میرے والد ن م راشد (مرحوم) یکم اگست 1910ء کو علی پور چٹھہ میں پیدا ہوئے۔ وفات انگلینڈ میں حرکت قلب بند ہونے سے ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم علی پور چٹھہ میں حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے اکنامکس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ شادی بھی علی پور چٹھہ میں اپنی ماموں زاد سے ہوئی۔ میرے والد کے دادا ڈاکٹر غلام رسول سول سرجن تھے۔ جن کا انتقال 1936ء میں ہوا اور علی پور چٹھہ میں دفن ہوئے۔ ڈاکٹر غلام رسول کے بیٹے فضل الٰہی چشتی (راشد کے والد) اور ان کی بہو حسین بی بی (راشد کی والدہ) علی پور میں اپنے سسر کے ہاں گئے تو راشد کی والدہ کو خواب آیا کہ ان کے ہاں ایک لڑکا ہوا ہے۔ اس کی بوٹیاں آسمان کی طرف پھینک رہی ہیں۔ انہوں نے خواب اپنے سسر کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ خواب اچھا ہے، لڑکا پیدا ہو گا، بیرونی ممالک کی خوب سیر کرے گا۔‘‘ واقعی یہ خواب سچا ہوا۔ راشد پیدا ہوئے۔ یو این او کی ملازمت کے دوران اور فوج کی ملازمت کے دوران مختلف ممالک دیکھے اور سیر بھی کی۔ جب راشد پیدا ہوئے تو راشد کے دادا ڈاکٹر غلام رسول نے اپنے بیٹے فضل الٰہی چشتی (جو کہ محکمہ تعلیم میں اے ڈی آئی تعینات تھے) سے کہا کہ یہ بچہ مجھے دے دو لیکن راشد صاحب کے والد نے اپنے باپ سے کہا کہ جب میری دوسری اولاد ہو گی تب دے دوں گا۔ جب فضل الٰہی چشتی (راشد کے والد) کے ہاں ممتاز بیٹی پیدا ہوئی تو ڈاکٹر غلام رسول نے اپنے بیٹے راشد کو ماں باپ کے پاس بھیجنا شروع کیا۔ ان کے دادا اور دادی بیگم بی بی نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں خاصا کردار ادا کیا۔ ان کی داد ی نے ان کو بہت لاڈ پیار دے رکھا تھا اور کہتی کہ ’’بیٹا نہ پڑھ تیری نظر کمزور ہو جائے گی۔‘‘ مگرن م راشد صاحب کو تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ علی پور میں وہ اکثر پول لیمپ کی روشنی میں رات گئے تک پڑھتے۔ جب راشد بیمار ہوئے تو ان کے دادا پوچھتے ’’بیٹا تمہیں کھانے کیلئے کیا لا کر دوں؟‘‘ تو وہ کہتے۔ ’’مجھے فلاں کتاب لا دیں۔‘‘ پھر ایک دفعہ بخار آیا تو ان کے دادا نے پوچھا بیٹا کیا لا کر دوں؟ راشد نے کہا مجھے کتابیں رکھنے کیلئے ایک الماری لادیں۔ اپنے دادا کے اتنے لاڈلے تھے کہ انہوں نے ایک خوبصورت سی الماری بنوا دی جو کافی مہنگی تھی۔ کسی نے ان کے دادا کو مشورہ دیا کہ بچے کو گائے کا دودھ پلایا کریں تا کہ ذہانت بڑھے۔ دادا نے راشد کیلئے اسی وقت گائے خریدی اور راشد کو گائے کا دودھ پلاتے رہے۔ راشد کو بچپن سے پیار سے ’’نذری‘‘ کہتے تھے۔ راشد تقریباً چھ برس کے تھے کہ انہوں نے ایک نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’انسپکٹر اور مکھیاں‘‘ جس پر ان کو سلور میڈل بھی ملا۔ نظم کی کاپی میرے پاس موجود ہے۔ انگریز حکومت نے ان کے دادا ڈاکٹر غلام رسول کو چترال اور کشمیر تعینات کیا اور ان کی شان دار خدمت کے عوض ان کو ایک دفعہ سترہ مربعے اراضی اور دوسری دفعہ دو مربعے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ انہی کی پرورش، تعلیم و تربیت کا گہرا اثر میرے والد کے کردار میں بھی نمایاں ہے۔ راشد ایک سچے، کھرے، دیانت دار اور با اصول آدمی تھے اور بچپن سے شاعرانہ خصوصیات کے مالک تھے۔ اپنی جدید منفرد سوچ اور تجربے کی وجہ سے ترقی کر گئے۔ ہر چیز کی تحقیق و جستجو کرنا اور اس کی تہ تک پہنچنا ان کے مزاج میں شامل تھا۔ راشد کے پردادا خواجہ احمد بھی تعلیم یافتہ تھے ۔ آپ نے بہت سی مساجد تعمیر کرائیں۔ والد کے دادا ڈاکٹر صاحب نے تفسیر حضرت یوسف بھی لکھی جو کسی رشتہ دار کے پاس خستہ حالت میں موجود ہے۔ کیونکہ میرے والد کا تعلق کھاتے پیتے، تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ جس کی وجہ سے میرے والد کے ذہن میں وسعت، روشن خیالی اور سوچ و فکر بھی ماورا تھی۔ وہ علم کی روشنی سے مالا مال تھے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ راشد اپنی محنت، قابلیت و صلاحیت سے ترقی کرتے گئے۔ راشد کے والد فضل الٰہی چشتی بی اے، بی ٹی تھے اور سکول کے بچوں کا نصاب اور کتب بذریعہ پبلشر فیروز سنز شائع کیں۔ انگریزی کتابوں کے ترجمے کیے۔ فیروز سنز والے دادا کے دوست تھے۔ میرے والد کے بھائی فخر محمد ماجد تین ایم اے پاس اور علیگ تھے۔ والد صاحب نے اپنے بھائی کو ڈاکٹریٹ کرنے کینیڈا بھیجا بعد میں وہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کالج میرپور خاص میں بطور پرنسپل تعینات رہے۔ راشد کا بیٹا شہریار راشد جو ایم اے انگلش تھا اور کوالیفائیڈ سی ایس پی آفیسر تھا، فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے بطور سفیر تاشقند ازبکستان حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گیا۔ راشد کی فارنر بیوی سے دوسرا بیٹا ’’تنزیل‘‘ (نظارو) Merrill بنک انگلینڈ میں تعینات ہے۔ میرے والد کے ماموں جو ان کے سسر بھی تھے اور بی اے بی ٹی علیگ تھے اور اراضیات و مکانات کے مالک تھے۔ والد کے نانا محبوب عالم کے نام سے گوجرانوالہ میں محبوب عالم ہائی سکول موجود ہے۔ انگریز حکومت نے ان کو ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ یہ راشد کے خاندان کا مختصر سا تعارف ہے ورنہ لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ایران میں کافی عرصہ رہے اس ملک سے محبت بھی بہت تھی۔ روسی اور فارسی زبان کی کتابوں کے اُردو میں ترجمے کیے۔ جدید اور آزاد شاعری لکھنے کیلئے آزاد اور جدید ذہن بھی چاہیے۔ اللہ نے ان کو اعلیٰ ذہن دے رکھا تھا مگر افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ میرے والد کی برسی پر سرکاری ادارے اور انجمنیں خراج عقیدت بھول جاتے ہیں اور یہ صرف ان کی مبینہ وصیت کی وجہ سے ایسا کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے اور نہ کوئی تحریری وصیت موجود ہے۔ یہ سب کیا دھرا ان کی دوسری فارنر بیوی شیلا کا ہے جس نے اپنے والدین کی میت کو بھی نذر آتش کیا تھا۔ میرے والد ملتان میں خاکساروں کے سپہ سالار بھی رہ چکے تھے اور انہوں نے علی الصبح خاکساروں کو لیکچر دینا ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے رات گئے تک قرآن کا گہرائی سے مطالعہ کرتے۔ اسی لیے آدھا قرآن حفظ ہو چکا تھا۔ ان کی شاعری میں روحانیت، پراسراریت، جدیدیت، نئی سوچ اور نئی فکر موجود ہے۔ الہامی کیفیت بھی انہی لوگوں میں ہوتی ہے جو خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں قرآن کے حوالہ جات موجود ہیں اور اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کا موضوع خدا اور انسان ہے۔ ان کے ایک شعری مجموعہ کا نام بھی ’’لاانسان‘ ہے۔ ان کی بعض نظمیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے جیسے انسان کسی اور دنیا میں ہو۔ حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ ایسے ادیب جنہیں نہ کوئی جانتا ہے، نہ پہچانتا ہے، نہ ان کی تحریریں معیاری ہوتی ہیں، نہ کوئی ذاتی تجربے ہوتے ہیں، نہ کچھ تخلیق کیا ہوتا ہے اور خاص معیاری تعلیم بھی نہیں ہوتی ان کی تعریف بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے۔ ایسے ادیب نقال بھی ہوتے ہیں۔ دوسروں کی تحریریں اور ان کے الفاظ کی ہوبہو نقل کر کے اپنے نام کے ساتھ منسوب کر لیتے ہیں۔ ایسے چھوٹے ادیبوں کیلئے لکھنا آسان ہو جاتا ہے جو اپنے سے بڑے ادیبوں کی نقل کر کے بننا چاہتے ہیں۔ بعض ادیبوں اور شاعروں کے اپنے واقعات اور خیالات تک نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ ایسے ایسے القاب لگائے جاتے ہیں جن کے وہ مستحق نہیں ہوتے۔ ایسے گم نام شاعروں، ادیبوں کے نام کے ساتھ نام ور، مشہور، ممتاز، شہرت یافتہ جیسے القابات لگائے جاتے ہیں جنہیں کوئی اچھی طرح سے جانتا بھی نہیں۔ بار بار ٹی وی پر بلا کر ان کی شہرت بڑھائی جاتی ہے حالاں کہ اچھا شاعر اور ادیب وہ ہوتا ہے جو حقیقت پر مبنی مضامین وغیرہ تحریر کرے اور تخلیق کرے۔ بعض ادیبوں کا علم اور تجربہ بہت کم ہوتا ہے جس چیز کے بارے میں لکھتے ہیں اس کے متعلق کم معلومات ہوتی ہیں کیونکہ مطالعہ نہیں کرتے اور تحقیق کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ ن م راشد روزانہ ایک کتاب کا مطالعہ کر کے سوتے۔ ان کے پاس علی پور چٹھہ میں بھی کتابوں اور ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کا انبار تھا لیکن ان کے انتقال کے بعد بہت کچھ ضائع ہو گیا۔ ہمارے ہاں ایک کمرہ لائبریری بناہوا تھا۔
فیس بک کمینٹ