معروف انشائیہ نگار اور ادیب محمد اسلام تبسم کا بچپن مشرقی پاکستان میں گزرا ۔ وہ سقوط ڈھاکہ کے عینی شاہد ہی نہیں اس المیئے سے براہ راست متاثر بھی ہوئے ۔ انہوں نے ۔ خوں ریز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور پھر پناہ گزین کے طور پر بھارت چلے گئے ۔ پانچ سال بعد وہ پاکستان آئے اور ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ “گِردو پیش‘‘ میں ان کی زیر طبع کتاب ‘‘ دوسری ہجرت‘‘ قسط وار شائع کی جا رہی ہے یہ سرکاری ملازمیں کی تحریر کردہ کہانیوں اور سرکاری رپورٹوں سے زیادہ اہم دستاویز ہے ۔ رضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب میں نے پہلا روزہ رکھا تھا۔ اُس وقت میری عمر دس بارہ سال ہوگی۔اُن دنوں سرحدوں پر صورتِ حال انتہائی کشیدہ تھی جب کہ باقی علاقوں میں حالات پہلے سے قدرے بہتر تھے۔ہمارا علاقہ چونکہ سرحد سے کافی نزدیک تھا اس لئے وہاں ہونے والے دھماکوں کی آواز سے گھروں کی کھڑکیاں اور دیواریں لرز اُٹھتی تھیں ۔اسی افرا تفری کے دوران رمضان کا مہینہ آپہنچا۔ اُن دنوں لوگ ہلال کمیٹی کے اعلان کا انتظار نہیں کرتے تھے بلکہ کسی میدان یا کھلی جگہ پر جمع ہو کر چاند دیکھتے تھے ۔ رمضان اور عید کا چاند نظر آنے کی صورت میں ایک گولہ بھی چھوڑا جاتا تھا جس کی آواز دور تک جاتی تھی اور لوگ سمجھ جاتے تھے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ اس مرتبہ بھی رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی غرض سے مختلف جگہوں پر لوگ موجود تھے ،میں بھی بچوں کے ساتھ اپنے گھر کے سامنے والے میدان میں کھڑا تھا۔ چاند نظر آتے ہی تمام بچے شور مچاتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف دوڑے ،کچھ دیر بعد گولہ چلا کرچاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا۔چاند کی خبر سنتے ہی گھروں میں سحری کی تیاری ہونے لگی۔میں یہ بتاتا چلوں کہ وہاں سحری کے وقت زیادہ تر لوگ میٹھی چیزیں مثلاً کھیر، حلوہ یا سویّاں کھاتے تھے۔ جب کہ افطاری میں پکوڑے، قیمے والے سموسے ، سلاد، چنے اور سبز دھنیا کی چٹنی کے علاوہ پھل وغیرہ بھی ہوتے تھے۔یہ تمام چیزیں گھروں میں تیار ہوتی تھیںاور عصر سے پہلے ہی گھروں میں افطاری کی تیاری شروع ہو جاتی تھی۔
دیناج پور میں سحری کے وقت جگانے کے لئے نوجوانوں کی ٹولی سائیکل رکشہ پر لاﺅ ڈ سپیکر لگا کرنعتیںپڑھتے ہوئے گھروں کے سامنے سے گزرتی تھی ،اس ٹولی کو قافلہ کہا جاتا تھا ۔یہاں اس طرح کے قافلے چھ سات جگہوں سے نکلتے تھے ۔رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو ان کے درمیان نعت خوانی کا مقابلہ ہوتاتھاجس میں جیتنے والے قافلے کو انعام دیا جاتا تھا۔افطاری کے وقت گولہ چھوڑا جاتا تھا۔میں تقریباً ہر روز اپنی والدہ سے یہ کہہ کر سوتا کہ مجھے سحری کے وقت جگا دینا کل میں روزہ رکھوں گا ،لیکن وہ ہر روز مجھے جگانا بھول جاتیں ۔ اتفاق سے ایک دن سحری کے وقت میری آنکھ کھل گئی ، میں نے دیکھا کہ میری والدہ سحری کے لئے کچھ پکا رہی ہیں اور والد صاحب بیٹھے ہیں ۔میں نے روزہ رکھنے کی ضد شروع کر دی ۔ گھر والوں نے میری بات مان لی اور میں سحری کھانے کے بعدسوگیا۔ صبح آنکھ کھلتے ہی میں اپنے دادا کے گھر کی طرف دوڑا جو ہمارے گھر کے نزدیک ہی تھا۔میں نے اُنہیں بتایا کہ آج میرا روزہ ہے تو اُنہوں نے خوشی کا اظہار کیا، البتہ دادی نے کچھ نہیں کہا ، وہ ہمیشہ کی طرح اپنے جواں سال بیٹے کی غم میں خاموش تھیں۔
دن بھر گھومنے پھرنے اورکھیل کود میںروزہ بالکل محسوس نہیں ہوا، شام کو روزہ کھولنے کے بعد والدصاحب نے ایک روپیہ انعام دیااُس وقت کا ایک روپیہ آج کل کے پچاس روپے کے برابر تھا۔آج کل تو بچوں کے پہلا روزہ رکھنے پر اچھی خاصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اُن دنوں ہر کام میں سادگی برتی جاتی تھی۔ بچپن میں ہم پہلے روزے سے ہی عید کے دن گننا شروع کر دیتے تھے۔عید کی آمد سے پندرہ بیس دن پہلے ہی عید کی تیاری شروع ہو جاتی تھی اور رمضان کے آخری عشرے میں بازار کی رونق بڑھ جاتی تھی،لیکن اس مرتبہ نہ تو بازارمیں پہلے جیسی گہما گہمی تھی او ر نہ ہی لوگ پہلے جیسے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ بس وہ بچوں کا دل رکھنے کے لئے عید کی تیاری کر رہے تھے۔کیوںکہ تقریباً ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فسادات میں مارا جا چکا تھا ،اس کے علاوہ سرحدوں پر ہونے والی جھڑپوں اور مکتی باہنی کی تخریب کاری کی وجہ سے بھی لوگ پریشان تھے،بہت سے لوگ تو دیناج پورچھوڑ کر ڈھاکہ اور سیّد پور اور دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل ہو گئے تھے۔
اس مرتبہ عید کا چاندخوشی کی بجائے غم کی سوغات لایا تھا، ہر طرف اُداسی چھائی ہوئی تھی،اکثر گھروں میں چاند نظرآتے ہی صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی اورلوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کی بجائے پرسہ دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ عید کا نہیں محرم کا چاند ہوکیوں کہ آج ہر آنکھ اشکبار تھی، کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس کا کوئی فرد یا عزیز رشتہ دار فساد میں مارا نہ گیا ہو،البتہ بچوں کو کوئی غم نہ تھا، وہ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی خوش تھے اور شور مچاتے پھر رہے تھے۔ بچپن میں چاند رات اور عید کا مزہ ہی کچھ اور تھا ۔ چاند دیکھنے کے بعد میں نے اپنے دادا کے گھر جانا چاہا مگر میری والدہ نے یہ کہہ کر مجھے وہاں جانے سے روک دیا کہ تمھاری دادی کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے ، کل چلے جانا۔چاند رات کو دیر تک جاگنے کے باوجود عید کے روز صبح سویرے ہی آنکھ کھل گئی۔میری والدہ میرے جاگنے سے بہت پہلے جاگ چکی تھیں اور گھر کے کام کاج میں مصروف تھیں۔کام کاج سے فراغت کے بعد انہوں نے مجھے تیار کرایااور میں نئے کپڑے اور جوتے پہن کر والد اور بڑے بھائی کے ہمراہ عید گاہ کی طرف روانہ ہوااُن دنوں وہاں عید کی نماز مساجد کی بجائے عید گاہ یا کھلے میدان میں ادا کی جاتی تھی۔سیٹلائٹ ٹاو¿ن اور اس کے آس پاس کے لوگ ایک میدان میںعید کی نماز ادا کرتے تھے ،یہاں نمازِعید ادا کرنے والوں میں اکثر بہاری ہوتے تھے کیوں کہ یہاں کے خطیب بہاری تھے اور تقریر بھی اُردو میں ہوتی تھی، جب کہ کچھ لوگ نیو ٹاو¿ن سے باہر ایک عید گاہ تھا یا بڑے میدان میں عید کی نماز ادا کرتے تھے کیوں کہ وہاں بنگالی خطیب تھے جو بنگلہ میں تقریر کرتے تھے۔
اس دفعہ عید پر آدھے سے زیادہ میدان خالی تھا،نماز کے لئے صرف چار یا پانچ صفیں ہی بنی تھیں،یہاں کے خطیب بنگالیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے اس لئے اس مرتبہ کسی اور نے تقریر کی ۔ اپنی تقریر کے دوران وہ بار بار رو پڑتے تھے۔نماز کے بعد اکثر لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر بری طرح رو رہے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا کہ یہ عید گاہ نہیں کربلا کا میدان ہو۔میدان سے باہر سڑک کے دونوں طرف مانگنے والے کھڑے تھے، اس مرتبہ یہاںپیشہ ور بھکاریوں کے علاوہ کچھ شناساچہرے بھی دکھائی دے رہے تھے۔میں ذرا آگے بڑھا تو دیکھا کہ میرا کلاس فیلو اصغر اپنی ماں کی اُنگلی تھامے خاموش کھڑا ہے۔اصغر کے والد کسی دُکان میں کام کرتے تھے ، بلوائیوں نے اُس کے والد اور جواں سال بھائی کو قتل کر دیا تھا ،جب اُس کے والد کو قتل کیا جا رہا تھا تو اصغر خوف کے مارے بے ہوش ہو کر گر پڑا اور بلوائی اُسے مردہ سمجھ کرچھوڑ گئے تھے۔مجھے دیکھتے ہی اصغر نے نظریں جھکا لیں ،مجھ میں بھی اُس سے نظر ملانے کی ہمت نہ ہوئی اور میں آگے بڑھ گیا۔
عید کی نماز کے بعد گھر پہنچا ،والد اور والدہ سے ایک ایک روپیہ عیدی وصول کرنے کے بعد سیدھا اپنے داداکے گھر کی طرف دوڑا،دادا نے ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ایک چونّی تھما دی،دادی کے پاس جانے کی ہمت نہ ہوئی کیوں کہ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھی اپنے جوان بیٹے کو یاد کر کے رو رہی تھیں ،میں واپس آنے کے لئے مڑا ہی تھا کہ اُنہوں نے مجھے بلا کر پیار کیا عیدی دی۔سب سے عیدی وصول کرنے کے بعد میں دن بھر اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔اس دفعہ عید پر کوئی خاص چہل پہل نہیں تھی، بڑوں کے چہروں پر بھی سنجیدگی طاری تھی ،لیکن کچھ لوگ بہت خوش دکھائی دے رہے تھے ،وہ ہر کسی سے عید ملتے وقت کہتے کہ "اس دفعہ عید یہاں پڑھی ہے انشا اللہ بقرعید کلکتہ میں پڑھیں گے”دن بھر کی آوارہ گردی کے بعد میں شام کو گھر پہنچا تو دیکھا کہ ہماری پڑوسن جنہیں ہم خالہ کہتے تھے بیٹھی ہوئی ہیں،میں نے اُنہیں سلام کے بعد عید مبارک کہا تو کہنے لگیں "بیٹا! کیسی عید،ہماری تو عید بقر عید سب ختم ہو گئی”در اصل سلام کرتے وقت میں یہ بھول گیا تھا کہ خالہ کا جوان بیٹا جو اُن کے بڑھاپے کا سہارا تھا ،مارا گیا تھااور وہ ہمارے گھر عید ملنے نہیں کھانا لینے آئیں تھیں ۔
اس عید کے بعد میری زندگی میں کئی عیدیں آچکی ہیں ،لیکن میں مشرقی پاکستا ن میں منائی ہوئی اس آخری عید کو نہیں بلا سکا۔ ہر سال عید پر کبھی خالہ اور کبھی اصغر کامعصوم چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔