شوقیہ فن کاری اور پیشہ ورانہ صحافت دوقطعی مختلف چیزیں ہیں۔ ان دونوں میں فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طورپر یہ کالم میں بنیادی طورپراس لئے نہیں لکھتا کہ کسی شاعر یا ادیب کی طرح میرے ذہن میں کچھ خیالات جمع ہوئے اور میں نے ان کے اظہار کے لئے ایک کالم لکھ ڈالا۔ صبح اُٹھتے ہی مجھے ہر صورت کم از کم ایک ہزار لفظ اتوار سے جمعرات کے دن تک روزانہ لکھنا ہیں کیونکہ رزق کمانے کے لئے مجھے کوئی اور ہنر آتا ہی نہیں۔ یہ کالم لکھوں گا تو معاوضے کی صورت مجھے ہر ماہ کچھ رقم ملے گی۔ اس رقم سے میں اپنے بجلی کے بل وغیرہ ادا کروں گا۔ میری بچیوں کی تعلیم کا بندوست ہوگا۔
روزگارکا جبر صرف میری ذات سے وابستہ نہیں۔ یہ کالم میں قلم سے لکھتا ہوں۔ اسے ٹائپ کرنے کے لئے ایک معاون کی ضرورت ہے۔ اس معاون کی زندگی کا دارومدار بھی اُردو ٹائپ کے استعمال پر ہے۔ وہ ٹائپ کر لے تو مجھے اس کالم کی پروف ریڈنگ کرنا ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہمارے اخبار کے ڈیسک پر بھیجا جاتا ہے۔ وہاں اسے غور سے پڑھنا ہوتا ہے۔ ”ممنوعہ علاقوں“ سے احتیاط کے علاوہ زبان وبیان درست ہونے کو بھی یقینی بنانا ہوتا ہے۔ یہ کام کئی ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر مل کر سرانجام دیتے ہیں۔ ان سب کی مشترکہ کاوشوں کے بعد بالآخر اخبار کی کاپی تیار ہوتی ہے۔ وہ پریس جاتی ہے۔ پریس میں بھی بہت سارے لوگ صرف اپنے رزق کے لئے اشاعت سے جڑی مشقت ماہانہ تنخواہ کے لئے برداشت کرتے ہیں۔ پریس سے نکلنے کے بعد اخبارات کے بنڈل بنائے جاتے ہیں۔ ان بنڈلوں کو ہاکروں تک پہنچانے کے لئے اخبار مارکیٹ پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ٹرانسپورٹ اور ڈرائیور در کار ہیں اور بالآخر وہ ہاکر جو آپ کے گھر کی دہلیز تک اخبار پہنچاتا ہے۔ مجموعی طورپر یوں کہہ لیجئے کہ کسی ریگولر اور معروف روزنامے کے مواد کی تیاری سے اس کی طباعت اور گھروں تک ترسیل کے لئے کم از کم 300افراد کی ضرورت ہے جن کے خاندانوں کی کفالت صرف اخباری صنعت سے وابستہ ہے۔
پرنٹ اخبار پر مبنی صحافت مگر اب ٹیکنالوجی کے ہاتھوں تیزی سے ختم ہورہی ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت قارئین کوکاغذ پر چھپااخبار اپنے گھر منگوانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اخبار پڑھنے کے لئے لیپ ٹاپ یا بڑے کمپیوٹر کی بھی ضرورت نہیں۔اپنا سمارٹ فون اٹھائیں۔ نوائے وقت کی ویب سائٹ پر جائیں اور یہ کالم پڑھ لیں۔
یہ کالم سمارٹ فون کے ذریعے پڑھتے ہوئے آپ کو میرے ”گرانقدر خیالات“ کا علم ضرور ہوجائے گا مگر ابھی تک ایسا کوئی باقاعدہ نظام وضع نہیں ہوا جس کی بدولت آپ کا میرے اخبار کی ویب سائٹس پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں جانا میری صحافتی آمدنی کو نہ صرف باقاعدہ بنائے بلکہ اس میں اضافے کی گنجائش بھی پیدا کرے۔
مجھ ایسے صحافیوں اور ان کی معاونت پر مامور ٹیکنیکل افراد کی روزی کا دارومدار صرف پرنٹ شدہ اخبارکی سرکولیشن پر ہے۔ ہماری ریاست کی طرح پرنٹ اخبار کا بجٹ لیکن ہمیشہ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ جو رقم آپ اخبار کی ایک کاپی خریدنے کے لئے خرچ کرتے ہیں وہ اس کاپی کی اشاعت اور اسے آپ تک پہنچانے کے عمل پر ہوئے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اخباری صنعت اس خسارے کو اشتہاروں کی مدد سے پورا کرتی ہے۔
سرکار کی جانب سے جاری ہوئے اشتہار اس ضمن میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔وسیع تر حوالے سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ا خباری صنعت کو زندہ رکھنے کے لئے ریاست کو کسی نہ کسی صورت Subsidyفراہم کرنا ہوتی ہے۔شہریوں کی خبروں تک رسائی ہمارے آئین نے بنیادی حق بھی قرار دے رکھا ہے۔ شاید اس حق کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے یہ Subsidyضروری ہے۔ ویسی ہی Subsidyجو مثال کے طورپر میٹروبس کی سواریوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ عام صارفین کے گھروں میں بجلی کی ترسیل یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔
ہمارے ملک کے بہت ہی بااختیار اداروں میں بیٹھے چند فیصلہ ساز مگر اس Subsidyکو ان دنوں قومی وسائل کا زیاں ہی نہیں ”رشوت“ اور ”کرپشن“ بھی ٹھہرانا شروع ہوگئے ہیں۔ اس رویے کے ہوتے ہوئے ہماری اخباری صنعت جو شاید گرتے پھسلتے ابھی 20 برس مزید زندہ رہ سکتی تھی بہت جلد اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔
ذاتی طورپر میں اس کے بارے میں ٹھوس معاشی حوالوں سے بہت زیادہ پریشان نہیں۔ آج سے تقریباََ دس برس قبل نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی صحافت کی جانب منتقل ہوگیا تھا۔ میں دیانت داری سے بہت ٹھوس وجوہات کی بنا پر ہمیشہ اصرار کرتا ہوں کہ Idiot Boxصحافت کے لئے Designہی نہیں ہوا۔ یہ شوبز کا پلیٹ فارم ہے۔ اسے سنسنی درکار ہے۔ تھوڑاڈرامہ۔ بہت ساری لفاظی۔ اس کے ذریعے پہنچایا ”پیغام“ مگر دیرپا اثر نہیں رکھتا۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ اخبار کو مگر آپ توجہ سے پڑھتے ہیں۔ باقی معاملات کو ایک طرف رکھ کر۔ اس کے ذریعے کہی بات لہذابہت موثر ثابت ہوتی ہے۔
پرنٹ اخبار کی اہمیت،سنجیدگی اور اس کے ذریعے اجاگر ہوتی گہرائی اور گیرائی کو سمجھنا ہوتو یادکرلیں کہ دنیا بھر میں اہم ترین موضوعات پر بحث کرتے ہوئے اکثر آپ کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ ”واشنگٹن پوسٹ“ میں فلاں خبر چھپی ہے۔ نیویارک ٹائمز“ نے فلاں اداریے میں کیا لکھا ہے۔ شاذ ہی کبھی آپ نے سناہو کہ سنجیدہ معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے ٹی وی چینلوں پر ہوئے پروگراموں کے حوالے دئیے جائیں۔
رزق کو صرف صحافت کے ذریعے کمانا مگر میری مجبوری تھی اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹی وی صحافت کی جانب رُخ کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے لئے کام کرنا پرنٹ کے لئے کام کرنے سے مالی حوالوں سے زیادہ فائدہ مندہے۔
پرنٹ صحافت سے مگر مجھے عشق ہے اور اخباری صنعت کا تیزی سے ہوتا زوال اور اس کی معدومیت کے ٹھوس امکانات نے دل کو بہت اداس کررکھا ہے۔اپنی ذات سے کہیں زیادہ فکر مند ہوں تو ڈیسک پر بیٹھے آپ لوگوں کے لئے قطعی گمنام ساتھیوں کے مستقبل کے بارے میں۔ دل میں زیادہ پریشانی پریس میں کام کرنے والے مزدوروں،اخباروں کے بنڈل بنانے والے اور اخبار کو گھروں تک پہنچانے والے ہاکروں کے بار ے میں ہورہی ہے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں افراد اور ان کے خاندانوں کا مستقبل تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مزید دُکھ یہ بھی ہے کہ اپنے کالموں کے ذریعے دُنیا جہاں کے غموں کا تذکرہ کرتے مجھ ایسے بھاشن فروش اپنی صنعت پر نازل ہوئی مصیبتوں کے بار ے میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں لکھ پا رہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ