جب سے بانی تحریک انصاف کے خلاف اڈیالہ جیل میں مختلف سنگین الزامات کے تحت بنائے مقدمات کی سماعتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے راولپنڈی اور اسلام آباد کے معدودے چند رپورٹروں کو ان تک رسائی کی اجازت نصیب ہوتی ہے۔ ان سماعتوں کا بلاناغہ مشاہدہ کرنے والے دو رپورٹروں سے مسلسل رابطے میں رہتا ہوں۔ ان کی زبانی یہ علم ہوتا رہا کہ کرکٹ کے اساطیری کھلاڑی ہونے کی وجہ سے ”کپتان“ جیل کی زندگی سے اداس وپریشان نہیں ہوئے۔ ورزش کی عادت برقرار رکھتے ہوئے اپنی عمر کے اعتبار سے بہت تندرست وتوانادِکھتے ہیں۔اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ اڈیالہ جیل میں ہوئی پیشیوں کے دوران چہرے پر مسکراہٹ سجائے نمودار ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے خلاف پھکڑپن والے رویے کے ساتھ تبرے بازی میں مصروف رہتے ہیں۔ 8 فروری 2024ء کے انتخاب کے بعد جیل تک محدود ہوئے عمران خان بے پناہ اعتماد کے ساتھ کامیابی وکامرانی سے ہم کنار ہوجانے کے اشارے بھی دینا شروع ہو گئے۔
دریں اثنا اسلام آباد کے سازشی ڈرائنگ روموں میں یہ سرگوشیاں گردش کرنے لگیں کہ تحریک انصاف کے قائد کے ساتھ ”ان“ کے روابط شروع ہو گئے ہیں۔مبینہ طورپر بانی تحریک انصاف کو یہ سمجھایا جارہا ہے کہ ان کی جماعت تمام تر رکاوٹوں کے باوجود 8 فروری کے انتخابات کے دوران واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھری ہے۔
خیبرپختونخواہ میں اسے صوبائی حکومت بنا نے کا موقعہ بھی مل گیا ہے۔ 8 فروری کے روز اپنی قوت ثابت کردینے کے بعد عمران خان کو اب تھوڑی لچک دکھانا ہوگی۔ انتخابات کے انعقاد کے عین قریب اڈیالہ جیل میں تیزی سے چلائے مقدمات کے نتیجے میں ان کے خلاف یکے بعد دیگرے جو سزائیں سنائی گئی تھیں انہیں عوام کی کماحقہ تعداد نے پسند نہیں کیا۔ اعلیٰ عدالتیں بھی یہ سزائیں برقرار رکھنے کو آمادہ نظر نہیں آ رہیں۔
”بدلے ہوئے حالات“کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لئے خان صاحب کو اب ”بڑا پن“ دکھانا ہو گا۔ بہتر ہوگا اپنی زبان قابو میں رکھیں۔ وکلا کو محض میرٹ پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اعلیٰ عدالتوں سے اڈیالہ جیل میں سنائی سزاﺅں کے خلاف ریلیف لینے دیں۔ جب تک بانی تحریک انصاف کو عدالتوں سے حتمی ریلیف نہیں مل جاتا تب تک اس جماعت کی حمایت سے پارلیمان میں پہنچے افراد کو یکسوہوکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارروائی میں شورشرابے کے بجائے ”مثبت“ انداز میں بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ تحریک انصاف نے کشادہ دلی سے تھوڑی لچک دکھائی تو ریاست کے مقتدر کہلاتے ادارے بھی جوابی لچک دکھانے کو مجبور ہو جائیں گے۔ دونوں جانب سے دکھائی لچک کے نتیجے میں عمران خان کو ان کی اہلیہ سمیت اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل کرنے کی فضا بنائی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ماضی کو بھلاتے ہوئے وطن عزیز سیاسی استحکام کی جانب بڑھتا نظر آئے گا جو غیر ملکی سرمایہ کاری کے علاوہ عالمی معیشت کے نگہبان ا داروں کو بھی پاکستانی معیشت کوسنبھالا دینے کواکسائے گا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد دیانتداری سے یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ جن ”مصالحتی فارمولوں“ کے بارے میں لکھا ہے ان کا ذکر میں نے محض چند صحافی دوستوں سے سنا جنہیں میں دیانتداری سے متحرک وباخبر رپورٹر مانتا ہوں۔ مقتدر کہلاتے حلقوں یا عمران خان صاحب کے بااعتماد معاونین یا رشتے داروں تک رسائی مجھے میسر نہیں۔ دونوں فریقوں تک رسائی کے بغیر بھی لیکن ”مصالحتی فارمولوں“ کا ذکر سنتے ہوئے میرا جھکی ذہن انہیں تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں ہوا۔
کوئی پسند کرے یا نہیں کپتان ایک ضدی شخص ہیں۔ متلون مزاجی ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف ہے۔ 2022ء کے آغاز میں جب ان کی حکومت کے خلاف سازشوں کا ذکر ہوا تو انہوں نے نہایت اعتماد سے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے خلاف برپا سازشیں کامیاب ہوگئیں تو وہ ”مزید خطرے ناک“ ہو جائیں گے۔ وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد انہوں نے یہ وعدہ نہایت استقامت سے نبھایا۔ ایک روز کے لئے بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ شہر شہر جاکر ”سائفر کہانی“ کی بدولت خود کو ”حقیقی آزادی“ کا مجاہد ثابت کرتے رہے۔ ”حق وباطل“ کے اس معرکہ میں ”غیر جانب دار“ رہنے والوں کو انہوں نے حقارت سے ”جانور“ پکارنا بھی شروع کر دیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا کہ جنہیں ”جانور“ ہی نہیں بلکہ ”میر جعفر وصادق“ پکارا جا رہا تھا وہ ایوان صدر میں سابق وزیر اعظم سے ”مک مکا“ کی متلاشی ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ مذکورہ ملاقاتوں نے عمران خان کو اپنا بیانیہ مزید شدت سے لوگوں کے روبرو رکھنے کو اکسایا۔
بانی تحریک انصاف کی ”جرات وبہادری“ ثابت ہو گئی تو انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری کے بعد ان کے خلاف بیہودہ انداز میں مقدمات چلائے گئے۔ یکے بعد دیگرے سنائی سزاﺅں نے انہیں لوگوں کی نگاہ میں ”مظلوم“ بناکر پیش کیا۔ اس کی وجہ سے بانی تحریک انصاف کی حمایت میں ہمدردی کی ایک توانا لہر اٹھی جو 8 فروری کے انتخاب کے دوران بھرپور انداز میں ظاہر ہوئی۔ اس لہر کی بدولت ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ قلم گھسیٹ ”مصالحتی فارمولے“ سناتے دوستوں کو احمقانہ ڈھٹائی سے بتاتارہا کہ 8 فروری کے دن رونما ہوئے حقائق عمران خان کو مزید بے لچک بنائیں گے۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے ہرگز خوشی محسوس نہیں ہورہی کہ میرے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں۔ عمران خان کی شدید ضد کے ساتھ اپنائے بے لچک رویے کے اب ”جواب“ آنا شروع ہو گئے ہیں۔
جو ساتھی بلاناغہ اڈیالہ جیل میں ہوئی سماعتوں کی رپورٹنگ کیلئے جا رہے ہیں بدھ کے دن وہاں پہنچ کر بہت حیران ہوئے۔ جس کمرے میں ”عدالت“ لگائی جاتی ہے وہاں نوفٹ اونچی لکڑی کی دیوار لگادی گئی ہے۔ اس کے تین اطراف شیشے کی دیواریں ہیں۔ عدالتی کارروائی کامذکورہ بندوبست کی بدولت رپورٹر اب محض مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں۔ سماعت سے قبل یا اس کے ختم ہوجانے کے بعد وہ بانی تحریک انصاف سے غیر رسمی گپ شپ یا دعا سلام کے قابل نہیں رہے۔ ”عدالت“ کی دیواروں پر صحافیوں کو یاد دلانے کے لئے چند تحریری احکام بھی آویزاں کر دیے گئے ہیں۔ یہ احکامات متنبہ کرتے ہیں کہ جو صحافی بانی تحریک انصاف کے ساتھ خبر بنانے کی خاطر گفتگو کی کوشش کرے گا اس کا جیل میں داخلے کیلئے اجازت نامہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں لگی عدالت کے ”بدلے ماحول“ سے اکتا کر عمران خان نے بذات خود ”عدالت“ کے ایک بنچ پر کھڑے ہو کر لکڑی کی دیوار کے اس جانب بیٹھے صحافیوں کو آتشیں جذبات سے مغلوب ہوا پیغام دیا۔ مجھے خبر نہیں کہ عمران خان کو ”مصالحتی پیغامات“ بھیجے گئے تھے یا نہیں۔ بدھ کے روزمگر اڈیالہ جیل میں لگی عدالت میں جو کچھ ہوا مجھے یہ سوچنے کو مجبور کر رہا ہے کہ بانی تحریک انصاف کو ریاست کے طاقتور حلقے اب ”جیل“ کی حقیقت سمجھانے کو تلے بیٹھے ہیں۔
(بشکریہ :نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ