فیاض الحسن چوہان کو جب ’’میرا ٹائیگر‘‘ پکارتے ہوئے سراہا گیا تھا تو اس وقت بھی ان کے خیالات ولب ولہجہ ویسا ہی تھا جس کی پاداش میں موصوف سے پنجاب کی وزارتِ اطلاعات منگل کے روز چھین لی گئی ہے۔ فقط ’’لب ولہجہ‘‘ ہی باعثِ تعزیر ہوتا تو ان کا وہ خطاب کافی تھا جو وزارتِ اطلاعات کے علاوہ ’’ثقافت‘‘ کے بھی وزیر ہوتے ہوئے انہوں نے لاہور کے الحمراہال میں فن کاروں کے روبرو فرمایا تھا۔یاد رہے کہ الحمرا نامی ہال سے فن کی آب یاری کبھی امتیاز علی تاج کی ذمہ داری تھی۔ انہیں ہم محض ’’انارکلی‘‘ ڈرامے کے مصنف کے طورپر جانتے ہیں۔ پوری کہانی مگر یہ ہے کہ ان کے والد سہارن پور سے لاہور منتقل ہوئے تھے۔عقیدتاََ ’’کٹر‘‘ دیوبندی ہوتے ہوئے بھی انہوں نے گزری صدی کے ابتدائی برسوں میں خواتین کو اظہار کی ترغیب دینے کے لئے ’’تہذیب نسواں‘‘ جیسا جریدہ شروع کیا۔ بچوں کو ادب پڑھنے کی جانب راغب کرنے کو ماہنامہ ’’پھول‘‘ نکالا۔احمد ندیم قاسمی نے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز اس رسالے کی ادارت سے کیا تھا۔امتیاز علی تاج نے اپنے والد کے متعارف کروائے اداروں کو مزید توانا بنایا۔ریڈیوجب ابلاغ کو عوام الناس تک لے جانے کی خاطر ایجاد ہوا تو انہوں نے اس میڈیم کی ضروریات کو بہت تخلیقی انداز میں سمجھا۔ ان کی بیٹی یاسمین طاہر ریڈیو پاکستان لاہور کے لئے ’’فوجی بھائیوں کا پروگرام‘‘ کی میزبانی کرتے ہوئے ’’گولڈن وائس‘‘ کہلائیں۔ داماد ان کے نعیم طاہر تھے جو امتیاز علی تاج کے قتل کے بعد کئی برسوں تک لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین رہے۔ شاید یہ بات بھی کئی لوگوں کے لئے ’’خبر‘‘ ہوکہ فیض احمد فیض بھی اسی آرٹس کونسل کے سربراہ رہے ہیں۔ہمارے تہذیبی زوال کا تلخ ترین پہلو یہ بھی ہے کہ ’’شائستگی‘‘ کی علامت ہوئی الحمرا عمارت1980کی دہائی میں ’’جگت بازی‘‘ کا مرکز بن کر اُبھری۔ ڈرامے سے پلاٹ فارغ ہوگیا۔ تضحیک بھرے جملوں کی ادائیگی سے لوگوں کو ’’تفریح‘‘ مہیا ہونے لگی۔ ان ڈراموں میں ’’ڈانس‘‘ کا تڑکہ بھی لگنا شروع ہوگیا۔اپنی وزارت سنبھالنے کے بعد فیاض الحسن چوہان صاحب اس عمارت میں ’’فن کاروں‘‘ سے خطاب فرمارہے تھے تو مجھے محسوس ہوا کہ الحمرا سے مختص کوئی ’’ڈرامہ‘‘ ہی چل رہا ہے اور موصوف خود کو جگتوں کا ’’ٹائیگر‘‘ بھی ثابت کررہے ہیں۔ثقافت کے علاوہ لاہور کو صحافت کا مرکز ہونے پر بھی بہت ناز رہا ہے۔ ’’زمیندار‘‘’’انقلاب‘‘ اور ’’ملاپ‘‘ سے ہوتے ہوئے ہم ’’نوائے وقت‘‘ اور ’’امروز‘‘تک پہنچے۔ صحافت کے ’’مرکز‘‘ کی نگہبانی فیاض الحسن چوہان صاحب کے سپرد ہوئی تو میں نے اپنا سرپکڑلیا۔ یہ سوچتے ہوئے افاقہ ہوگیا کہ شاید دورِ حاضر میں اپنے رویوں کے باعث ہم انہیں Deserveکرتے ہیں۔اس مقام تک پہنچتے ہوئے میں نے جو ابتدائی پیراگراف لکھے ہیں وہ یہ عیاں کرنے کو کافی ہوں گے کہ میں فیاض الحسن چوہان صاحب کا کس حد تک ’’مداح‘‘ ہوں۔ جوش خطابت میں چوہان صاحب نے جو کلمات کہے تھے انہیں برداشت کرنا کم از کم میرے لئے بھی ممکن نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر ان کلمات کی وجہ سے طوفان برپا ہوگیا۔ اسد عمر صاحب نے فوراََ پاکستانی جھنڈے میں سفید رنگ کی موجودگی کا احساس دلادیا۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے مذمت کی۔ نعیم الحق صاحب نے خفگی کا اظہار کیا۔منگل کے روز ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔
’’ٹائیگر‘‘ کو ’’سزا‘‘ دینا موجودہ حالات میں ان کے سرپرستوں کی ضرورت تھی۔ گزشتہ کئی برسوں سے بھارت میں مسلمانوں کو ’’گائے کی حرمت‘‘ کے نام پر ہجوم کی وحشت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حال ہی میں پلوامہ میں ہوئے واقعہ کے بعد ہزاروں کشمیری طلباء اور نوکر پیشہ افراد کو دلی اور دیگر شہروں میں گھیرائو میں لے کر ہراساں کیا گیا۔ فیاض الحسن چوہان کی فراغت کے ذریعے ہمیں اپنی ’’کشادہ دلی‘‘ کی نمائش کا موقعہ نصیب ہوگیا۔یہ کالم لکھنے سے قبل بہت دیانت داری سے مگر یہ سوچتا رہا کہ کیا ہمارے لوگوں کی اکثریت فقط دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے بارے میں ویسے ہی تحقیر انداز میں نہیں سوچتی جس کا اظہارفیاض الحسن چوہان صاحب سے ایک ناقابلِ معافی خطا کی صورت ہوگیا۔دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنا تو ایک الگ قصہ ہے۔ ہمارے ہاں مسلمانوں ہی کی چند برادریاں بھی ہیں۔ ہمارے لطیفوں کے مرکزی کردار ان ہی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ذرا غور کریں تو ہماری تحقیر کا نشانہ بنی یہ برادریاں زمین سے سونا اُگانے کی مہارت رکھتی ہیں۔ ان کی اکثریت ہنرمندوں پر مشتمل ہے۔ ان کے پیشوں کو مگر زمینوں کے مالک ’’خاندان گھرانوں‘‘ نے ہمیشہ ’’کمی کمین‘‘ تصور کیا۔ ان کا ہنر قابلِ فخر ہونے کے بجائے طعنہ بن گیا۔ ہم نے ان کی Profilingکی۔ انہیں لطیفوں کا عنوان بنایا۔ اپنے ’’حسب ونسب‘‘ پہ مان کی رعونت میں مبتلا رہے۔فیاض الحسن چوہان نے جو کہا وہ ہمارے دلوں میں اجتماعی طورپر موجود تعصبات کا اظہار تھا۔ وہ ’’پبلک فگر‘‘ ہونے کی بناء پر سوشل میڈیا کی زد میں آگئے۔ معروضی صورت حال میں انہیں ’’سزا‘‘ دے کر ہماری حکومت کو اپنی ’’کشادہ دلی‘‘ دکھانے کا سنہری موقعہ ہاتھ آگیا۔ واہ واہ ہوگئی۔بھارت کے سوشل میڈیا پر کئی مشہور سیاسی اور ثقافتی شخصیات اب چوہان صاحب کو ملی سزا کا تقابل مودی سرکار کی جانب سے متعصب ہجوم کی اُس سرپرستی سے کررہے ہیں جو مسلمانوں کو مسلسل اپنی زد میں رکھے ہوئے ہیں۔
فیاض الحسن چوہان کا معاملہ تو ’’خوش اسلوبی‘‘ سے طے ہوگیا۔ حکومت کو مگر سمجھ نہیں آرہی کہ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس کیسے جاری رکھے۔تحریک انصاف کے ایک اور ’’ٹائیگر‘‘ فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں چند کلمات کہے ہیں۔ ان کلمات کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین کو وہ دن یاد آگئے ہیں جب لاہورکے ایک مدرسہ میں نواز شریف پر جوتا اچھالا گیا تھا۔ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال کو گولی لگی۔پیر اور منگل کی شام قومی اسمبلی کا اجلاس چلانا ناممکن ہوگیا۔دیکھتے ہیں بدھ کی شام کیا ہوتا ہے۔ غصہ اور نفرت دورِ حاضر کا عمومی رویہ بن چکا ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے اس کی شدت سے میں بھی خود کو آزاد کروانے کی لگن میں مبتلا ہوں۔ اپنے دل میں کھولتے غصے اور کافی معاملات میں تعصب پر مبنی خیالات سے نجات پالوں تو کسی اور کی ملامت کا حوصلہ نصیب ہو۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ