سابق ریاست بہاولپور کا اہم ضلع بہاولنگر ہے ۔ اس کا قدیم نام حاصل ساڑھو ہے ۔نواب آف بہاولپور کے نام پر اسے بہاولنگر کا نام دیا گیا اور 1953ء میں اسے ضلعی حیثیت ملی ۔ اس کے شمال میں ضلع ساہیوال ، مشرق میں فیروز پور، جنوب میں بیکانیر اور مغرب میں بہاولپور ہے ۔ بہاولنگر سے بھارت کی سرحد محض 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ۔ ضلع بہاولنگر بہت بڑا ضلع ہے ‘ اس کی پانچ تحصیلیں ہیں ‘ جن میں بہاولنگر ، منچن آباد، چشتیاں ، ہارون آباد، فورٹ عباس شامل ہیں ۔ ضلع کا رقبہ 3428 مربع میل ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بہاولنگر کا شمار بر صغیر جنوبی ایشیاء کے خوشحال ترین خطے کے طور پر ہوتا تھا ۔ دریائے ستلج اسے سیراب کرتا تھا ، اس علاقے کو ستلج ویلی بھی کہا جاتا ہے۔ آمد و رفت کیلئے بہت بڑا ریلوے ٹریک تھا ، کراچی بندرگاہ سے بذریعہ ٹرین آنے والا سامان کراچی براستہ سمہ سٹہ ، بہاولنگر ہندوستان کے شہروں تک جاتا تھا ، اسی طرح ہندوستان کے بڑے شہروں بمبئی اور دہلی کا سامان کراچی تک جاتا تھا ۔ ہر طرف خوشحالی تھی ‘ برطانیہ کا پاؤنڈ ریاست بہاولپور کے روپے کی ویلیو برابر تھی ‘ قیام پاکستان کے بعد دریائے ستلج بیچ دیا گیا ‘ اور امروکا بٹھنڈہ ریلوے ٹریک بند ہونے سے دنیا کا خوبصورت ریلوے اسٹیشن بہاولنگر آج بربادی کا نوحہ بیان کر رہا ہے۔ کسی بھی ملک کا سرحدی علاقہ حساس حیثیت کا حامل ہوتا ہے ، سابق ریاست بہاولپور کے تین اضلاع بہاولنگر ،بہاولپور اور رحیم یارخان کے ساتھ دشمن ملک بھارت کا طویل بارڈر موجود ہے ۔ بارڈر کے دونوں طرف وسیع صحرا موجود ہے ‘ پاکستانی صحراکا نام چولستان اور ہندوستانی صحرا کا نام راجھستان ہے ۔ راجھستان کے صحرا کو اندرا گاندھی نہر کے ذریعے لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ چولستان پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے اور پاکستانی صحرا میں چولستان کے بعد ایک نیا چولستان وجود میں آ رہا ہے ۔ بارڈر کی دوسری طرف پانی اتنا وافر مقدار میں موجود ہے کہ وہاں دوسری فصلوں کے ساتھ دھان بھی کاشت کی جا رہی ہے ‘ جبکہ پاکستان میں انسان اور جانور پیاس سے مر جاتے ہیں ۔ سرحدی علاقے نہایت حساس اہمیت کے حامل ہیں ‘ اس لئے ان مسائل پر بار بار لکھتا رہتا ہوں ۔ پچھلے دنوں بہاولنگر جانا ہوا ، فضل فرید لالیکا اور دوسرے اہل قلم بہاولنگر کے مسائل سے ہمیشہ آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے دوست چوہدری افضل کلوکا بھی مجھے بہاولنگر کی ویرانیوں کے بارے میں بتاتے رہتے ہیں ۔ ان کی اس بات نے مجھے چونکا کر رکھ دیا کہ چولستان میں جانور پانی کی خوشبو پر سفر کرتے ہیں ۔ بھارت نے اپنی سرحد پر آہنی باڑ قائم کر رکھی ہے ۔ چولستانی جانور پانی کی خوشبو پر دوسری جانب جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ خار دار آہنی سلاخوں سے الجھ کر زخمی ہو کر مر جاتے ہیں ۔ ان بے زبانوں کو کون بتائے کہ دشمن ملک کی طرف جانا مناسب نہیں ۔ بہاولنگر میں دوستوں سے ملاقاتوں کے نتیجے میں جو مسائل سامنے آئے ، ان کے مطابق وسیب کے دوسرے علاقوں کی طرح بہاولنگر میں تعلیم اور روزگار کے ساتھ ساتھ صحت کا بھی بنیادی مسئلہ درپیش ہے۔ پورے ضلع بہاولنگر میں ایک بھی بڑا ہسپتال موجود نہیں اور نہ ہی کوئی دل کا ہسپتال ہے ۔ مریض ملتان یا لاہور پہنچنے سے پہلے دم توڑ جاتا ہے ۔ صحت کے مسائل نے لوگوں کو طبعی مریض کے ساتھ ساتھ ذہنی مریض بھی بنا دیا ہے ۔ آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ منڈی صادق گنج کا مضافات جو کہ بارڈر ایریا ہے ‘ وہاں پچاس گاؤں ایسے ہیں جہاں چھوٹا سا بنیادی مرکز صحت بھی نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ایک سریانوالا گاؤں ہے وہاں کے ایک باشندے کا نام خیر محمد ہے جو ایک عرصہ سے بیمار ہے ‘ اس کا علاج نہ ہو سکا اور وہ ذہنی مریض بن گیا ۔ اب وہ اٹھارہ سال سے ایک درخت کے ساتھ بندھا ہوا ہے، درخت سوکھ چکا ہے مگر اس کا علاج نہیں ہو سکا ۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے ادوار گزر گئے ‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور منظور وٹو کے دور کو بھی اس علاقے کے لوگوں نے دیکھا ‘ مشرف اور پرویز الٰہی کا دور بھی آیا ،اب انصاف کے نام پر بر سر اقتدار آنے والی تحریک انصاف کو بھی کئی ماہ ہو گئے مگر کسی نے توجہ نہیں دی ۔ اس دوران وہاں کے باشندے چوہدری محمد افضل کلوکا اور پروفیسر مہر افضل حکام کو سالہا سال سے درخواستیں دیتے آ رہے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی ۔ ضلع بہاولنگر کی تحصیل منچن آباد کے رہائشی ، انڈیا کے بارڈر کے ساتھ بیس گاؤں ایسے ہیں جہاں سکول کا وجود تک موجود نہیں ۔ جن میں ایک گاؤں میں کم سے کم سو گھر ہیں ۔ میں اس درد کی کہانی کس طرح بتاؤں کہ یہاں کے لوگ وزیراعظم سے لیکر ایم پی اے تک کے تمام دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں ، یہ بھی پاکستانی ہیں ، تعلیم ان کا بھی بنیادی حق ہے ‘ 64 سال میں تو نہیں ملا چلو اس مسیحاکا دروازہ پھر سہی ۔ گاؤں کے نام مندرجہ ذیل ہیں ڈب گوماں ،سموالی ، ڈھاپ سچا سنگھ ، ڈب شرقی ،شریا والا، مناسری رام، اڈراگ، جنڈ والا، منڈھالی والا، قائم کا، چھنگا، اکاوالا، مٹ والا ، چھوڑکی ۔ ان میں سے ہر ایک گاؤں کی آبادی ہزار نفوس پر مشتمل ہے مگر ان تمام گاؤں میں سکول موجود نہیں ہیں ۔ حکومت کو چاہئے کہ لاہور سے سپیشل ٹیم بھیجیں ، وہ وہاں جاکر وزٹ کریں ، وزٹ کے بعد اصل صورتحال سامنے آ جائے گی ۔ یوں تو پورے پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ انڈیا پاکستان کے بارڈر کے ساتھ آباد ہے اور یہ تمام علاقے انتہائی پسماندہ ذرائع آمد و رفت سے محروم ، صحت اور تعلیم کی سہولیات نہیں ، نہری پانی دستیاب نہیں ، زیر زمین پانی کڑوا ہے ۔ یہاں نہ سکول ہے، نہ ہسپتال ، نہ سڑکیں اور نہ ہی روزگار ۔ ایسے علاقوں میں سے ایک تحصیل منچن آباد ہے، جو ہیڈ سلیمانکی سے لے کر منڈی صادق گنج تک بارڈر کے ساتھ ساتھ پھیلا ہوا ہے اور 86 دیہات پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ غربت، بے روزگاری اور بیماریوں کی آماجگاہ ہے ۔ لوگوں کا واحد ذریعہ روزگار زراعت ہے اور نہری پانی نہ ہونے کے باعث بارانی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ 1947ء سے پہلے یہ علاقہ بہاولپور ریاست کا حصہ تھا اور دریائے ستلج پر ہیڈ گنڈا سنگھ والا سے گرے کینال نکال کر اس علاقے کو سیراب کیا جاتا تھا لیکن ہیڈ گنڈا سنگھ والا ہندوستان کی ملکیت میں چلے جانے سے گرے کینال بند ہو گئی اور یہ علاقہ ویران اور بنجر ہوگیا۔ اس علاقے کے مسائل 70 سال بعد جوں کے توں ہیں ۔ اس علاقے کے مسائل کے حل کیلئے حکومت اورجاگیردار سیاستدانوں سے مایوس ہو کر عوام نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے مطالبہ کیا کہ اس علاقے کے مسائل حل کئے جائیں ، 86 د یہات کو سیراب کرنے والی گرے کینال کے متبادل عوامی کینال کو مکمل طور پر بحال اور چالو کیا جائے ۔ ششماہی دورانیے میں عوامی کینال میں پورا پانی چھوڑا جائے تاکہ نہری پانی کی دستیابی سے علاقے کی زراعت بحال ہو سکے اور کسانوں کے گھروں کے چولہے بجھنے سے بچ سکیں ۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ