ڈاکٹر انوار احمد کی نثر ان کی گفتگو جیسی ہے ۔ رواں دواں انداز ۔ بہت بے ساختگی ہے ان کی تحریر میں ۔ خاکہ نگاری میں انہوں نےبلا شبہ ایک نیا اسلوب دیا ۔ ڈاکٹر انوار احمد نے مجھ سمیت کئی نسلوں کی تربیت کی ۔ ہمیں لکھنے اور بولنے کا ہنر سکھایا ، سوال کرنے اور اختلاف کرنے کا حوصلہ دیا ۔ پھر ہم نے ڈاکٹر صاحب سے سوالات بھی کئے اور اختلاف بھی کیا جس کا انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا ۔ ’’گِرد و پیش‘‘ کا اعزاز ہے کہ ڈاکٹر انوار احمد بھی آج سے ہمیں اپنی تخلیقات سے نوازیں گے ۔ ان کی پہلی تحریر آپ کی نذر کرتا ہوں ۔۔ رضی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے آغاز میں ہی اعتراف کر لینا چاہیئے کہ زوار حسین ( پ 1930،و 2003 )جیسے عظیم مصور، خطاط ،فلسفے کے طالب علم،نقاد،شاعر اور سادھو منش انسان سے میری ذاتی ملاقاتیں بہت ہی کم ہوئیں،حالانکہ میرے بہت سے دوست ان کے مداح تھے،جن میں مبارک مجوکہ،خالد سعید،صلاح الدین حیدر،مشتاق شیدا،ذوالفقار بھٹی ، محمد امین اور اصغر ندیم سید شامل ہیں، جو ان کے بارے میں ایسی عقیدت بھری گفتگو کرتے کہ ان کا ایک نیم اساطیری ہیولا سا ابھرتا، پھر ہمارے مہربان استاد عرش صدیقی،جابر علی سید اور بزرگ دوست اسلم انصاری اور ارشد ملتانی بھی ان کے شیدائیوں میں سے تھے مگر ہم جیسوں سے ضیاءالحق دور نے بہت کچھ چھین لیا،ان گیارہ برسوں میں ہمیں جس طرح ذہنی عقوبت میں مبتلا کیا گیا،اس سے جمالیاتی اقدار اور مابعد الطبیعات سے متعلق سوالات اٹھانے والے بھی ہمیں اسی کے ساتھی محسوس ہوتے تھے،جو ہماری دانست میں نوجوانوں کو اس سیاسی اور سماجی شعور سے محروم کر رہے تھے،جو نظام کی تبدیلی کی واحد امید تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس اندھیری سرنگ سے باہر نکل کر جب ہم نے’جمہوریتِ منتظر‘ کی جلوہ سامانی دیکھی تو ملال ہوا کہ ہمارے ارد گرد کیا لوگ تھے اور کیا لمحے تھے،جو ہم سے اپنی ’پمفلٹ بازی‘ میں قضا ہو گئے۔
کینیڈا میں جا کر مقیم ہونے والی میری بڑی بیٹی ڈاکٹر نویرہ نشاط بنیادی طو ر پر آرٹ اور لٹریچر سے دلچسپی رکھتی تھی مگر اپنی خیال پرستی پر عمل کرنے کے لئے بہت عجلت میں ہوتی تھی۔اسے موجود اشیاءکو خوبصورت بنانے سے بہت دلچسپی تھی ،اس کے بس میں ہوتا تو وہ کسی فلم ،سٹیج یا ٹیلی ویژن سے اچھے اچھے کپڑوں والے اور شکلوں والے والدین بھی لے آتی ۔میَں جب سائیکل پر اسے سکول سے لینے جاتا تو وہ گاڑیوں میں سوار والدین کے بارے میں اوٹ پٹانگ سوال کیا کرتی، پھر جب ہم نے شالیمار کالونی میں چھوٹا سا گھر بڑی مشقت سے بنایا تو اس نے کوشش کی کہ زیادہ آراستہ پیراستہ گھروں کے مقابلے پر اس گھر کو خوبصورت بنانے کے لیئے اپنی توفیق اور ذوق کی مناسبت سے فن پارے اکٹھے کئے جائیں مگر اس کے لیئے کبھی کبھار اس سے مضحکہ خیز حرکتیں بھی سر زد ہو جاتی تھیں۔ ہوا یہ کہ ہمارے ایک ہمسائے نے اپنے نوتعمیر گھر کی دیواروں کی کچھ ایسی ’ترائی ‘کی کہ ہمارے ڈرائنگ روم کی دیوار کا رنگ و روغن ہی اُتر گیا اور سیم یا نمی نے دیوار کے ایک حصے کو بے حد بد نما کر دیا۔اس بدنمائی کو چھپانے کے لیئے وہ نشتر کالج سے واپسی پر بوہڑ گیٹ جا کرکسی فلمی پینٹر سے ایک بڑا سابورڈ اُٹھا لائی اوردیوار پر آویزاں کر دیا۔ میں آرٹ کا ناقد تو نہیں لیکن وہ بورڈ بدمذاقی کا ایک درد ناک مرقع تھا۔جس روز یہ بورڈ میرے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہوا کبھی میرے گھر نہ آنے والے زوار حسین میرے گھر میں تشریف لے آئے۔ وہ غالباً نصرت مند خان کے ہاں آئے تھے اور پھر میری طرف چلے آئے۔میرے لیئے یہ ملاقات بے حد اذیت ناک تھی کہ اتنا بڑا مصور اور نازک احساسات رکھنے والا میرے گھر اس دن آئے جب بدنمائی کو چھپانے کے لیئے بد ذوقی دیوار پر آویزاں تھی۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ میں چار پانچ کیل اپنے اوپر گاڑ کر اس تصویر کے اوپر کا غلاف بن جاتا ۔زوار حسین کی یہ بہت بڑی عظمت ہے کہ انہوں نے کنکھیوں سے اسے دیکھا ضرور پر جتلایا نہیں۔ جب تک بیٹھے رہے بہت دھیمے انداز میں ان چند موضوعات پر بات کرتے رہے جو شاید ان کے خیال میں میرے مرغوب موضوعات تھے۔ البتہ جب اٹھنے لگے تو شرمیلے لہجے میں مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آئندہ ملاقات میں آپ کو اپنی ایک آدھ تصویر پیش کر دوں تاکہ دیوار پر آپ اسے’ اس ‘کی جگہ آویزاں کر سکیں۔یہ شاید میری ان سے دوسری اور آخری ملاقات تھی۔
پہلی ملاقات تب ہوئی تھی جب ارشد ملتانی اپنا مجموعہ کلام ”ثبات“ کے نام سے شائع کر رہے تھے اور بز م ثقافت ملتان نے اس کی طباعت کا اہتمام کیا تھا۔ میں نے اُنہیں ذوالفقار بھٹی سے کتاب کا ٹائٹل بنوانے کا مشورہ دیا جو عرش صدیقی کے افسانوی مجموعے ”باہر کفن سے پاﺅں“ کا نہایت خوبصورت ٹائٹل بنا چکے تھے اور ڈاکٹر اے بی اشرف کی بھی دوسری کتاب ”ادب اور سماجی عمل“ کا سرورق انہوں نے ہی بنایا تھا مگر ارشد ملتانی نے کہا دیکھو مجھے زوار حسین سے محبت ہے اور میں اس پرمان بھی کرتا ہوں۔ تم اور میں ان کے ہاں چلتے ہیں اور ان سے ٹائٹل کے لئے درخواست کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم دونوں نشتر روڈ پر واقع ان کے گھر میں گئے انہوں نے شرمیلی مسکراہٹ سے ہم دونوں کا استقبال کیا خاطر تواضع بھی کی اور میں نے ’ثبات‘ کی معنویت پر اپنی دانست میں ایک مختصر لیکچر بھی دیا۔ جسے بے توجہی سے انہوں نے سنا ۔ اس کے بعد انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ یہ ٹائٹل بنائیں گے ،انہوں نے ٹائٹل بنایا بھی، مگر اسے دیکھ کر ارشد ملتانی کچھ بُجھ سے گئے،وہ شاید چیزے دگر کی توقع رکھتے تھے، جس سے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ فطری فنکاروں پر فرمائشیں نہیں لادی جا سکتیں۔ وہ اپنی آزادانہ ترنگ میں کام کرتے ہیں۔ یہ اور بات کہ روزی کے وسیلے کے طور پر زوار حسین کو رات گئے ایک عجب طر ح کی کوزہ گری سے کام لینا ہوتا تھا۔ وہ مٹی اور پلاسٹر آف پیرس سے چھوٹے چھوٹے ماڈل بناتے تھے پھر انہیں بیک کرتے تھے۔ان پر نقش و نگار ابھارتے تھے اور پھر وہ مختلف ریلوے سٹالوں اور دکانوں پر شرمیلے انداز سے پیش کرتے تھے۔
یونیورسٹی میں ان پر ایک مقالہ بھی لکھا گیا،اگر مجھے درست یاد ہے تو وہ گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکسٹائل شاہدرہ ،پھر میو سکول آف آرٹس[موجودہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور ]میں زیرِ تعلیم رہے،استاد اللہ بخش کی تصویروں سے متاثر ہو کر دیہی زندگی کی معصومیت ان کی تخلیقی روح میں بس گئی،انہوں نے اقبال کے منتخب کلام کو بھی 14فن پاروں میں نقش کیا،ان کا اور ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ انہی کی نقش گری نے عبدالرحمٰن چغتائی کو مرقع اقبال جیسے شاہکار کو پیش کرنے کی تحریک دی۔وہ شاعر بھی تھے،اکیلی ہوا،شاخ ِویرانہء دل میں شاعرانہ اور فن کارانہ کسک اور تنہائی کی شدت کو پینٹ کیا گیا ہے،’تہذیب اور جدید فنِ مصوری‘ ان کے فلسفیانہ اور تنقیدی شغف کی مظہر ہے۔ڈان کے ندیم سعید نے ان کی وفات پر ایک بہت موثر تعزیتی نوٹ میں ذکر کیا تھا کہ آخری وقت میں وہ سیکولرازم کے حوالے سے ایک بڑی کتاب لکھ چکے تھے۔ان کی وفات کے بعد ملتان آرٹس کونسل نے اپنی گیلری کو ملتان کے اس عظیم فن کار سے منسوب کیا،مگر زمانے کی ناقدری کی بدولت جو کچھ ان کے قلب و روح پر گذری،اس کی مظہر ان کی یہ نظم ہے،جس کا عنوان ہے’ سود و زیاں سے ماورا‘
’نیلی شام سے پہلے
جو کچھ بیچنے کے لائق ہو
اسے بیچ ڈالو اور پھر اس کے عوض
جو کچھ خریدنا چاہو
خرید لو
لیکن یاد رکھو
زندگی کے عظیم ثمرات ایسے بھی ہیں
جو سود و زیاں کے ان ٹکڑوں میں
نہیں سما سکے
جن کے تم مالک ہو‘