ہم جو آج تک تمام مردوں کو اپنے جیسا نکما نالائق اور سست سمجھتے تھے کہ سب چھٹی کے دن گھر پڑ کے اینڈتے رہتے ہوں گے یا ناز و نعم سے توند کی پرورش کا سامان کرتے ہوں گے۔۔ اپنے ان خیالات سے از حد شرمندہ ہیں۔۔کورونا کے ایام میں ہاتھ آئی مفت کی چھٹیوں میں یارانِ نکتہ داں نے جو کار ہائے نمایاں انجام دئیے اور دئیے ہی جارہے ہیں ہمیں ان پر رشک آنے لگا ہے ۔۔کہ وہ اصحاب جو پکانا ریندھنا تو کجا سوئی میں دھاگا ڈالنے کے رودار نہیں تھے آج کل امور خانہ داری میں طاق پائے جا رہے ہیں۔۔
کہاں یہ عالم تھا کہ دفتر سے گھر آکر جو بستر پکڑا تو کھانا پینا وہیں اور اگلی صبح دفتر سے پہلے کمبل نہیں چھوڑنا کی سی حالت اور کہاں اب کے حالات یہ کے شلجم گوشت پکا رہے ہیں اور احباب کے ساتھ نت نئے پکوانوں کی تراکیب کا تبادلہ کر رہے ہیں۔۔ اب اس تبدیلی ماہیت کو کارگزاری کہئے یا کارستانی مگر اس میں ماں باپ کی تربیت یا کارکناں قضاء و قدر کا قطعی کوئی ہاتھ نہیں ۔۔ یہ کام اس امت نے انجام دیا ہے کہ جسے ہم عرف عام میں بیوی کہتے ہیں ۔۔ان بیبیوں نے جانے اس لوہے میں سے سونا نکالنے کا ہنر کہاں سے سیکھ لیا اور اب جو یہ نسخہ کیمیاء ان کے ہاتھ لگ ہی گیا ہے کہ مرد سے بھی گھر کے کام کروائے جاسکتے ہیں تو لڑکوں کے اماں باوا کو چاہئے کہ آئندہ بیٹوں کو امور خانہ داری بھی اولین ترجیح کے طور پر سکھائیں یہ نہ ہو کہ صاحب زادے تعلیم حاصل کرکے نوکر ہو گئے تو رشتے کے لیے لوگ ان کے گھر کے چکر لگانے لگ جائیں۔۔ اب آئندہ امور خانہ داری سلائی کڑھائی اور بچوں کے پوتڑے دھونے بدلنے کی پوچھ گچھ بھی ہوا کرے گی کیوں کی نور چشمی کے ابا خود ان امور کے ماہر ہوں گے اور لڑکے کی قابلیت کا امتحان لیں گے۔
فیس بک کمینٹ