راولپنڈی : بینک آف پنجاب جو کہ ایک نیم سرکاری ادارہ ہے گزشتہ چند ماہ سے شدید مالی دباؤ کا شکار ہے اور بینک کو اسٹیٹ بینک کی ہدایت کے مطابق اپنی تمام بر انچوں میں کیش کی دستیابی اور رقوم کی ادائگیوں کے معاملہ میں شدید دشواری کا سامنا ہے ۔ گزشتہ چند ماہ میں کیش کا بہاؤ غیر معمولی سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے پنجاب بینک کی مختلف شاخیں اپنے طور پر بینکنگ کے معاملات کو سلجھانے کے لئے کوشاں ہیں۔اس مقصد کے لئے صارفین کی مالی ترسیلات کو قصداََ روکا جا رہا ہے تاکہ صارفین کا کیش زیادہ دیر تک بینک کی تحویل میں رہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ کھاتہ دار ضرورت پڑنے پر اپنی رقم تک رسائی نہیں کر پا رہے۔گزشتہ ایک ہفتہ سے پنجاب بینک کے صارفین کو اپنے کھاتوں سے پیسے نکلوانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہی نہیں جمعہ کے روز اکثر شہروں میں بینک کے کھاتہ داروں کو اے ٹی ایم مشینوں سے رقم نکلوانے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صارفین کی ہیلپ لائن پر یہ بتایا جاتا رہا کہ یہ ایک عارضی مسئلہ ہے جو چند دنوں میں حل ہو جائے گا ۔ پنجاب بینک کے ایک ذمہ دار نے ہمارے نمائندے کو اتوار کے روز بتایا کہ راولپنڈی کی چند برانچوں میں گزشتہ کچھ دنوں سے تکنیکی خرابی کے با عث کھاتہ داروں کو کیش کی حصول میں پریشانی کا سامنا ہے تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ سسٹم کی خرابی کتنے دنوں سے برقرار ہے۔ پنجاب بینک کے مالی بحران کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پیر کے روز راولپنڈی میں پنجاب بینک کے صارفین نے اس بات کی تصدیق کی کہ بینک سے بذریعہ چیک دس سے پندرہ ہزار کی چھوٹی رقم نکلوانا بھی ممکن نہیں کیونکہ بینک میں کیش موجود نہیں۔راولپنڈی کی ایک برانچ کے آپریشن مینیجر نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی برانچ میں چھوٹی رقم کی ادائیگی کے لئے بھی کیش موجود نہیں ہے۔ یاد رہے اسٹیٹ بینک کی ہدایت کے مطابق تمام بینکوں کو کھاتہ داروں کی رقم کے خاص تناسب کا کیش برانچ میں موجود رکھنا لازمی ہے۔مبصرین کا خیال ہے بظاہر ایسی صورتحال کسی بڑی مالی بے قاعدگی کا پیش خیمہ ہوتی ہے یا اس میں بنک مینیجمنٹ کی نااہلی کو دخل ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اسٹیٹ بنک کو مداخلت کرنا چاہئے تاکہ صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔
فیس بک کمینٹ