میرے ایک دوست نے پوچھا ’’کیا تم نظریاتی شخص ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’خدا نہ کرے ایسا ہو‘‘
اس نے حیران ہو کر پوچھا ’’وہ کیوں؟‘‘
میں نے کہا ’’نظریات کے نام پر لوگ کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ کسی نے اسپتال کی تعمیر کے نام پر بیسیوں ایکڑ زمین الاٹ کرا لی، کسی نے دین کی تعلیم کے نام پر سرکاری زمین کوڑیوں کے مول خریدی، کوئی نظریاتی تعلیم کے نام پر کاروباری تعلیمی ادارے بناتا جا رہا ہے، نظریاتی سیاستدان اپنی جماعت کو چھابڑی میں رکھ کر فروخت کرتے رہے ہیں، نظریاتی کالم نگار پلازے بنا رہے ہیں، نظریاتی دانشور این جی اوز کے ذریعے بیرونی حکومتوں سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اتنے سارے ’’نظریاتی‘‘ لوگوں کے درمیان کوئی ’’غیر نظریاتی‘‘ شخص بھی ہو؟‘‘
دوست میری اس گفتگو سے کچھ پریشان ہوا، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا’’اگر کوئی شخص نظریہ کیش کرانا نہیں چاہتا تو اچھی بات ہے لیکن اسے کسی نظریاتی گروپ کے ساتھ ہونا تو چاہیے۔‘‘ میں نے کہا ’’یہ بھی کوئی ضروری نہیں کیونکہ گروپ کے سچ کے علاوہ اس کے جھوٹ میں بھی شامل ہونا پڑتا ہے جبکہ سورج کی کرنوں کی طرح سچائی بھی کئی آنکھوں میں پھیلی ہوتی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی ساری سوچ نہ مثبت ہے اور نہ ساری منفی۔ کچھ حقیقتیں فرائیڈ کے ہاں بھی ہیں، کارل مارکس کے ہاں بھی اور ان کے ہاں بھی جو انسانی مسائل کو ان مفکروں کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں جتنا گند ہے وہ نظریاتی گروپوں کی وجہ سے ہے، یہ شیعہ کیا ہیں، یہ سنی کیا ہیں،یہ دیوبندی کیا ہیں، یہ بریلوی کیا ہیں اور ان کی مسلح عسکری تنظیمیں کیا ہیں؟ سیاست میں بھی جتنا گند ہے، اس کی وجہ یہ نظریاتی گروپ ہی ہیں۔ ’’لوٹے‘‘ بھی نظریاتی ہیں اور انہیں پوری ڈھٹائی سے ’’لوٹا‘‘ کہنے والے ’’لوٹے‘‘ بھی نظریاتی گروپوں کے کارکن ہیں۔ الیکشن میں بھی دو نظریاتی گروپ آمنے سامنے ہوتے ہیں اور ان دونوں گروپوں سے ایک جیسے لوگ ہی جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہمیں نظریے کے نام پر اپنے گروپ کے جھوٹے کو ووٹ دینا پڑتا ہے لہٰذا یہ باتیں چھوڑو ،کوئی اور بات کرو۔ ‘‘
میرا دوست پہلے میری گفتگو سے صرف پریشان ہوا تھا، اس دفعہ وہ ’’حیران و پریشان‘‘ ہو گیا اور بولا ’’دراصل ہمارے ہاں کوئی نظریاتی گروپ ہے ہی نہیں، مفاد پرستوں کے ٹولے ہیں جنہوں نے اپنی دھڑے بندیوں کو نظریاتی کے نام پر اپنے گروپ قرار دے رکھا ہے۔‘‘میں نے کہا ’’تم ٹھیک کہتے ہو لیکن جن ملکوں میں خالص نظریاتی جنگ لڑی گئی وہاں آج کیا ہو رہا ہے؟‘‘
یہ سن کر میرا دوست کچھ چڑ سا گیا اور کہنے لگا ’’تم آخر کہنا کیا چاہتے ہو؟ ‘‘
میں نے کہا ’’میں کچھ نہیں کہنا چاہتا سوائے اس کے کہ نظریہ کسی اصول کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ اس صورت میں نظریہ دھڑے بندی کو جنم نہیں دے گا بلکہ یہ حق اور انصاف تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا۔ انسان کو’’ نظریاتی‘‘ نہیں اصولی ہونا چاہیے۔‘‘
’’اور اگر اصول مذہب کے ساتھ ٹکراتا ہو؟‘‘ دوست نے پوچھا۔
’’کوئی مذہب بے اصولی نہیں سکھاتا‘‘ میں نے کہا ’’یہ ہماری اپنی تعبیر ہوتی ہے جو ہم مذہب کے اصولوں کو سامنے رکھ کر اخذ کرتے ہیں اور پھر بدقسمتی سے اس تعبیر کو حتمی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔ ابلیس نہایت’’ مذہبی شخص‘‘ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ فرشتہ تھا، اس نے کسی اصول سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آگ ،مٹی سے افضل ہے لہٰذا وہ آدم کو سجدہ نہیں کرے گا کیونکہ آدم مٹی سے بنا ہے اور اس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔ اپنے ’’نظریے ‘‘پر سختی سے قائم رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ راندئہ درگاہ ہوا اور اسے جنت سے نکال دیا گیا۔ اگر وہ خدا کی اطاعت کے ’’اصول‘‘ پر قائم رہتا اور اپنی خودساختہ تعبیر کو حتمی عقیدہ نہ سمجھتا تو اسے اور اس کے ساتھ ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔‘‘
دوست کے چہرے پر ایک الجھن سی ابھری، اس نے کہا ’’کیا تم یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ اگر کسی کا نظریاتی گروپ جھوٹ کے راستے پر چل رہا ہو تو آنکھیں بند کرکے اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے؟ ‘‘
میں نے جواب دیا ’’میں یقیناً یہی کہنا چاہتا ہوں اور اس کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے نظریات میں متشدد ہونا ملک، قوم، ملت اور مذہب کے لیے تباہ کن ہے۔ ابوجہل کتنا قابل شخص تھا، اپنے قبیلے کا سردار تھا لیکن اس کے نظریاتی تشدد نے لوگوں کو اس کا اصل نام تک بھلا دیا ہے، اب اسے اس کے ہم خیال بھی ابوجہل ہی کہتے ہیں۔ اس وقت ہمارے تمام سیاسی، مذہبی، سماجی اور ادبی دھڑے اپنے اپنے نظریات میں اتنے متشدد ہو چکے ہیں کہ کسی دوسرے کا نقطہ نظر سننے کے بھی روادار نہیں۔ ہم ابوجہل بنتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ابوجہل کی طرح نئے خیال کو محض اس لئے رد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ہمارے بنے ہوئے معتقدات کے خلاف ہے بلکہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا علیؓ کی طرح اسے خوش آمدید کہنا چاہئے۔‘‘
یہ سن کر میرا دوست غصے سے لال بھبھوکا ہو گیا اور پاؤں پٹختا ہوا بولا ’’میں نے اپنے نظریات بہت سوچ سمجھ کر قائم کئے ہیں، میرے باپ دادا بھی انہی خیالات کے حامل تھے۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ میں تمہاری کسی بات سے قائل ہوا ہوں، میں اپنے خیالات پر سختی سے قائم ہوں۔ معاف کرنا میں نظریاتی شخص ہوں۔ ‘‘
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ