ان دنوں جب مجھے کسی سٹیج پر کھڑے ہو کر اپنے ارشادات عالیہ سے عوام الناس کو مستفید کرنا ہوتا ہے تو گفتگو کا آغاز کرنے سے پیشتر میں قدرے جھجک جاتا ہوں۔ پہلے تو ایک روانی میں خواتین و حضرات السلام علیکم کہہ کر تقریر دل پذیر کا آغاز کردیتا تھا لیکن اب ایک نہایت گمبھیر صورت حال درپیش ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی ادبی میلے میں حسب عادت خواتین و حضرات سے بسم اللہ کر کے گفتگو شروع کردی۔ تقریب اختتام کو پہنچی تو معزز ’’خواتین‘‘ چلی آئیں، وہ چلی تو آئیں لیکن ان کے چلنے میں ایک خاص لچک تھی، کہنے لگیں، تارڑ صاحب، آپ سے تو یہ امید نہ تھی خیر سے… آپ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے صرف خواتین و حضرات کہا اور ہم سے تغافل برتا اور خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک۔ تو میں نے ان نیک بیبیوں سے کہا کہ آپ خواتین ہیں ناں۔ تو ان میں سے ایک جو یقین کیجئے نہایت دل پذیر شبابت والی ’’خاتون‘‘ تھی کہنے لگی، ہائے ہائے تارڑ صاحب… ان دنوں توپاکستان بھر میں ہمارے بنیادی حقوق کی جدوجہد کے چرچے ہیں۔ ہمیں قومی شناختی کارڈ کا اہل قرار دیا جارہا ہے یوں ہم ووٹ بھی ڈالنے کی حقدار ہورہی ہیں یا ووٹ ڈالنے کے حقدار ہورہے ہیں اور صرف آپ ہیں جو ہماری الگ شناخت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارا تعلق پہلی دوسری سے نہیں، تیسری جنس سے ہے اور آپ نے سٹیج پر کھڑے ہو کر صرف خواتین و حضرات کو مخاطب کیا۔ کیا آپ آگاہ نہیں تھے کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔ آپ کے مداحوں میں ہم بھی تو شامل ہیں۔ آپ کی تقریر کے دوران دو چار بار جو زور دار تالیاں بجائی گئیں تو آپ کو احساس نہیں ہوا کہ ان میں سے کچھ تالیاں نہایت سریلی تھیں، صدقے جائوں کی تال پر بجتی تھیں اور یہ ہم ہی تو تھے یا تھیں۔ میں تو سناٹے میں آ گیا۔ ان کی شکایت بجا تھی تو میں نے ذرا شرمندہ ہو کر کہا کہ جی میرے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ میری تحریروں کی مداح ہیں۔ جبکہ عام چپڑ قناتیے ادیبوں کو اگر پڑھتی ہے تو پہلی اور دوسری جنس پڑھتی ہے اور مجھے ماشاء اللہ تیسری جنس بھی نہایت ذوق شوق سے پڑھتی ہے۔ واللہ آپ کی دل آزاری مقصود نہ تھی صری یہ خیال دامنگیر رہا کہ جب میں خواتین و حضرات کہتا ہوں تو گویا آپ لوگ بھی اس کے احاطے میں آ جاتے ہیں کہ پتہ تو چلتا نہیں کہ آپ کیا ہیں۔ خواتین بھی ہو سکتی ہیں اور حضرات بھی ہوسکتے ہیں کہ نہیں۔ ’’ہرگز نہیں‘‘ ان میں سے جو بہت البیلی سی تھی جس کی چال میں لچک تھی کہنے لگی ’’قربان جاؤں تارڑ صاحب… ہم نہ خواتین ہیں اور نہ حضرات ہیں، کچھ ملا جلا سا پروگرام ہے۔ ہم اپنا تعارف کروادیں۔ میں گلستاں ہوں، ایم بی اے فرسٹ ڈویژن اور ان دنوں ایک ملٹائی نیشنل میں تعلقات عامہ کے شعبے کو ہیڈ کر رہی ہوں اور یہ صائمہ ہیں، یہ سکول ٹیچر ہیں۔‘‘ میں تو یقین کیجئے کہ دنگ رہ گیا کہ ایک وہ زمانے تھے جب ہماری یہ بہنیں تالیاں بجا کر بچوں کو لوریاں سنا کر، بیاہ شادیوں پر رقص کر کے رزق کماتی تھیں اور ایک یہ زمانے آئے کہ وہ پڑھ لکھ کر افسریاں کر رہی ہیں اور بچوں کو پڑھا رہی ہیں۔ بے شک اب بھی اگر آپ ایئرپورٹ کی جانب جارہے ہوں تو بھٹہ چوک کی ٹریفک لائٹس کے آس پاس لاہور کے سب سے دل کش اور بنے ٹھنے، میک اپ زدہ خواجہ سرا، کاروں میں جھانک رہے ہوتے ہیں اور رزق حلال کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی شب بھٹہ چوک کے اس ’’پری خانے‘‘ کا نظارہ کرلیجئے۔ ان میں سے جو گلستاں تھی یا شاید بوستاں تھی کہنے لگی ’’تارڑ صاحب… آپ کو تو شاید یاد بھی نہ ہو لیکن آج سے دس برس پیشتر آپ نے سب سے پہلے اپنے کالموں میں ہمارے حقوق کی بات کی تھی جب راولپنڈی میں کچھ خواجہ سراؤں کو مارا پیٹا گیا تھا اور انہیں پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی کہ انہوں نے ایس پی کے آفس کے باہر تالیاں بجا کر احتجاج کیا تھا اور کچھ گملے توڑ دیئے تھے۔ یاد ہے؟‘ آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ میں نے خواجہ سرائوں کے حوالے سے دو کالم لکھے تھے اور مجھ پر کچھ طنز کے تیر بھی چلے تھے۔ مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ ایک شب کسی ’’خاتون‘‘ کا فون آیا جو انگریزی شیکسپیئر کے لہجے میں بولتی تھی۔ شاید اس نے اپنا نام نسرین بتایا تھا اور اس نے ان کالموں کے حوالے سے میرا شکریہ ادا کیا تھا اور جب میں اس کے برطانوی لہجے سے متاثر ہوا تو وہ کہنے لگی تارڑ صاحب، میں انگلستان کی جم پل ہوں۔ یارک شائر میں پیدا ہوئی تھی۔ میرے اردو مطالعہ کا آغاز آپ کے سفر ناموں سے ہوا اور ان دنوں میں ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک تنظیم کی سربراہی کر رہی ہوں۔ پاکستان ایسا ملک جہاں عام لوگوں کو بھی ان کے بنیادی حقوق نصیب نہیں ہوتے، وہاں خواجہ سرائوں کو یا تیسری جنس کے انسانوں کو کون پوچھتا تھا۔ یہ دیر و حرم کے دھتکارے ہوئے لوگ تھے اس کے باوجود کہ یہ ہمارے خاندانوں میں ہی جنم لیتے تھے لیکن یہ ہنسی مذاق، نفرت کے قابل لوگ تھے۔ یہ ہمارے ہی بچے تھے لیکن ذرا مختلف تھے اور انہیں مختلف کس نے بنایا، اس نے بنایا جس نے ہمیں بنایا، ان کا کیا دوش تھا، کیا قصور تھا کہ انہیں اس ذات نے تخلیق کیا جس نے ہمیں کیا۔ جونہی کسی بچے کے بارے میں انکشاف ہوتا کہ یہ نہ ہیوں میں ہے اور نہ شی اوں میں، اسے گھر سے نکال دیا جاتا اور وہ دربدر ہوتا کوئی ’’گورو‘‘ کی پناہ میں چلا جاتا۔ وہاں اس جیسے لوگ ہی اس کی برادری بن جاتے اور وہ دال روٹی کی خاطر تالیاں بجاتا شادی بیاہ کے موقعوں پر رقص کرنے لگتا۔ یہ وہ ذلتوں کے مارے لوگ تھے جو معاشرے کی آخری تذلیل کی سرحدوں پر زندگی کرتے تھے۔ ’’گارڈ آف سمال تھنگز‘‘ کی مصنفہ، ایک دلیر اور بہادر خاتون، اس کے دوسرے ناول کے کچھ مرکزی کردار خواجہ سرا ہیں۔ ارندتھی رائے کے اس ناول میں جس طور کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کی تفصیل بیان ہوئی ہے، تحسین کی گئی ہے، اس نے رائے کو ہندوستان کے متعصب سیاستدانوں کے نزدیک ایک پھانسی پر چڑھانے کے لائق ادیب قرار دیا ہے۔میں ایک بار شمال کی کوہ نوردیوں سے لوٹ رہا تھا۔ مانسہرہ کے قریب ہم ناشتے کے لیے ایک چھپر ہوٹل میں رکے تو ایک سفید ریش بزرگ مجھے پہچان کر ہماری میز تک آ گئے اور کہنے لگے، تارڑ صاحب میں بہت دنوں سے ایک مسئلے میں الجھا ہوا ہوں، آپ کو دیکھا تو سوچا کہ آپ سے رہنمائی حاصل کروں۔ میں نے کہا کہ حضور، اگرچہ میں بھی بہت سے ایسے مسائل میں الجھا ہوں جو سلجھتے ہی نہیں تو آپ فرمائیے کہ کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگے، کیا ایک کھسرے کا، ایک خواجہ سرا کا جنازہ پڑھنا جائز ہے؟ آپ کیوں جاننا چاہتے ہیں؟ بس اس مسئلے کی شرعی نوعیت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ میں کوہستانی آوارہ گردیوں کی تھکن سے بیزار اور چڑچڑا ہورہا تھا تو میں نے کہا بزرگوار کیا آپ کے بچوں میں سے یا بہن بھائیوں وغیرہ میں سے کوئی کھسرا ہے اور آپ فکر مند ہیں کہ اگر وہ مر گیا تو اس کا جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ان بزرگوں نے شدید صدمے میں آ کر اپنے کانوں کو چھوا اور کہنے لگے، توبہ توبہ اللہ کے فضل سے سب کے سب بچے اور عزیز بالکل صحت مند اور نارمل ہیں۔ تو حضور پھر آپ کو کیوں فکر مندی ہے۔ ویسے آپ میری ذاتی رائے جاننا چاہتے ہیں تو اگر اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ مخلوق ہے تو اس کا جنازہ پڑھنا واجب ٹھہرتا ہے۔ ہم تو خواجہ سراؤں کی عظمت اور روحانی مرتبے سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ہم جیسے تو آرزو کر تے ہیں کہ ان کے پاؤں دھو دھو کر پئیں کہ میرے آقا، قصویٰ کے سوار، اکائناتوں کے مولا، کل جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت کے پرنور مرقد کے پہرے دار کون ہوتے ہیں۔ ایک ہی قبیلے کے خواجہ سرا۔ خزانے کی کنجی ان کے پاس ہے، وہ ہاتھ اٹھا کر روک دیں تو کوئی بڑے سے بڑا حکمران بھی گنبد خضریٰ کے مکیں کے دربار میں حاضری نہیں دے سکتا۔(جاری)
(بشکریہ: روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ