انسانی ہمدری کی سب سے بڑی مثال عبدالستار ایدھی کے بعد وہ بوڑھی یورپی خاتون رُوتھ ہیں جنہوں نے اپنی پوری حیات پاکستان میں جذام کے مریضوں اور اس کی روک تھام کے لیے وقف کر دی۔۔۔ وہ جوانی میں کراچی آئیں اور انہوں نے یہ تو نہیں دیکھا کہ یہ لوگ مسلمان ہیں، گندمی رنگت کے ہیں، جانے کون کون سی نسلوں کے ہیں، انہوں نے دیکھا کہ وہ انسان ہیں اور شدید ابتلا میں ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اُن کے نام اور کام سے واقف ہیں۔ بہت عرصہ پہلے میں نے لاہور کی گلبرگ مین مارکیٹ کے چوک میں ایک کار میں سوار مدر تھریسا کو دیکھا تھا، اور اب تو وہ سینٹ تھریسا قرار دی چکی ہیں تو میں اُن کی انسانی عظمت کا قائل تو بہت ہوں لیکن میں نے ہمیشہ ایدھی صاحب کو ان سے افضل اور اعلیٰ قرار دیا۔ اس لیے نہیں کہ وہ عیسائی تھیں اور ایدھی صاحب مسلمان اور پاکستانی تھے بلکہ اس لیے کہ مدر تھریسا کی خدمت میں کہیں نہ کہیں ایک لالچ تھا کہ شاید میرے حسن سلوک سے کوئی شخص عیسائی ہونے پر مائل ہو جائے جب کہ ایدھی صاحب کے اندر نہ کوئی غرض تھی اور نہ ہی کسی ثواب کی تمنا۔۔۔ وہ صرف انسانوں کی خدمت اس لیے کرتے تھے کہ وہ انسان تھے۔۔۔ ایک بار جب الطاف حسین کے کارندوں نے اُن پر کراچی کی زمین تنگ کر دی تو انہوں نے کہا تھا کہ میرا کیا ہے میں فلپائن یا افریقہ چلا جاؤں گا۔ میں نے تو انسانوں کی خدمت کرنی ہے وہ جہاں بھی ہیں۔۔۔ ایک بار کسی پارسا شخصیت نے انہیں چند ایمبولینس گاڑیاں پیش کیں اور کہا کہ وہ انہیں صرف مسلمان مریضوں کے لیے استعمال کریں۔ ایدھی صاحب نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایک شخص زخمی حالت میں سڑک پر پڑا ہے تو کیا اس سے پہلے یہ پوچھوں گا کہ بابا آپ مسلمان ہو کے نہیں۔۔۔ اگر نہیں تو اسے وہیں چھوڑ آؤں گا۔۔۔ اسی نوعیت کا ایک واقعہ ڈاکٹر انیس احمد کے ساتھ پیش آیا۔ وہ جناح ہسپتال کے انچارج ہونے سے پیشتر گوجرانوالہ کے ایک سرکاری ہسپتال میں فرائض سر انجام دے رہے تھے جب ایک مخیر حضرت نے ہسپتال کے لیے خون تبدیل کرنے والی ڈائلسس کی مشینیں اس شرط پر عطیہ کرنے کی پیش کش کیں کہ ان مشینوں پر صرف مسلمانوں کا خون تبدیل کیا جائے گا۔۔۔ ڈاکٹر انیس احمد نے انکار کر دیا کہ مریض کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔۔۔ وہ صرف مریض ہوتا ہے۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر مسلم مریض آئے اور میں کہوں کہ یہ مشین صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ اس کا علاج کرنے سے انکار کر دوں۔۔۔ اُن حضرت نے اپنی شرط منسوخ کر دی اور کہا کہ بے شک آپ نے مجھے راہ راست پر ڈالا ہے۔
اب اگر مریضوں اور ڈاکٹروں کی بات ہو رہی ہے تو ’’ڈاکٹر، جن کی کوئی سرحد نہیں ہے‘‘ تنظیم کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ یہ تنظیم فرانس میں قائم ہوئی اور ان کا منشور یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کی کوئی قومیت نہیں ہوتی، اس کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ دنیا بھر میں جہاں بھی انسان کسی آفت کسی بیماری میں مبتلا ہے ہمیں وہاں اس کی مدد کے لیے پہنچنا ہے۔ اس تنظیم کے ممبر جب بھی ’’ڈاکٹر، جن کی کوئی سرحد نہیں‘‘ کی جانب سے طلب کیے جاتے ہیں، وہ اپنی پریکٹس، ملازمتیں وغیرہ چھوڑ کر دنیا کے اس خطے کی جانب اپنے خرچ پر سفر اختیار کرتے ہیں جہاں دکھی انسانیت زخموں سے کراہ رہی ہوتی ہے۔ درجنوں ایسے ڈاکٹر انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے ہلاک ہو چکے ہیں۔۔۔
ڈاکٹروں اور مسیحاؤں کی بات اگر چل نکلی ہے تو کمیونسٹ کیوبا کے ذکر کے بغیر بات نہیں بنتی۔۔۔ کیوبا کے میڈیکل سسٹم کے بارے میں بین الاقوامی طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ یہ دنیا بھر میں سب سے بہترین طبی نظام ہے۔ یہاں تک کہ کچھ برس پیشتر برطانیہ نے اپنے قدیم طبی نظام کو ترک کر کے کیوبن مثال کے مطابق اپنے نظام میں تبدیلیاں کیں اور اس کا اقرار کیا۔۔۔ دنیا میں آبادی کے حوالے سے سب سے زیادہ ڈاکٹر کمیونسٹ کیوبا میں ہیں۔ میرا بیٹا سلجوق اگرچہ پاکستان فارن سروس سے متعلق لیکن ان دنوں وہ یو این او کی سکیورٹی کونسل کے صدر کے سٹاف میں ایک سینئر ایڈوائزر کی حیثیت میں فرائض سر انجام دے رہا ہے۔ پچھلے برس جب دنیا بھر کے سربراہ مملکت یو این او کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک آئے تو اس نے یو این او میں کیوبن سفیر کی سفارش سے کیوبا کے صدر راہول کاسترو سے ملاقات کی۔ اس نے راہول صاحب کو تبایا کہ میرے والد صاحب کے کتب خانے میں نہ صرف کیوبن انقلاب، آپ کے بھائی فیڈل کاسترو کی انقلابی جدوجہد کی کتابیں میری نظروں کے سامنے رہتی تھیں بلکہ آپ کے ساتھی چے گویرا کی ڈائریاں بھی اس کتب خانے کی زینت تھیں۔ اس نے راہول کاسترو کو بتایا کہ پاکستان کے عوام کیوبا اور فیڈل کاسترو کے اس لیے بھی مداح ہیں کہ آپ نے آزاد کشمیر کے ہولناک زلزلے کے بعد کیوین ڈاکٹروں اور نرسوں کی ایک بڑی ٹیم کو پاکستان روانہ کیا تھا۔۔۔ اور ہماری خواتین ہمیشہ کیوبا کی نرسوں سے اس لیے علاج کرواتی تھیں کہ وہ بہت مہربان تھیں اور اُن کے بال ان کی مانند کالے تھے۔ فرائض کی ادائیگی کے دوران کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ فیڈل کاسترو نے ٹیلی ویژن پر اس تباہ کن زلزلے کی رپورٹ دیکھی اور کہا کہ ہمیں پاکستانیوں کی مدد کرنی چاہیے۔۔۔ اس پر کسی بنیاد پرست کمیونسٹ نے کہا کہ سر۔۔۔ پاکستانی تو شروع سے ہی امریکہ کے چمچے رہے ہیں تو کاسترو نے کہا، مجھے اس سے کچھ غرض نہیں، وہ انسان ہیں اور مصیبت میں ہیں تو ہمیں اُن کی مدد کرنی چاہیے۔
سکھوں کے گوردواروں میں بھی خدمت کے حوالے سے کوئی مذہبی تخصیص نہیں ہے۔۔۔ کسی بھی مذہب کا شخص وہاں کھانا کھا سکتا ہے اور رات بسر کر سکتا ہے۔ یورپ کی جانب رزق کی تلاش میں جانے والے پاکستانی نہ صرف قندھار بلکہ تہران کے گوردواروں میں مفت میں قیام کرتے ہیں۔۔۔ ونیکوور کینیڈا کے ایک گوردوارے میں، مجھے بھی مفت کا ایک طعام نوش کرنے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ ہمارے ہاں صوفیا کرام بھی کچھ تخصیص نہ کرتے تھے کہ ان کے لنگر میں کون شریک ہو رہا ہے۔۔۔ شاہ حسین اور خواجہ فرید اپنے ہندو مریدوں کی خوراک میں شریک ہوتے تھے۔ نظام الدین اولیا کے مریدوں میں بھی ہندوؤں کی تعداد زیادہ ہے۔۔۔ ہندوستان کے ’’سائیں بابا‘‘ اگرچہ مسلمان تھے لیکن آج دلی میں اُن کے معبدمیں، رام مندر کی نسبت زیادہ زائرین ہوتے ہیں۔ نہیں، میں کچھ بھی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا صرف اپنے مشاہدے اور مطالعے کے حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔۔ کیا انسانی ہمدردی مذہب اور ملت کے زیر نگیں ہے یا اس کا کوئی مذہب کوئی ملت نہیں۔
فیس بک کمینٹ