میں نے پی۔ ٹی۔ وی کی گود میں آنکھ کھولی۔ مرینہ خان میرا پہلا کرش تھی تو راحت کاظمی اور جنید جمشید میرے ابتدائی رول ماڈل۔ ماموؤں کی فراوانی تھی لیکن چچا ایک بھی نہ تھا، لہٰذا میں نے صبح کی نشریات کے میزبان، مستنصر حسین تارڑ کو اپنا چچا بنا لیا۔ چار سال کی عمر میں سکول جانا شروع کیا تو یہ جان کر سخت مایوسی ہوئی کہ میرا ہر کلاس فیلو انہیں ’ذاتی‘ چچا سمجھتا تھا۔ احساسِ ملکیت کی ایسی واٹ لگی کہ پھر کبھی میں کسی کو ’چچا‘ نہیں بنا سکا ؛ جسے بنایا ’ماموں‘ ہی بنایا۔
پی۔ ٹی۔ وی ایک ہر فن مولا قسم کا چینل تھا جس پر سچی خبروں اور نئی فلموں کے علاوہ سب کچھ دستیاب تھا۔ خبروں کے لیے تو بی۔ بی۔ سی اردو کی ریڈیو سروس موجود تھی مگر فلم دیکھنے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا کیوں کہ ذاتی وی۔ سی۔ آر ابھی صرف نوابوں، پٹواریوں اور تھانیداروں کے پاس تھے، اور کرائے کا وی۔ سی۔ آر صرف وہی لا سکتا تھا جو پولیس، شبابِ ملی اور محلے داروں کو چکمہ دے سکے۔ نانا ابو اپنے آبائی گاؤں، شہنال کے ششماہی دورے پر جاتے تو بڑے ماموں کسی نہ کسی طرح سے وی۔ سی۔ آر لے آتے، مگر اُس پر بھی امیتابھ بچن اور رشی کپور کی پرانی فلمیں ہی چلتیں، نئی فلم دیکھنے کی ٹھرک پوری نہ ہو پاتی، اِس کے لیے سینما سے رجوع کرنا پڑتا۔
پاکستانی سینما ہمیشہ کی طرح ایک نازک موڑ سے گزر رہا تھا۔ وحید مراد، احمد رشدی اور شباب کیرانوی کا انتقال ہو چکا تھا، محمد علی، پرویز ملک اور ایس سلیمان نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی، فیصل رحمان کوکین پر لگ گئے تھے، ناہید اختر شادیوں پر شادیاں کر رہی تھیں، ندیم نے گنڈاسا اٹھا لیا تھا اور نورجہاں سے بے ہودہ اور ذومعنی گانے گوائے جا رہے تھے۔ ایک طرف پنجابی فلموں کی بھرمار تھی، دوسری جانب پشتو فلموں کی یلغار، درمیان میں اردو سینما کا تابوت پڑا تھا۔ سکرین وائلنس اِس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خالی سلطان راہی اور ہمایوں قریشی نے دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بندے پھڑکا دیے۔
باقی جگہوں کا تو نہیں پتا لیکن شجاع آباد کے گرد و نواح میں بدمعاشی نے خوب فروغ پایا۔ خود میرے اپنے محلے کے بچے ایسی ایسی بڑھکیں لگاتے اور گالیاں بکتے کہ بڑے بڑوں کا خون سوکھ جاتا۔ کئی تو بدمعاشی کی راہ میں اِتنا آگے نکل گئے کہ راہ چلتی لڑکیوں کو روک کر اُن سے ڈانس کی فرمائش کرنے لگے۔ میرے نانا ابو اِس صورتِ حال سے سخت نالاں تھے۔ اُن کا خیال تھا یہ سب پنجابی فلموں اور وی۔ سی۔ آر کلچر کا شاخسانہ ہے، جس کا بروقت سدِباب نہ کیا گیا تو ہر طرف تشدد اور فحاشی کا راج ہو گا۔ وہ کنول سینما کو بھی اِس سب کا موردِ الزام ٹھہراتے۔
کنول سینما ہمارے گھر سے محض دو سو میٹر کے فاصلے پر تھا، لیکن میرے لیے وہ ایک ایسی سرخ لکیر تھی جسے عبور کرنے کا مطلب جلا وطنی یا کم از کم شہر بدری تھا۔ جب بھی وہاں کوئی نئی فلم لگتی، سینما کے اہلکار ایک تانگہ بک کرتے اور اس میں ڈھولچی اور ڈھنڈورچی بٹھا کر جگہ جگہ اِس کے پوسٹرز ڈسپلے کرتے۔ میں حسرت اور اشتیاق کے ملے جلے تاثر سے اُنہیں دیکھتا رہتا۔ میری اشتہا اِس حد تک بڑھ گئی کہ ایک روز جب میں نے اپنے سب سے چھوٹے ماموں کو سینما میں داخل ہوتے دیکھا تو اُنہیں دھمکی دی کہ مجھے بھی فلم دکھائی جائے، ورنہ میں نانا ابو کو شکایت کر دوں گا۔ اُنہوں نے میرے منہ پر ایک طمانچہ دیا اور اوپر گیلری میں لے گئے، جہاں ندیم اور بابرہ کی پنجابی فلم ”مکھڑا“ کا دوسرا ہاف چل رہا تھا۔ یہ بلیک میلنگ ہی کا اعجاز تھا کہ نہ صرف ماموں نے مجھے فلم دکھائی بلکہ زبان بندی کے وعدے پر ایک مِنی کوک بھی لے کر دی۔
کئی سالوں تک میں خود کو دنیا کا سب سے بڑا بلیک میلر سمجھتا رہا، پھر ایک روز انکشاف ہوا کہ صحافی، سیاست دان اور خفیہ اداروں کے اہلکار مجھ سے بھی بڑے بلیک میلرز ہیں کہ اُن کے پاس زبانی شہادت ہی نہیں، تحریری اور تصویری شواہد بھی ہوتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ میں نے لٹریچر میں ماسٹرز کرنے کے بجائے صحافت میں ایم۔ اے کیا مگر چند ناگزیر وجوہات پر عملی صحافت میں حصہ نہ لے پایا۔ تاہم مجھے خوشی ہے کہ میری کمی میرے دوست رانا فاروق نے پوری کی، اور یوں پوری کی کہ ہر طرف غلغلہ مچ گیا۔
ضیائی دور کی پابندیاں کچھ کم ہوئیں تو پی۔ ٹی۔ وی پر بھی ہفتہ وار فلم دکھائی جانے لگی۔ ڈائریکٹ حوالدار، ضد، آئینہ، بندش اور قربانی جیسی شہرہ آفاق فلمیں اِسی کھاتے میں دیکھی گئیں۔ اُنہی دنوں ”دشمن دادا“ نامی ایک فلم کا ٹریلر دیکھا تو اُس پر دل آ گیا۔ نانا اور نانی کے گاؤں جانے کا وقت بھی آ چکا تھا۔ بڑے ماموں وی۔ سی۔ آر لینے گئے تو میں نے ”دشمن دادا“ کی فرمائش کر دی۔ ویسے تو وہ میری ہر بات مانتے تھے، مگر یہ بات سنی ان سنی کر گئے۔
وی۔ سی۔ آر آیا لیکن میری من چاہی فلم نہ آئی تو میں ناراض ہو کر چارپائی کے نیچے گھس گیا۔ میں اِتنا غصے میں تھا کہ میں نے گووندا کی ”سورگ“ دیکھنے سے بھی انکار کر دیا حالانکہ وہ میرا پسندیدہ اداکار تھا۔ ماموں نے بہتیرا سمجھایا کہ ابھی یہ فلم سینما پر لگی ہوئی ہے، وہاں سے اترے گی تو ہی اِس کی وڈیو کیسٹ آئے گی۔ میں مگر کچھ بھی سننے یا سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ میری سوئی بس اُسی ایک نکتے پر اٙڑی ہوئی تھی۔
زیادہ سمجھانے بجھانے کی کوشش کی گئی تو میں ہتھے سے اکھڑ گیا اور نانا ابو کو شکایت لگانے کی دھمکی دے دی۔ چھوٹے ماموں ہوتے تو شاید بات بن جاتی۔ آگے مگر بڑے ماموں تھے۔ اُن پر دھمکی کا الٹا اثر ہوا۔ ایک دم وہ شدید غصے میں آ گئے۔ پہلے تو خوب لعنت ملامت کرتے رہے، پھر اُنہوں نے خدا کو حاضر ناظر جان کر قسم کھائی کہ اگر نانا ابو کو اِس بارے میں ایک بھی لفظ بتایا گیا تو آئندہ وہ کبھی کرائے پر وی۔ سی۔ آر نہیں لائیں گے۔
میں نانا ابو کا لاڈلا تھا۔ جونہی وہ گھر آئے میں نے سارا کچا چٹھا کھول دیا۔ وہ بھی مرچ مسالا لگا کر۔ پہلے تو اُن تمام بھارتی فلموں کے نام گنوائے، جو اُن کی غیرموجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دیکھی گئی تھیں۔ پھر انڈیا کی مذمت میں ایک لمبی چوڑی تقریر داغ ڈالی، جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ دشمن ملک کی پرانی فلموں کے بجائے اپنے ملک کی نئی فلموں کو فروغ دیا جائے۔ نانا ابو نے تھوڑی بہت ڈانٹ ڈپٹ کی، پھر بات آئی گئی ہوئی، مگر ماموں اپنی قسم کے پکے نکلے۔ میں لاکھ رویا پیٹا، باقی سب نے بھی ترلے کیے، لیکن ماموں ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اگلے پانچ سال تک ہم میں سے کسی نے بھی وی۔ سی۔ آر، وی۔ سی۔ پی یا سینما کا منہ نہیں دیکھا، یہاں تک کہ انیس سو پچانوے میں اُن کی نوکری لگ گئی اور انہوں نے اپنا ذاتی وی۔ سی۔ آر خرید لیا۔
( بشکریہ : ہم سب لاہور )
فیس بک کمینٹ