پارلیمانی راہداریوں میں یہ تاثر شدت سے پھیل رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنا پہلا بجٹ عیدالفطرسے قبل تیار کرکے اسے بہت عجلت میں قومی اسمبلی سے منظور کروانے پر تلی بیٹھی ہے۔نظر بظاہر یہ عجلت معقول نظر نہیں آرہی۔
اسد عمر کی جگہ حال ہی میں ڈاکٹر حفیظ شیخ نے وزارتِ خزانہ کا چارج لیا ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک بھی چند ہی روز قبل اپنے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ کالم لکھنے تک شبر زیدی کی بطور چیئرمین ایف بی آر تقرری کی راہ میں چند قانونی اور دفتری نوعیت کی رکاوٹیں کھڑی نظر آرہی ہیں۔زیدی صاحب کی تقرری بالآخر ہو بھی گئی تو انہیں وزیر خزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنر کے ساتھ مل کر معاشی حقائق کو بخوبی سمجھنے اور ان سے نبردآزما ہونے کی پالیسیاں تیار کرنے کو مناسب وقت ملنا چاہیے۔
ان تینوں کے ذہن میں معیشت کو بحال کرنے کے جو منصوبے ہیں ان کے مرکزی نکات وفاقی کابینہ میں زیر بحث لانا بھی ضروری ہے۔ایسا نہ ہوا تو کابینہ کے اراکین نئے بجٹ کے دفاع کے لئے دل وجان سے تیار نہیں ہوں گے۔وزراءنے اس ضمن میں مدافعانہ رویہ اختیار کیا تو غیر وزارتی بنچوں پر بیٹھے تحریک انصاف کے اراکین بھی تقریباََ لاتعلقی اختیار کرنے کو مجبور ہوجائیں گے۔ نئے بجٹ کے دفاع کا سارا بوجھ وزیر اعظم کے کاندھوں پر منتقل ہوجائے گا۔
بجٹ سیشن کے ہر اجلاس میں ان کی موجودگی لازمی ٹھہرے گی۔نواز شریف کے جیل چلے جانے کے بعد ان کے نام سے منسوب جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین وزیر اعظم کو ایوان میں بیٹھا دیکھ کر مسلسل شورشرابے سے طیش میں آنے پر مجبور کریں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی اس ہنگامے سے ابتدائی ایام میں لاتعلق رہنے کے باوجود بالآخر ”مہذب پارلیمانی انداز“ کو بھلادینے کی ضرورت محسوس کرے گی۔دریں اثناءاگر آصف علی زرداری گرفتار ہوگئے تو اس جماعت کو ہنگامہ آرائی کا الگ جواز بھی مہیا ہوجائے گا۔
پارلیمان میں شورشرابہ انہونی بات نہیں ۔دُنیا بھر کی پارلیمانوں کی ”ماں“ کہلاتی برطانوی پارلیمان میں گزشتہ کئی ہفتوں تک Brexitکے حوالے سے غیر معمولی شورشرابا برپارہا۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے لئے کوئی معقول راہ نہ ڈھونڈسکنے کی وجہ سے بلکہ برطانیہ میں بھی اب پارلیمانی نظام کی افادیت کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔
ممکنہ ہنگامہ آرائی سے قطع نظر تحریک انصاف کی جانب سے عجلت میں تیار ہوا پہلا بجٹ کئی لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردے گا کہ مذکورہ بجٹ کو وزیر اعظم کے غیر سیاسی مشیروں نے سوچ سمجھ کر تیار نہیں کیا۔اسے IMFجیسے اداروں نے اپنے تئیں تیار کرکے پاکستانی عوام پر مسلط کردیا اور عمران حکومت کواس کی پارلیمان سے من وعن منظور کروانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔یہ تاثر ”دُکھ جھلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں“ کی بدترین مثال ہوگا۔
ہمارے سیاست دانوں کی بے پناہ اکثریت ہمہ وقت پارلیمانی نظام کا ہر صورت دفاع کرنے کو آستینیں چڑھائے رہتی ہے۔ مجھ جیسے صحافی بھی اس نظام کی حمایت میں دلائل گھڑنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔اس نظام کی بنیاد مگر No Taxation without Representation کا تصور ہے۔ خلقِ خدا نے جن لوگوں کو اپنے ووٹ دے کر پارلیمان بھیجا ہے کہ ان کی ذمہ داری ہے کہ بجٹ پر ہوئی بحث کے ذریعے عوام کوآ گاہ کریں کہ اس ملک کے ٹھوس معاشی حقائق کیا ہیں۔ان کے حل کے لئے منتخب حکومت نے جو حکمت عملی اور منصوبے تیار کئے واقعتا قابل عمل ہیں یا نہیں۔نئے ٹیکسوں کی صورت میرے اور آپ پر جو اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے ہمارے عوام کی اکثریت اسے اٹھانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔
خوب سوچ سمجھ کر تیار ہوئے بجٹ پر جاندار مگر مدلل بحث ہی عوام کو اضافی بوجھ اٹھانے کے لئے کسی حدتک تیار کرسکتی ہے۔اس ضمن میں سب سے اہم کردار اپوزیشن کو ادا کرنا ہوتا ہے۔
1985ءسے پا رلیمانی رپورٹنگ کا عادی ہوا میرا ذہن انتہائی خلوص سے اسد عمر کی جانب سے پیش ہوئے دوسرے منی بجٹ پر جاندار بحث کا انتظار کرتا رہا۔سابق وزیر خزانہ نے اس ”بجٹ“ کو معیشت کو ٹیکسوں کے ضمن میں چند رعایتیں دیتے ہوئے ”ریلیف پیکیج“ کا نام دیا۔ دعویٰ یہ بھی ہوا کہ اس کی منظوری کے بعد بازار میں مندی کا رحجان ختم ہوجائے گا۔رونق بتدریج بحال ہونا شروع ہوجائے گی۔
بطور قائدِ حزب اختلاف یہ شہباز شریف صاحب کی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ پارلیمانی روایات کا اتباع کرتے ہوئے مذکورہ پیکیج پر عمومی بحث کا آغاز کرتے۔ان دنوں وہ انگلستان نہیں گئے تھے۔قومی اسمبلی سے مگر دور بیٹھے لاہورہی میں براجمان رہے۔ان کی عدم موجودگی میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کے بیک بنچوں پر بیٹھے کئی اراکین جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے نمائندوں کے ساتھ مل کر اس امر پر بضد رہے کہ ایک ٹی وی شو میں چند غیر ضروری کلمات ادا کرنے کی وجہ سے فیصل واوڈا کے خلاف ایک ”مذمتی“ قرارداد منظور کی جائے۔ بہت ہی جائزوجوہات کی بناءپر حکومت یہ قرارداد ایوان میں پیش کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔سپیکر اور ڈپٹی سپیکر تین دنوں تک پریشانی میں مبتلا رہے۔ تھوڑی دیر کو ایوان میں آکر اجلاس کو فوراََ دوسرے دن تک ملتوی کردیتے۔
بالآخر بلاول بھٹو زرداری نے بہت لگن سے ا پوزیشن اراکین کو قائل کیا کہ اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت اپوزیشن کو نظرانداز کرتے ہوئے اسد عمر کا دیا پیکیج منظور کروالے گی۔بہتر یہی ہے کہ ایوان میں واپس لوٹ کر منی بجٹ پر بحث کا آغاز ہو۔
اس ”بجٹ“ پر لیکن چند تقریریں کروانے کے بعد اسے ایک ہی نشست میں منظور کروالیا گیا۔ اس کی منظوری کے فوری بعد اسدعمر نے لوگوں کی توجہ بلاول کی انگریزی کی جانب موڑدی۔ لیاری سے منتخب ہوئے تحریک انصاف کے رکن کو ”نرکا بچہ“ بتاکر پیپلز پارٹی کو چڑاتے رہے۔ مجھے اور آپ کو ہرگز خبر نہ ہوئی کہ اسد عمر نے کن کاروباری گروہوں کو ”آسانیاں“ فراہم کرکے بازار میں رونق لگانے کی کوشش کی تھی۔ان حقائق کی نشاندہی نہ ہونے کی اصل ذمہ داری مگر میری دانست میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف کے کاندھوں پر ہے جنہوں نے اس پیکیج پر تفصیلی مباحثہ کروانے پر زور ہی نہ دیا۔
خلقِ خدا کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی اگر عجلت میں تیار کردہ تحریک انصاف کا پہلا بجٹ بھی محض شورشرابے کا شکار ہوجائے۔اپوزیشن اس کی منظوری روک نہیں سکتی۔ فی الحال عددی حقائق کی بناءپر یہ ممکن نہیں۔آئندہ سال کے مالی بجٹ کے مجھے اور آپ کو حقیقی معنوں میں اذیت دینے والے پہلو مگر اسی صورت ہمارے سامنے آسکتے ہیں اگر اپوزیشن اراکین اس بجٹ پر تفصیلی بحث پر اصرار کرے اور مناسب وقت حاصل کرنے کے بعد ہمیں اپنی تقاریر کے ذریعے اس کے بارے میں آگاہ کرے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ