ایک بار ایک گاؤں میں ایک پیر صاحب نے ایسا اعلان کیا کہ سننے کے بعد کئی لوگوں کے اوسان خطا ہو گئے کہ یہ پیر صاحب کا کیسا فتویٰ ہے ، اعلان یہ تھا کہ گاؤں کا ہندو حلوائی وہابی ہو گیا ہے۔ لوگوں کے لئے یہ بات حیرت انگیز تو تھی مگر اس کی مقبولیت اور پیر صاحب کا روحانی مقام دیکھتے ہوئے کوئی اس سفید جھوٹ کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات نہ کر سکا ، ماجرا کچھ ہوں تھا کہ پیر صاحب کے ہاں ہر جمعرات ایک میلہ منعقد ہوتا اور اس میں مریدین بڑی تعداد میں شرکت کرتے ،اور فاتحہ ارواح اور ختم کے لئے حسب توفیق شیرینی بھی لیکر جاتے ، وہاں ایک نووارد مگر ہوشیار حلوائی تولہ رام نے جب دوکان کھولی تو اس نے کارر وائی یہ ڈالی کہ تین کلو خالص دیسی گھی کی مٹھائی کا ٹوکرا لیکر پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، اور پھر اس نے اس کو معمول بنا لیا اب کیا تھا اس پیر کے مریدوں نے اپنے پیر بھائی کی دوکان سے مٹھائی خریدنا فرض سمجھ لیا اور یوں چند ماہ میں تولہ رام نے تقریبا سب کی چھٹی کرادی ، جب تولہ رام نے دیکھا کہ کاروبار چل نکلا ہے تو اس کو احساس ہوا کہ پیر کا ہفتہ وار تین کلو کا ٹوکرا ایک فضول خرچہ ہے تو اس نے ایک جمعرات حاضری نہ دی ، جس بات کو شائد اتنا محسوس نہ کیا گیا مگر تیسری غیر حاضری پر پیر صاحب کو صبر جواب دے گیا اور جب مریدین نے تولہ رام کی غیر حاضری کی وجہ پوچھی تو پیر صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ تولہ رام وہابی ہو گیا ہے ، اور معاملہ مذہبی سے نکل کر مسلکی بن گیا جس کی نزاکت کو پیر صاحب خوب سمجھتے تھے اب آگے کیا ہوا ہوگا آپ سمجھ سکتے ہیں۔
پچھلے دو ماہ میں ملک میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات و ممکنہ حادثات یہ بتاتے ہیں کہ عمران خان کے ساتھ سیاسی لاڈلے سے سیاسی یتیمی کے سفر کے دوران جو کچھ بھی ہوا یا تو وہ مقبولیت کے زعم میں اس کو اپنے جذبات ،ضد اور انا پرستی اور دباو سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا ان کی خواہش ہے کہ شاید کوئی ایسے معجزات رونما ہوں گے جو ان کو روحانی و سیاسی اعتبار سے مقام پر دوبارہ لا کھڑا کریں گے کہ شاید دوبارہ ان کی پاس مٹھائی کی ٹوکری واپس آجائیں گے، اس انکی خوش فہمی ان کی ذات کی حد تک درست بھی ہے کیونکہ پچھلے 15 سالوں میں جتنی رعایت و سہولت ان کو حاصل رہی ہے اور جس طرح معاملہ سازوں نے ا ن کی مدد کی ہے اور ہو رہیں ہے اس میں انکے کچھ مطالبات غلط بھی نہیں ، کیونکہ ان کے معاملے میں حالات و فیصلہ سازوں نے جو فیاضی اور غلطیوں سے چشم پوشی دکھائی ہے اور شائد اب بھی دکھائی جارہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔
جب ملک میں تحریک عدم اعتماد کی تیاری ہورہی تھی تو انہوں نے بھی اپنے طور پر مکمل سیاسی کوشش کی کہ کسی جانب سے مدد مل جائے یا وہ سیاسی طور پر اپنے حریفوں کو اور اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھ سکیں لیکن جب ان کو پورا پورا یقین ہو گیا کہ اتحادی اور حلیف اب ان کی ساتھ نہیں رہیں گے تو انہوں نے کل سامنے آنے والی آیڈیو کال کی جس میں وہ ملک ریاض صاحب کے ذریعے زرداری صاحب کو سیاسی ساتھ کا پیغام دے رہے ہیں اس میں ناکامی کے بعد 27 مارچ کو اپنے تھیلے سے غیر ملکی سازش کا ایسا کبوتر نکالا کہ اپنی مخالف پوری قوم کو غدار قرار دے دیا ، اور اب جو بھی اس لاڈلہ کے ساتھ نہیں وہ غدار ہے کیا عدلیہ کیا دیگر ادارے سبھی گویا "وہابی ” ہو گئے ، اور پھر لاڈلا 10 اپریل کے بعد اپنے اعلان کے مطابق "خطرناک ” بھی ہو گیا جس وقت خطرناک خان اقتدار سے اترا پاکستان میں شاپنگ کا عروج تھا لوگ عید کی تیاریوں میں لبرٹی لاہور اور ڈولمن مال آرہے تھی اس دن وہاں میوزیکل کنسرٹ اور پی ٹی آئی کے جھنڈوں والوں نے کچھ ٹریفک میں خلل ڈالا زیادہ شاپنگ کا رش اور اوپر فوٹو شاپ کا تڑکا بس پھر تو لاڈلا اور خطرناک ہوگیا ، میں لبرٹی مارکیٹ اپنے دفتر سے نکل کر گھر آیا تو ایک مناسب تعداد ضرور موجود تھی مگر میڈیا اسے کئی ہزار بیان کررہا تھا اور کچھ جرنلزم کے مہرو شاکر ایسا ماحول پیدا کررہے تھے کہ شائد ڈر کر عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم نہ بنادیا جائے
ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے مجھے اس بات کا انداز ہ ہے کہ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کے جلسے میں 20 سے 25 ہزار افراد آجائیں تو ایک بہت بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے کیونکہ وہ بیس سے پچیس ہزار افراد بیس سے پچیس ہزار گھرانوں سے نکل کرآ تے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پچیس ہزار گھرانوں میں یہ سیاسی جماعت موجود ہے لیکن جب سے پی ٹی آئی سیاست میں آئی ہے اس کے ایک نیا طرز عمل شروع ہوا وہ یہ ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ دنیا کا سب سے بڑا جلسہ پاکستان کا سب سے بڑا جلسہ اور حیرت اس بات کی بھی رہی کہ ایک طرف تو وہ دعوی کرتا ہے کہ اسلام آباد میں دس لاکھ افراد تھے اور اس سے اگلے ہی دن جو جلسہ پشاور میں ہوا جس کو چند ہزار لوگ موجود تھے وہیں پر خان صاحب نے کہا کہ میں نے زندگی میں اتنے زیادہ افراد نہیں دیکھے تو یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔
ہمارے میڈیا نے شاید خان صاحب کی مقبولیت ہم پر تھوپی اور نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کا وہ جلسہ جس میں تقریبا دس سے بارہ ہزار افراد تھے وہ بھی لاکھوں میں اور یہ سمجھ لیں کہ ملتان اسٹیڈیم گنجائش 22 ہزار لوگوں کی ہے جس میں 5 ہزار کرسیاں لگائی گئی تھی تو وہ بھی شامل کرلیں تو اس کو بھی کئی لاکھ کا بتایا گیا پتہ چلا کہ جیسے 200 ایم ایل کے پیالے میں کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں نے 1000 ایم ایل دودھ ڈال دیا ہے ۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خان صاحب کو اس قدر خوش فہمی ہو گئی کہ 25 لاکھ افراد ا سلام آباد میں لانے کا پروگرام بنا بیٹھے ، لوگ شائد نکل بھی آتے مگر شیخ رشید کے خونی مارچ کے اعلانات نے۔ اور ادھر سے حکومت کی جانب سے بالخصوص جس وقت مولانا فضل الرحمان نے یہ اعلان کیا کہ ہمارے خونی ہو یا بادی بارہ کا علاج حکیم ثناءاللہ کریں گے اس نے اس قسم کے احتجاج سے ناواقف پی ٹی آئی کے ورکروں کو خوف زردہ کردیا اس سے قبل لانگ مارچ ہوا تو اس وقت عمران خان صاحب کو اپنے سیاسی کزن طاہرالقادری کی حمایت حاصل تھی جن کے ورکر سختیاں برداشت کر سکتے تھے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد شدید جذباتی تھے عمران خان صاحب آئے تھے یا بلائے گئے تھے بہرحال اس وقت حالات ساز قوتیں عمران خان کے ساتھ ہیں جو تھے وہ اسلام آباد میں گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے والی مثال تھا مگر اس بار وہ آزادی مل سکی کچھ اور طرح کے لوگ بطور موسیقار متعین تھے جو کہ اپنی لاٹھیوں سے مختلف قسم کی میوزک بجا رہے تھے لیکن دیکھا جائے تو عمران خان کے ساتھ ہی نکلی بھی نہیں ہمیشہ دیکھا گیا کہ اگر پولیس یہ دیکھتے ہیں کہ افراد بہت زیادہ ہے اور ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں انسان کا اپنا ہوسکتا تو پولیس راستہ دے دیتی ہے مگر دیکھیں تو صوبہ سرحد سے بھی تو دیکھا جائے وہاں سے بھی بہت بڑی تعداد ایسی نہیں تھی کہ عمران خان کے جلسے کو اسلام آباد میں چار چاند لگا سکتی ہے ، تو خان صاحب نے پسپائی کا فیصلہ کیا اور شائد انکو اندازہ بھی ہوگیا کہ اس تصادم کی سیاست سے شائد کچھ حاصل نہ ہو اگرچہ سازش کے بیانیہ ہو کچھ دیر پذیرائی ملی مگر عوام کے ذہنوں پرفارمنس کا عنصر موجود ہے اور ادھر کچھ آئنی عہدوں پر تقرری میں لیڈر آف اپوزیشن کی مشاورتی حیثیت کم و بیش وزیر اعظم کے برابر ہے جس سے ان کے سازش ، غدار اور نفرت کے بیانیہ نے دور کردیا ہے اور شائد اب عمران خان خود بھی امریکہ دشمن بیانیہ سے پریشان ہے اور جب بھی یہ نعرہ امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے لگتا ہے تو خان صاحب اور انکے حواریوں کے چہرے اور اڑتے رنگ دیکھنے والے ہوتے ہیں ۔
ادھر پنجاب میں 25 سیٹوں سے محرومی ، اور ان پر ضمنی انتخابات اور ان حلقوں میں موجودہ الیکٹیبلز کی مقبولیت کیونکہ ان میں سے اکثریت منحرف اراکین 2018 میں پی ٹی آئی کے امیدوران کو شکست دے کر منتخب ہوئے ہیں جن میں بڑی مثال ملتان میں سلمان نعیم کی ہے جس نے اس وقت وزیر اعلیٰ کے مظبوط امیدوار شاہ محمود قریشی کو ذلت آمیز شکست دی، اور پھر عمران خان کے بائکاٹ اور انتخاب مخالف بیانیہ اور موجودہ آزادی مارچ میں پنجاب کے عوام کی عدم دلچسپی اس وقت خان صاحب کے لئے شدید مسائل ہیں اور اس سے بڑا مسئلہ ہے ان کا اپنے علاؤہ سب کو ملک دشمن اور غدار کہنا ، مگر موجودہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات ، اتحادی حکومت میں اعتماد ، اس بات کو متقاضی ہے کہ اس وقت خان صاحب مذاکرات اور پارلیمانی سیاست کی راہ اختیار کریں اور استعفوں پر بھی جلداز جلد فیصلہ کریں ورنہ اتحادی حکومت اس داؤ میں بھی ہے کہ تصدیق شدہ اہم رہنما جیسے شاہ محمود، فواد چوہدری (5 لاکھ کے مجمع ) والے شیریں مزاری تیں اور استعفوں کو الیکشن کمیشن بھیج کر ضمنی انتخاب کی راہ ہموار کریں اور ممکنہ کامیابی کی صورت میں عددی برتری کے فرق کو بھی بہتر کیا جائے ، اب حالات خان صاحب سے کچھ ایسے فیصلے کروائے گا جس سے ان کے سخت فیصلوں کو یوٹرن کا سامنا کرنا پڑے اور ان لوگوں سے مذاکرات کرنے پڑیں جو ان کے نزدیک غدار ہیں اور غیر ملکی ایجنٹ ہیں، اور یہ ایک مشکل عمل ہے کیونکہ جس تولہ رام کو وہابی کہہ چکے ہیں اس سنی قرار دیکر ان کے ساتھ بیٹھنا ان کے جذباتی نہیں مگر وقتی طور پر متاثر ہوکر جلسوں اور عرس کی رونق بڑھانے والے سیاسی طور پر باشعور حمایتیوں کے لئے ضرور سوچنے کا باعث ہوگا کیونکہ خانصاحب نفرت ، تقسیم ، گالی گلوچ ، کرپشن ، اپنے آپکو معروف اور مخالفین کو منکرات ، اور اب سیاسی جہاد کے بیانیہ کے ذریعے دن بدن خود کو بند گلی میں لے جارہے ہیں مگر ظاہر ہے سیاسی حقیقتیں کچھ اور تقاضے کررہے ہیں اور وہ لازماً فیصلے زمینی حقائق پر مبنی ہی ہوں گے مگر عام آدمی کے ذہنوں میں ایک سوال ضرور رہے گا کہ
تولہ رام نے وہابیت سے سنی کا واپس سفر کیسے کیا ؟؟؟