل ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا۔ وہ کئی سال سے گھر میں بستر پر پڑا تھا مگر کسی بھی اچھے اسپتال سے زیادہ وہاں اس کی دیکھ بھال ہو رہی تھی۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ ’’حیلے رزق بہانے موت‘‘۔ تو ایک ایسی بیماری اس کی موت کا بہانہ بنی جس کا کسی کو شبہ بھی نہیں تھا۔ پتہ بھی نہیں چلا اور اسے سرطان ہو گیا۔ اور جب پتہ چلا تو وہ پورے جسم میں پھیل چکا تھا۔
فیس بک کمینٹ