ملکی سیاست پر طاری مسخرے پن نے ہمیں دُنیا کے اہم معاملات سے بیگانہ اور بے خبر بنارکھا ہے۔ حالانکہ ان معاملات میں سے چند ہماری روزمرہّ زندگی کی مشکلات میں بے پناہ اضافے کا باعث بھی ہوسکتے ہیں۔مثال کے طورپر ایران کی امریکہ سے مسلسل بڑھتی کشیدگی۔یہ کشیدگی اگر جنگ کی صورت اختیار نہ بھی کرے تو طویل بے یقینی تیل کی قیمت میں ہر صورت اضافہ کرے گی۔اپنی ضرورت کا تقریباََ تمام تیل ہم غیر ملکی منڈیوں سے خریدتے ہیں۔اس کی قیمت ڈالر میں ادا کرنا ہوتی ہے۔ فرض کیا بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمت 70ڈالر فی بیرل بھی رہے تو پاکستانی روپے کی گرتی قدر ہمارے لئے اس کی قیمت بڑھاتی چلی جائے گی۔ یہ کالم لکھنے تک ڈالر کی قیمت میں اڑھائی روپے اضافہ ہوچکا تھا۔ اسلام آباد کے باخبر حلقے دعویٰ کررہے ہیں کہ بتدریج یہ قیمت ایک ڈالر کو کم از کم 160پاکستانی روپوں کے برابر بنادے گی۔ اس کے نتیجے میں ہم یقینا 108روپے میں ایک بیرل پیٹرول خرید نہیں پائیں گے۔اس میں اضافہ یقینی ہے۔بین الاقوامی سطح پر تیل کے ایک بیرل کی قیمت موجودہ حالات میں لیکن 70ڈالر تک رکی نظر نہیں آرہی۔ یمن سے ایران کے حامی حوثیوں نے پیر کی رات سعودی عرب سے ساحل کو جانے والی تیل کی ایک پائپ لائن پر دوڈرون گرائے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات میں چند بحری جہازوں پر ’’تخریبی حملوں‘‘ کی خبرچلی۔ ان واقعات کی وجہ سے تیل کا ایک بیرل 70سے بڑھ کر 71ڈالر کا ہوگیا۔ اس اضافے کے بعد ’’بریکنگ نیوز‘‘ بدھ کی دوپہر یہ آئی ہے کہ امریکہ نے بغداد اور عراق کے کردعلاقوں کے اہم ترین شہر اردبیل میں قائم سفارتی دفاتر کو ہدایت جاری کی ہے وہ ’’غیر ضروری سٹاف‘‘ کو فوراََ امریکہ واپس بھیج دے۔عراق میں فقط ’’ضروری سٹاف‘‘ کی تعیناتی یقینا یہ پیغام دے رہی ہے کہ ’’کچھ‘‘ہونے والا ہے۔اس پیغام کے بعد تیل کی قیمت نجانے کہاں چلی جائے گی۔دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی نے جنگ کی صورت اختیار نہ بھی کی تو دونوں ممالک کے درمیان مسلسل تناؤ کی صورت حال پاکستان جیسے ممالک کو مجبور کرے گی کہ وہ کسی ایک ’’فریق‘‘ کا کسی نہ کسی صورت حمایتی ہوجائے۔ ہمارے لئے ایران کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہوجانا مختلف وجوہات کی بناء پر ممکن نہیں۔اس کی دشمنی بھی مول نہیں لے سکتے۔ بہت مہارت سے غیر جانب داری کو برقرار رکھنا ہو گا۔ عالمی میڈیا پر پھیلتی خبروں کو سطحی انداز میں دیکھا جائے تو میرے جیسے بے خبر لوگ یہ سوچنے کو مجبور ہو جاتے ہیں کہ امریکہ اور ایران کے مابین حتمی Showdownہو کر رہے گا۔ اگریہ خدشہ درست ہے تو ہمارے ہاں مہنگائی میں مزید اضافہ لازمی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات بھی معدوم تر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اقتصادی حالات سے گھبرائے میرے ذہن نے گزشتہ دو دِنوں میں عالمی میڈیا کو ذراغور سے پڑھتے ہوئے یہ طے کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ اور ایران واقعتا کسی حتمی Showdown کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ بہت سوچ بچار کے بعد بھی کچھ طے نہیں کر پایا۔ میری الجھن میں کافی کمی البتہ David Hearstکے ایک مضمون کو غور سے پڑھنے کے بعد ضرور آئی۔ ہیرسٹ نے کئی برس مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں رہ کر رپورٹنگ کی ہے۔ ان دنوں وہ اپنی چلائی ایک ویب سائٹ کے لئے مضامین لکھتا ہے۔Middle East Eyeاس سائٹ کا نام ہے۔ میں مشرقِ وسطیٰ کے حالات جاننے کے لئے اس سائٹ سے باقاعدگی سے رجوع کرتا ہوں۔ اپنے تازہ ترین مضمون میں ہیرسٹ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے خلاف جنگ کی فضا بناتے ہوئے بھی امریکی صدر دل سے ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔اس کی خواہش ہے کہ ایران اسے گھبراکر مذاکرات کی دعوت دے۔ اگر اسے یہ دعوت مل گئی تو وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاملات طے کرنے کاایک ’’نیا معاہدہ‘‘ کرنا چاہے گا۔ ایسا معاہدہ اسے 2020کا صدارتی انتخاب جیتنے میں بے تحاشہ مدد دے سکتا ہے۔ہیرسٹ کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ نے بغداد کا جو دورہ کیا اس کا مقصد عراق کو ایران کے خلاف جنگ کے لئے تیار کرنا ہرگز نہیں تھا۔ عراقی وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات میں اس نے بلکہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ ایران کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے۔ عراقی وزیراعظم نے امریکی وزیر خارجہ کو سمجھایا کہ ایران ایک ’’مغرور‘‘ ملک ہے۔وہ دنیا کو ہرگز یہ پیغام نہیں دینا چاہیے گا کہ امریکہ کے ساتھ جنگ کے امکانات سے گھبرا کر وہ مذاکرات کے لئے تیار ہوگیا۔ اوبامہ کے ساتھ اس نے جو ایٹمی معاہدہ کیا تھا اس کی تنسیخ کو قبول کرنا بھی اس کے لئے ممکن نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ا یران کو اسی معاہدے پر ’’نظرثانی‘‘ کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اس ’’نظرثانی‘‘ کی بدولت ٹرمپ کچھ ایسی نئی چیزیں بھی مذکورہ معاہدے میں شامل کرواسکتا ہے جو نظربظاہر ایران کے ایٹمی پروگرام کو مزید کمزور اور سست رو بنادیں گی۔مائیک پومپیو کو یہ تجویز پسند آئی اور بقول ڈیوڈ ہیرسٹ عراقی وزیراعظم کا ایک ایلچی اسے ایرانی قیادت کو پہنچانے ان دنوں تہران میں موجود ہے۔میرے وسوسوں بھرے دل کو ہیرسٹ کی بتائی کہانی کافی قابلِ اعتبار لگی ہے۔یہ بات ہم پاکستانی اب سمجھ چکے ہیں کہ ٹویٹر کے ذریعے تڑیاں لگاتا ٹرمپ فقط گرجتا ہے برستا نہیں۔
2018کے آغاز میں اس نے پاکستان کے خلاف افغانستان کے تناظر میں واہی تباہی بھرے ٹویٹ لکھے۔بالآخر مگر زلمے خلیل زاد کو اپنا مشیر بناکر افغانستان سے امریکی فوجوں کو نکالنے کی راہ ڈھونڈنے پر لگادیا۔ خلیل زاد کی پاکستان میں ہوئی ملاقاتوں کے بعد وہ پاکستان کے بارے میں شکرگزاری والے ٹویٹس لکھنا شروع ہوگیا۔شمالی کوریا کے ساتھ بھی اس کارویہ پل میں تولہ پل میں ماشہ والا رہا۔ وہاں کے صدر سے ہوئی ایک ملاقات سے بھی مگر کچھ حاصل نہ کرپایا۔شمالی کوریا سے مذاکرات کے دوران اس نے کافی وقت پاک-بھارت جنگ رکوانے میں بھی خرچ کیا جو پلوامہ کے بعد تقریباََ یقینی نظر آرہی تھی۔ایران کے ضمن میں ٹرمپ کی سوچ کو درست انداز میں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم یاد رکھیں کہ امریکی صدر بنیاوی طورپر دھندے کا بندا ہے۔ وہ امریکہ کے گلوبل سرمایہ کاروں کو ناراض نہیں کرسکتا۔ امریکہ اور ایران کے مابین جنگ کی صورت میں تیل کے کاروبار کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ سعودی پائپ لائن پر گرائے ڈرون اور متحدہ عرب امارات کے پانیوں میں موجود بحری جہازوں پر ’’تخریبی حملے‘‘ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ جنگ کی صورت میں ایران خلیجی ممالک کے تیل کے ذخائر کو مسلسل نشانہ بناتا رہے گا جس کے نتیجے میں اس کاروبار سے متعلق تنصیبات کو بحال کرنے کے لئے طویل وقت اور بے تحاشہ سرمایہ درکار ہوگا۔ ٹرمپ اس مقام تک پہنچنے سے ہر صورت گریز کرے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ