وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز ملک کی مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ایک طرف سابقہ حکمرانوں کے لتے لئے تو اس کے ساتھ ہی اٹھارویں ترمیم کو ملک کے مسائل کی بنیاد قرار دینے کی کوشش کی۔ بہت سے مبصرین کے نزدیک کرپشن، این آر او اور ’کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گا‘ کے نعروں کے درپردہ اٹھارویں ترمیم کا قضیہ ہے جو مرکز کے مالی اور انتظامی اختیارات کو محدود کرتی ہے۔ یہ ترمیم پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں آصف زرداری کی کوششوں سے منظور کی گئی تھی اور اسے مسلم لیگ (ن) کی حمایت بھی حاصل تھی۔
آصف زرداری اسی ترمیم کا کریڈٹ لیتے ہوئے یہ دعوی کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے شق اٹھاون 2 (بی) ختم کر کے صدر سے اسمبلی توڑنے کے اختیارات واپس لے کر پارلیمنٹ کو با اختیار بنایا ہے۔ کیوں اسی آئینی شق کے تحت کوئی صدر ماضی میں منتخب حکومتوں کو برطرف کرتا رہا ہے۔ اس ترمیم کے تحت صدر کے عہدہ کو آئینی حیثیت دے کر ملک میں پارلیمانی نظام کی روح بحال کی گئی تھی۔ اس حد تک سیاسی حلقے اس پر متفق و متحد رہے ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے شبہات سامنے آتے رہے ہیں۔
مختلف وزرا اور حکمران پارٹی کے نمائیندے اس ترمیم کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والے وسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام سےکیے ہوئے وعدے پورے کرنے میں اسی لئے ناکام ہو رہی ہے کیوںکہ مرکز کے سارے وسائل صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ اور جو رقم بچتی ہے اس میں سے دفاعی اخراجات اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے بعد مرکز کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا اور وفاقی بجٹ خسارے میں جاتا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بارے میں پراسرار سوال اٹھانے کا سلسلہ گزشتہ برس کے شروع میں ملک کے ممتاز صحافیوں سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی غیر رسمی اور آف دی ریکارڈ گفتگو کے بعد شروع ہؤا تھا۔ اگرچہ اس ملاقات میں ہونے والی باتوں کو رپورٹ کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن اس ملاقات کے حوالے سے جو خبریں ’افشا‘ کی گئیں ان کے مطابق آرمی چیف نے مبینہ طور پر اس آئینی ترمیم کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ کیوں کہ اس طرح مرکز کے اختیارات محدود ہوگئے تھے۔
اس کے بعد اٹھارویں ترمیم پر اداروں کی برہمی کا غلغلہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے سنائی دیا جب اس ترمیم کے تحت وفاق کے انتظام میں چلنے والے ہسپتالوں کو صوبوں کے حوالے کرنے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ نے انہیں وفاق کے انتظام میں دینے کا حکم دیا تھا۔ البتہ سپریم کورٹ اس سے زیادہ کوئی اقدام نہیں کر سکی کیوںکہ عدالتی فعالیت کے بدترین مظاہر کے باوجود سپریم کورٹ کسی آئینی ترمیم کو نظر انداز کرنے یا ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس لئے اس حوالے سے معاملہ سوال اٹھانے اور بے یقینی پیدا کرنے تک محدود رہا۔
اب وزیراعظم نے وفاقی حکومت کی مالی مشکلات اور اٹھارویں ترمیم کا تعلق قائم کرتے ہوئے اسی تقریر میں سابقہ حکمرانوں کو لوٹی ہوئی دولت واپس کر کے آزادی حاصل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بصورت دیگر انہوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ ایک ہی سانس میں یہ دو مختلف باتیں کرنے کا مقصد صرف مرکز کی مالی بے چارگی کا احوال بیان کرنا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے اپنے مرغوب دھمکی آمیز انداز میں اپوزیشن پارٹیوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر انہوں نے اٹھارویں ترمیم ختم کرنے اور مرکز کو مضبوط کرنے کے لئے حکومت کی خواہش پوری کرنے میں مدد نہ کی تو وہ ان پارٹیوں کے لیڈروں کا جینا حرام کردیں گے۔ اور تمام ریاستی ادارے بدعنوانی کے نام پر پکڑ دھکڑ اور قید و بند کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اٹھارویں ترمیم پر وفاق کے دو اہم اداروں فوج اور سپریم کورٹ کے تحفظات کے تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ عمران خان جب اٹھارویں ترمیم کو ’ملکی مفاد‘ کے برعکس قرار دیتے ہیں تو انہیں اسٹبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ اس ترمیم کو ختم کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں کوئی کوشش ہوتی ہے تو سپریم کورٹ بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ البتہ وزیر اعظم کی یہ دھمکی سیاسی بلیک میلنگ کی بدترین مثال کہی جا سکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اول تو ایوان میں آنا اپنی شان سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اگر وہ کبھی قائد ایوان کی مسند پر جلوہ افروز ہونے کے لئے پچھلے دروازے سے قومی اسمبلی میں آ بھی جائیں تو وہ اپوزیشن لیڈروں سے سلام دعا لینا یا ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتے۔ انہوں نے آئینی پابندیوں کے باوجود الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کی نامزدگی کے لئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت کی زحمت نہیں کی۔ وہ اس تاثر کو قوی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چور اچکوں کے ساتھ ملنا پسند نہیں کرتے۔
لیکن اس طرح وہ دراصل یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ نہ تو جمہوری روایت یا آئینی تقاضے پورا کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک عوام کے ایسے ووٹوں کا احترام بھی ضروری نہیں ہے جو تحریک انصاف کے علاوہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کی حمایت میں ڈالے گئے تھے۔ گویا وزیر اعظم پارلیمانی جمہوریت کی روح کو تسلیم کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کا یہ سیاسی رویہ بھی ان کے اس مزاج کے عین مطابق ہے جس کے تحت وہ صرف ان عدالتی فیصلوں کو انصاف مانتے ہیں جن میں تحریک انصاف کا مؤقف مانا جائے۔ اس کی رائے کے برعکس فیصلوں کو انصاف کا خون قرار دیا جاتا ہے۔
اب جلسہ عام میں اٹھارویں ترمیم پر اپنی بے چینی اور تشویش کا اظہار کرنے کے بعد اپوزیشن لیڈروں کو عبرت ناک انجام کی دھمکی دیتے ہوئے عمران خان نے شاید اس ترمیم کو ختم کرنے کے لئے پارلیمانی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بھونڈے انداز میں کی جانے والی یہ کوشش اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ اپوزیشن سے کسی معاملہ پر تعاون کے لئے احترام اور مواصلت کا رشتہ استوار کرنا پڑتا ہے لیکن عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ جس طرح کرکٹ کیپٹن کے طور پر کیرئیر تباہ کرنے کا خوف پیدا کرکے کھلاڑیوں کو اطاعت گزاری پر مجبور کرتے تھے یا کھیل کے دوران مرضی کے فیصلے نافذ کرنے کا اختیار رکھتے تھے، شاید سیاست میں بھی انہی ہتھکنڈوں سے کام چل جائے گا۔
بدنصیبی سے عمران خان کا آئیڈیل بھی عمران خان ہی ہے۔ وہ پاکستان کے سیاسی و معاشی معاملات کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھتے ہیں۔ وہ یہ دعوی کرتے رہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے کرکٹ میں کامیابی حاصل کی تھی، اسی طرح وہ ملک کی اصلاح بھی کرلیں گے۔ ایسا کرتے ہوئے البتہ وہ ان لاتعداد ناکامیوں کا ذکر کرنا بھول جاتے ہیں جن کا سامنا انہوں نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے تک اور اس کے دوران کیا تھا۔ یوں بھی سیاست، کھیل کا میدان نہیں ہے۔ اس میں کسی ایک ٹیم کی عزت و وقار کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ ایک قوم کے مفادات کا تحفظ مطلوب ہوتا ہے۔ اسی لئے کوئی بھی لیڈر منتخب ہونے کے بعد یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وہ کسی نظام میں بلا تخصیص سب عوام کا قائد ہے اور اس کی حکومت سب کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پابند رہے گی۔
اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے یہ جان لینا ضروری ہے کہ اس میں صرف صدر کے اختیار کو محدود کر کے غیرضروری طور پر حکومتیں معطل کرنے کا راستہ ہی نہیں روکا گیا تھا بلکہ اس کے تحت کی جانے والی جامع ترمیموں کے ذریعے صوبوں کو وسیع مالی، انتظامی اور قانونی اختیارات دیے گئے تھے۔ پاکستان میں صوبوں کے درمیان بداعتمادی کی وجہ سے عام طور سے چھوٹے صوبوں کو وسائل کی تقسیم اور اختیارات کے استعمال کے معاملہ پر پنجاب سے شکوے و شکایات رہتی ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کے تحت کسی حد تک ان شکایات کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ کسی بھی جمہوری انتظام میں اختیارات کا ارتکاز عام طور سے چھوٹے اور دور دراز علاقوں کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم کو مختلف علاقوں میں سیاسی حمایت حاصل رہتی ہے۔ اس قسم کی ایک مضبوط تحریک جنوبی پنجاب کو خود مختار صوبہ بنانے کی صورت میں موجود رہی ہے۔
گزشتہ سال انتخابات میں کامیابی کے لئے تحریک انصاف نے کامیابی کی صورت میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ اسے ابھی تک اس وعدہ کو وفا کرنے کے لئے اقدام کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ تاہم چھوٹے انتظامی یونٹس کا قیام اور وسائل اور اختیارات کو زیادہ سے زیادہ علاقائی یونٹس کو منتقل کرنے کا طریقہ جمہوریت کو مضبوط کرنے اور نظم مملکت پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے برعکس اگر مضبوط مرکز اور وسائل کے ارتکاز کی بات کی جائے گی تو اس سے چھوٹے صوبوں کے علاوہ دور دراز علاقوں میں مسائل کا شکار لوگوں کی شکایات رفع نہیں ہوسکیں گی اور غلط فہمیوں اور دوریوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کا سانحہ بھی اختیارات کو مرکزیت دینے کے رویہ کے خلاف احتجاج کے نتیجہ میں ہی وقوع پذیر ہؤا تھا۔
عمران خان نے سندھ کے علاقے گھوٹکی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک ایسی ترمیم کے خلاف بات کی ہے جس کے تحت ایسے محروم لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس وقت ملک میں اٹھارویں ترمیم ختم کر کے نئی الجھنیں اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا کرنے کی بجائے، اس ترمیم میں کیے گئے فیصلوں پر پوری طرح عمل درآمد کے لئے اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عمران خان چونکہ خود کو ملک کا واحد دیانت دار شخص سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ وہ اس گمان میں بھی مبتلا ہیں کہ ان کے علاوہ کوئی اس ملک کے مسائل حل نہیں کرسکتا، اسی لئے اب وہ کسی نہ کسی طور مطلق العنانیت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہر معاملہ میں خود حرف آخر بننا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ رویہ تحریک انصاف کے علاوہ ملک کے لئے بھی انتشار اور مشکلات کا سبب بنے گا۔
عمران خان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنی خوبیوں کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے لیکن بہتر ہو گا کہ وہ جان لیں کہ ان کی حمایت کی ایک وجہ دوسری دونوں بڑی سیاسی قوتوں سے اسٹبلشمنٹ کی ناراضگی یا مایوسی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ کوئی ٹھوس سیاسی بنیاد نہ ہونے سبب عمران خان سے ’نمٹنا‘ دوسرے جہاں دیدہ اور طاقتور سیاسی لیڈروں کی نسبت آسان ہوگا۔ اب عمران خان اگر صوبائی اختیارات کی قیمت پر مرکز کو طاقت ور کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک طرف ملک میں جمہوری احیا کا راستہ روکنے کا باعث ہوں گے تو دوسری طرف ان اقدامات کے بعد سب سے پہلے خود ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر ہو گا۔
جمہوری لیڈر کے طور پر عمران خان طاقت ور اسٹبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بن کر کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس مقصد کے لئے انہیں ملک کی دیگر سیاسی قوتوں کی حمایت اور احترام حاصل کرنا ہوگا۔
(بشکریہ:کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ