لاہور میرا آبائی شہر ہے۔ بچپن سے جوانی تک پہنچتے ہوئے اس شہر سے بے تحاشہ جذباتی رشتے استوار ہوئے۔ رزق کی تلاش بالآخر اسلام آباد لے آئی۔ یہاں منتقلی کے کئی برس بعد تک بھی خود کو اس شہر کے مطابق ڈھال نہ پایا۔ موقع ملتے ہی لاہور روانہ ہو جاتا۔ وہاں رہتے ہوئے خود کو انگریزی لفظ میں بیان ہوا Rootedمحسوس کرتا۔ بتدریج لاہور جانے کے سفر کم سے کم تر ہونا شروع ہو گئے۔ مزاجاً ہر حوالے سے مگر لاہوری رہا۔ اگرچہ اس برس کے مارچ سے پہلے لاہور گئے تین برس ہو چکے تھے۔ تمام عمر صحافت کی نذر کر دینے کی وجہ سے لکھنے اور بولنے کی جو تھوڑی بہت صلاحیت نصیب ہوئی ہے اسی کی بنیاد پر رزق کمانے کی خاطر اب ہر ہفتے دو راتیں اور تین دن لاہور میں گزارنا ضروری ہوگیا ہے۔ میرے دیرینہ دوست یہ طے کرچکے ہیں کہ ’’اپنے‘‘ شہر میں تقریباََ واپس لوٹ کر میں بہت خوشی محسوس کررہا ہوں گا۔ انہیں یہ بتانے کی ہمت نہیں ہورہی کہ میں ’’اپنے‘‘ شہر میں اب خود کو اجنبی محسوس کرتا ہوں۔ ویسی ہی تنہائی محسوس ہوتی ہے جو وجودیت (Existentialism)سے منسوب ادب میں البرٹ کامیو اور ژاں پال سارتر جیسے ناول نگاروں نے تخلیقی شدت کے ساتھ بیان کی تھی۔ان دنوں اس اجنبیت کے اسباب ڈھونڈنے کی کوشش کررہا ہوں۔ دریافت کر بھی لئے تو شاید مناسب انداز میں بیان کرنے کا ہنر میسرنہ ہو۔
’’میرے‘‘ لاہور کی ایک منفرد شناخت تھی۔ ہر عمارت کی اپنی انفرادیت تھی۔محلے اور گلیاں تھیں جو مختلف شعبوں یا ہنرمندی کے کسی ٹھوس پہلو کا اظہار تھیں۔ کسی راہ چلتے شخص سے دو تین فقروں پرمشتمل گفتگو کے بعد میں جبلی طور پر قطعی درست انداز میں یہ طے کرسکتا تھا کہ اس شخص کا تعلق مثال کے طورپر موچی دروازے سے ہے یا گوالمنڈی سے۔ روزمرہّ گفتگو ہمیشہ پنجابی میں ہوتی تھی۔ لہجہ اور چند الفاظ مگر بولنے والے کے محلے کا پتہ بتادیتے۔ ڈرائیور،دوکان دار اور ہوٹلوں کا عملہ آج کے لاہور میں اُردو بولتا ہے۔ مجھے ’’بائو‘‘ جانتے ہوئے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ لوگ انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ میں ’’لاہوری‘‘ بولتا رہتا ہوں۔ اس زبان میں لیکن مجھے جواب نہیں ملتے۔ لاہور میں خود کو’’اجنبی‘‘ نہ سمجھوں تو کیا سمجھوں۔لاہور میں گزشتہ چند ہفتوں سے میرا قیام زیادہ تر گلبرگ کے کمرشل علاقوں تک محدود رہتا ہے۔ وہاں کے Milestonesاب کوئی ’’باغ‘‘ (پارک نہیں)،سینما یا لائبریری نہیں ہیں۔ راستہ سمجھانے کو لوگ کسی نہ کسی سٹور کا نام لیتے ہیں۔میری ایک بہن عسکری XIمیں رہتی ہے۔ ڈرائیور کو ساتھ لے کر اس کے گھر جاتے ہوئے راستہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو کوئی Milestoneطے کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ انڈرپاسز ہیں اور اوورہیڈ Bridges۔ٹریفک کو رواں رکھنے کے لئے کنکریٹ کی اونچی دیواریں ہیں۔ سڑک پر رہ نمائی کے لئے سائن بورڈز لگے ہوئے ہیں۔تیروں کے نشان سے دائیں،بائیں یاسیدھا جانے کے لئے رہ نمائی موجود ہے۔ یہ ہرگز طے نہیں ہوپاتا کہ کونسا Phaseکہاں ختم ہوا اور دوسرے کا آغاز کہاں سے ہوا۔ دائیں بائیں یقینا صاف ستھرے ماحول میں بہت ترتیب سے بنائے ہوئے مکانات ہیں۔ یہ تمام مگر ایک دوسرے کی کاربن کاپی محسوس ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے تعمیر کئے مکانوں کو ایک ساتھ رکھ کر ’’صف بند‘‘ کر دیا گیا ہے۔ تنوع کی کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ آنکھ کو تھکا دینے والی یکسانیت۔ 30سے زیادہ منٹ تک گاڑی کے شیشے سے باہر جھانکتے ہوئے کسی ایک مقام پر بھی منفرد نظرآکر چونکادینے والی کوئی عمارت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ’’نئے‘‘ لاہور کو مجھے محسوس ہوتا ہے ’’ڈیزائن‘‘ ہی ان لوگوں کی سہولت کے لئے کیا گیا ہے جن کے پاس کاریں یا موٹرسائیکلیں ہیں۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک سرعت سے پہنچانے کی سہولت مہیا کرنا پہلی ترجیح محسوس ہوتی ہے۔ ڈیفنس کے بہت سارے Phases میں بہت صاف ستھرے فٹ پاتھ ہیں۔ ان پر خراماں کسی منزل کو بڑھتے افراد مگر پنجابی زبان والے ’’ٹانواں ٹانواں‘‘ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔کار میں بیٹھے ہوئے مجھے ’’اپنے‘‘ لاہور کا سرکلر روڈ یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔ دلی دروازے سے گزرکر شاہ محمد غوث کا مزار، ’’کیلیاں والی سڑک‘‘ ،موچی دروازے کا باغ۔گرمیوں کے شدید موسم میں بھی ہم جوانی میں ٹولیوں کی صورت فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے گورنمنٹ کالج،پاک ٹی ہاؤس یا میکلوڈروڈ کے چائے خانوں یا حلیم کی دُکانوں تک جایا کرتے تھے۔ قدیم درختوں کی چھاؤں نے کبھی موسم کی شدت یا حدت کا احساس نہ ہونے دیا۔ راستے میں سبیلیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ پیاس لگتی تو اس کی ٹونٹی کھول کر ’’بک‘‘ سے پانی پی کر پیاس بجھا لیتے۔ ہاتھ میں منرل واٹر کی بوتل لے کر چلنے کی ضرورت کبھی محسوس نہ ہوئی۔ گلیوں کے موڑ پر لگے ہوئے نلکوں کے پانی پر اندھا اعتبار تھا۔ اس کے پانی سے کسی بیماری کے لاحق ہونے کا خدشہ نہیں تھا۔ ’’میرا‘‘ لاہور درحقیقت محمود غزنوی کے دور سے عام انسانوں کی سہولت کے لئے تعمیر ہوا تھا۔ درختوں کی چھائوں اور کنوئیں کے ذریعے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا تھا۔اس فراہمی نے ’’میرے‘‘ لاہور کو شفیق بنایا تھا۔ یہ شفقت فقط انسانوں تک ہی محدود نہیں تھی۔ لاہور کے ہر محلے کے دروازے کے باہر گھوڑوں اوردیگر جانوروں کی تسکین کے لئے پانی کی ’’ہودیاں‘‘ بھی ہوا کرتی تھیں۔ کئی مخیر حضرات وہاں پر چارے کے ڈھیر خرید کر رکھ دیا کرتے تھے۔ کوچوان اور اس کے گھوڑے کو ربّ کی رضا کی طلب میں مطمئن رکھنے کی پُرخلوص خواہش۔آج کا لاہور اس پُرخلوص شفقت کا اظہار نہیں رہا۔ حرکت تیز تر والا قصہ ہے۔ میں اس میں ’’اپنے‘‘ لاہور کا تسلسل ابھی تک دریافت نہیں کرپایاہوں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ