ہم نے لکھا ”سنگ دل کیسے پیدا ہوتے ہیں‘‘۔ اس پر ہمیں اپنے معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے با شعور اصحاب کی جانب سے جو تبصرے ملے‘ ان میں سے دو تبصرے ہم آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتے ہیں۔ ان دونوں تبصروں میں بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج کے سانحے کو مختلف انداز میں دیکھا گیا ہے۔ ہمارے ناول نگار سابق سرکاری افسر اور حال استاد طارق محمود لکھتے ہیں ”استاد کے ہولناک قتل کے بعد میری پریشانی یہ ہے کہ کیا کسی بھی مضمون کا کوئی بھی استاد پوری آزادی کے ساتھ خرد افروزی اور روشن خیالی کا اظہار کرنے کی ہمت کر سکتا ہے؟ بہت مشکل ہے۔ ہم نے بظاہر انتہا پسندی اور شدت پسندی کے خلاف کامیابی حاصل کر لی ہے، لیکن دماغی اور فکری طور پر ایسا لگتا ہے جیسے ہم تاریک دور (تاریک مستقبل) کی طرف گامزن ہیں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی جی سی یونیورسٹی کی ایک اور استاد پروفیسر صائمہ ارم نے لکھا ہے ”پاکستان میں 64 فیصد نوجوان ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر نوجوان ڈپریشن، ٹینشن، اینگزائٹی یا بائی پولر ڈس آرڈر کا مریض بن چکا ہے۔ وجوہ وہی ہیں جو آپ نے بیان کی ہیں‘‘۔ انہوں نے ٹی وی اینکروں سے بھی شکایت کی ہے کہ وہ ہر وقت سیاست پر ہی باتیں کرتے رہتے ہیں، جیسے ہمارے معاشرے میں سیاست ہی سب کچھ ہو۔ لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ یہ دو آرا ہیں، جو اگرچہ مختلف نظر آتی ہیں لیکن اس بیماری کی نشان دہی کرتی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری معاشرتی زندگی میں سرطان کی طرح پھیلتی چلی گئی ہے۔ طارق محمود صاحب کی پریشانی یہ ہے کہ تنگ نظری اور شدت پسندی ہماری ذہنی ساخت کا اس طرح حصہ بن چکی ہے کہ ہم اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ سچ اور حق ہے‘ جسے ہم سچ اور حق سمجھتے ہیں اور چونکہ ہم اسے سچ اور حق مانتے ہیں اس لیے اس کے خلاف کسی کی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو یہ بیماری آج یا کل نہیں لگی۔ یہ بیماری اتنی ہی پرانی ہے جتنی ہماری حالیہ تاریخ۔ ضیاالحق کا دور تو اس کا ظاہری نمونہ تھا۔ اس کے آثار تو1953ء میں نظر آنا شروع ہو گئے تھے، جب لاہور میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا تھا۔ ایوب خاں کا دور اس اعتبار سے کسی حد تک بہتر کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تنگ نظری اور فرقہ پرستی پر قابو پانے کی کوشش کی گئی تھی۔ عائلی قوانین جیسے روشن خیال قانون اسی زمانے میں نا فذ کئے گئے تھے۔ یحییٰ خاں کے زمانے میں جہاں ہمارا ایک بازو (مشرقی پاکستان) ہم سے الگ ہوا وہاں نوبزادہ شیر علی خاں نے ان حلقوں کی پیٹھ تھپکی جو رجعتی ماضی کے پرستار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب ہمارے لیے فکری آزادی کا تحفہ لے کر آئے تھے مگر برا ہو سیاسی مصلحت کا کہ آخر میں وہ بھی پاکستانی معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اب یہ سلسلہ شروع ہوا تو ضیاالحق نے اسے انتہا کو پہنچا دیا۔ اس کے بعد تو چل سو چل۔9/11 کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں نے شدت پسندی اور تنگ نظری کے سیلابی دروازے کھول دیے اور پھر یہ سیلاب بڑھتا ہی چلا گیا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہمارا معمول بن گئی۔ خدا خدا کر کے اب ہم نے دہشت گردی پر قابو پا لیا ہے۔ اور ان جماعتوں اور گروہوں پر پابندی لگا دی ہے جنہیں ان کی موجودگی کے باوجود کالعدم کہا جاتا تھا ( کالعدم یعنی غیر موجود جیسی) لیکن کیا ان پر پابندی لگانے سے ذہنی اور فکری طور پر ہمارے دل و دماغ میں کشادگی آ گئی ہے؟ یہ سوال ہمیں آج بھی پریشان کر رہا ہے۔ بہاولپور کا واقعہ اس قسم کا پہلا یا اکیلا واقعہ نہیں ہے۔ مشعل خاں کا سانحہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس کے مظاہر ہمیں آئے دن دکھائی دیتے رہتے ہیں۔
اب رہی صائمہ ارم کی شکایت تو انہوں نے کسی حد تک مبالغے سے کام لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارا ہر نوجوان ان بیماریوں کا شکار ہو جن کا انہوں نے ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بیماریاں بہرحال ہمار ے معاشرے میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ریاض بھٹی ماہر نفسیات ہیں۔ ہر سال اقوام متحدہ کی طرف سے دماغی صحت کا دن منایا جاتا ہے تو ڈاکٹر صاحب کی انجمن بھی اس موقع پر ایک تقریب کرتی ہے۔ اس سال بھی یہ تقریب ہوئی۔ اس تقریب میں ہماری نوجوان نسل کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کئے گئے وہ کم سے کم ہمارے لیے تو نہایت ہی پریشان کن تھے۔ اب ہمیں یہ تو یاد نہیں کہ ان کے حساب سے کتنے فیصد نوجوان نشے کے عادی ہو چکے ہیں‘ اور کتنے فی صد ذہنی خلفشار کا شکار ہیں‘ لیکن ان کے مطابق ان نوجوانوں کی تعداد کافی ہے۔ وہاں موجود ڈاکٹروں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ آج کے ماں باپ اپنے بچوں پر پوری توجہ نہیں دیتے۔ چونکہ ہر آدمی اپنے اپنے کام میں اتنا مصروف ہے کہ اسے اپنے بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ملتا‘ اس لئے بچے تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان کی دنیا ان کا موبائل فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی جھوٹی سچی کہانیاں ہیں۔ یہ نوجوان اپنا بیشتر وقت اسی مشغلے میں صرف کرتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ ان کا میل جول بھی زیادہ نہیں رہتا۔ لیکن یہ بچے زیادہ تر کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ درمیانے طبقے کے بچے بھی کسی حد تک اس میں شامل ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔ اگرچہ تنگ نظری اور شدت پسندی کھاتے پیتے طبقے میں بھی نظر آتی ہے لیکن یہاں ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ یہ رجحان یا بیماری اس طبقے کے بچوں میں زیادہ ہے جو سرکاری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں یا پھر ان کی مادر علمی وہ مدرسے ہیں جو مال دار طبقوں کے چندے پر چلتے ہیں۔ ہمارے سابق چیف جسٹس صاحب پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے ناراض رہتے تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے ان اداروں میں طلبہ سے لی جانے والی فیس میں کمی کرانے کے حکم کے ذریعے کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہی ہیں‘ جو موجودہ دور کے عالمی معیار کے مطابق ہمارے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ آپ سرکاری تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ اداروں کا موازنہ کر کے دیکھ لیجئے، دونوں کے درمیان زمین آسمان کا فرق نظر آ جائے گا۔ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے نوجوان دنیا کے بڑے سے بڑے کاروباری اداروں میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ چونکہ ان کی تعلیم اسی معیار کے مطابق ہوتی ہے اس لئے ان کی ذہنی ساخت بھی اسی طرح تشکیل پاتی ہے۔ اب رہی فیس کی بات، تو اگر ان اداروں میں پڑھانے والے عالمی معیار کے استاد ہوں گے تو انہیں مشاہرہ بھی اسی حساب سے دینا پڑے گا۔ اس کے لیے طلبہ سے فیس بھی وہی لی جائے گی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ وہ ماں باپ جو بھاری فیس دے کر اپنے بچوں کو ان پرائیویٹ اداروں میں پڑھاتے ہیں وہ اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لئے ہی تو ایسا کرتے ہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے بچے عام طور پر تنگ نظر نہیں ہوتے۔ اس لئے کہ انہیں باہر کی دنیاسے مسابقت کرنا ہوتی ہے۔ اب وزیر اعظم عمران خاں صاحب یکساں نظام تعلیم کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ان کا مقصد سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے معیار کے برا بر ہی لانا ہے (جو موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتا) تو سبحان اللہ۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر پرائیویٹ اداروں کو بھی سرکاری اداروں کی ڈگر پر چلانا مقصود ہے تو اس سے بڑی خرابی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ صائمہ ارم نوجوان نسل کے ڈپریشن وغیرہ کی بات کرتی ہیں تو ان کا اشارہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ کی طرف ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اب یہ ان اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے طلبہ کی معیاری تعلیم کا دھیان رکھنے کے ساتھ ان کی ذہنی اور دماغی صحت کا خیال بھی رکھیں۔ ان کی ذہنی اور اخلاقی تر بیت بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ ذرا سوچیے، کیا یہ بچے ڈپریشن اور ذہنی خلفشار کا شکار اس لئے نہیں ہوتے کہ انہیں باہر کی دنیا سے مقابلے کا خوف لاحق ہوتا ہے؟
(بشکریہ:روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ