میرے کشمیری بھائیو! کشمیر جنت نظیر خطہ ہے ،یہ مری اور بھوربن سے زیادہ خوبصورت ہے ، میں حکومت آزاد کشمیر سے کہوں گا کہ ان وادیوں میں جو سرکاری زمین ہے وہاں آشیانہ ہاؤسنگ سکیمیں شروع کریں ،خواجہ سعد رفیق اور ان کی پیراگون سے مدد لیں۔۔۔ بلکہ ذرا ٹھہریے ۔۔ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پانچ ججوں نے مجھے نکال دیا اور مجھے پاکستان میں الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا ہے ، ان کا فیصلہ آپ نہیں مانتے نا اور ان کا فیصلہ کشمیر پہ تو لاگو نہیں ہوتا نا ! تو مجھے یہاں کوئی زمہ داری دیں ،آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں خود ہی چلائوں گا ، نوازشریف نے وزارت خزانہ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا تو یہاں کی وزارت خزانہ تو بہتر طریقے سے سنبھال سکتا ہے ، سنبھال سکتا ہے نا !
میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں درخت بہت ہیں تو کیوں نا یہاں لکڑی سے چلنے والے پاور پلانٹس کا جال بچھا دوں ، جنگل اور جھاڑ جھنکار بھی کم ہو جائے گا ، ہاؤسنگ سکیموں کے لئے زمین بھی نکل آئے گی اور آپ کو بجلی بھی ملے گی ، بلکہ یہ بجلی ہم چین اور بھارت کو ایکسپورٹ بھی کر سکتے ہیں۔۔۔
آپ جانتے ہیں کہ نوازشریف اصلی اور نسلی کشمیری ہے، اسی لئے 5 فروری کی تعطیل منانے یہاں آیا ہے ۔
یہ وہ دن ہے جب شیرکشمیر شیخ عبداللہ نے میرے دادا جان کے مشورے پر سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا اور درہ پیر پنجال پر رنجیت سِنگھ کے لشکر پہ پہلی گولی میرے دادا نے چلائی تھی۔
اگر ججوں نے مجھے نکال نہ دیا ہوتا تو آج کشمیر ترقی کی کئی منزلیں طے کر چکا ہوتا، ٹھہریئے میں نعرہ لگائوں گا مجھے کیوں نکالا اور آپ سب نے بہ آواز بلند تین بار کہنا ہے کیوں نکالا کیوں نکالا کیوں نکالا ۔۔۔
شاباش اتنی بلند آواز سے کہ اسلام آباد کی ججز کالونی میں بستروں میں لیٹے 5 فروری کی چھٹی مناتے ججوں کے کانوں تک یہ نعرہ پہنچ جائے۔۔۔۔
میرے کئی خواب تھے کشمیر اور پاکستان کے لیے ، کئی منصوبے میں نے بنا رکھے تھے لیکن ججوں نے صرف پانچ ججوں نے بیس کروڑ ووٹوں سے منتخب ہونے والے نوازشریف کو نکال باہر کیا۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔تین بار کہنا ہے کیوں نکالا کیوں نکالا کیوں نکالا۔۔
اگر مجھے نہ نکالا جاتا تو آج بھارتی فوج لائن آف کنٹرول پر آئے دن گولہ باری نہ کر رہی ہوتی ،پانچ فروری کو تو لائن آف کنٹرول پر جشن ہو رہا ہوتا ،دونوں طرف کے کشمیری مل کے پتنگیں اڑا رہے ہوتے، دودھ جلیبی کھا رہے ہوتے ، فالودہ کھا رہے ہوتے ، ناچ گا رہے ہوتے۔ہیں جی !
مظفرآباد سری نگر موٹر وے بن چکا ہوتا اس پہ گرین بس چل رہی ہوتی اور یہ جلسہ ہم ڈل جھیل کے کنارے کر رہے ہوتے اور میں پرانی لکڑی کے پھٹوں سے بنے اس گھٹیا سٹیج کی بجائے کسی لگژری ہائوس بوٹ کے عرشے پہ کھڑا آپ سے خطاب فرما رہا ہوتا ۔۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔ شاباش تین بار۔۔
آج میرے دونوں بیٹے آپ کے کشمیری بھائی یہاں نہیں آ سکتے اور وہ جلا وطنی کی حالت میں لندن میں بیٹھے ہیں ، اگر مجھے نہ نکالا جاتا تو وہ آج یہاں ہوتے اور جو اربوں پونڈ کی سرمایہ کاری وہاں کر رہے ہیں ، یہاں کر رہے ہوتے، آپ کے کشمیر میں آپ کے لئے لگژری ولاز اپارٹمنٹ اور فائیو سٹار سیون سٹار ہوٹل بنا رہے ہوتے ، ججوں نے ہمارا کیا بگاڑ لیا، انہوں نے تو آپ کا اور کشمیر کا مستقبل تاریک کر دیا ۔
ہم یہاں ریسٹورنٹس کا جال بچھا دیتے ، کشمیری کھانے دنیا کے بہترین اور لذیذ ترین کھانے ہیں ، دنیا بھر سے سیاح یہاں کشمیری کھابے کھانے آتے، ملک کو زرمبادلہ ملتا ، اور آپ غریب کشمیری جو ان ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں میں ویٹر اور دربان وغیرہ ہوتے انہیں تنخواہوں کے علاوہ ٹپ کی مد میں کتنی آمدنی ہوتی کبھی سوچا ہے آپ نے! پانچ صرف پانچ ججوں نے آپ کو ان ٹپس سے محروم کردیا۔۔۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔۔ تین بار ۔۔۔۔۔
اگر مجھے نہ نکالا جاتا تو میں یہاں سستے تنوروں کا جال بچھا دیتا، دو روٹیوں کے ساتھ ایک پیاز آپ کو فری ملتی اور ہاں چٹکی بھر نمک بھی ، اس طرح دریائے جہلم کے کنارے کوئی کشمیری بھوکا نہ سوتا ۔۔۔ یہ پانچ جج ہیں جنہوں نے بھوکے کشمیریوں کو پیٹ بھر کھانے سے محروم کر دیا۔۔
اللہ کے فضل سے پنجاب میں گنا بہت ہوتا ہے ،اتنا کہ ہماری شوگر ملز سے بھی وافر ہو جاتا ہے ،نواز شریف کشمیر کے کونے کونے میں گنے کا رس نکالنے کے بیلن اور گڑ بنانے کے کڑہائو سمال بزنس سکیم کے تحت آسان قسطوں پر آپ کو مہیا کرتا ، لکڑی یہاں بہت ہے ، ہزاروں بیروزگار کشمیری گڑ کی صنعت سے وابستہ ہوتے ، آپ کو اچھی چائے اور صحت مند میٹھا کھانے کو ملتا، کشمیر کے ڈینٹل سرجنز کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا۔۔۔۔ لیکن پانچ صرف پانچ ججوں نے ۔۔۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔۔ شاباش تین بار۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ