وزیر اعظم عمران خان چین کے چار روزہ دورہ پر آج بیجنگ پہنچ رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر چین سے مزید قرض حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جبکہ چینی حکومت امریکہ کی طرف سے جمعہ کو شروع ہونے والی سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے سفارتی بائیکاٹ کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کرنا چاہے گی۔ پاکستانی وزیر اعظم کو خاص طور سے موسم سرما کے اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔
عمران خان دو سال بعد چین کے دورے پر گئے ہیں۔ جبکہ اس دوران چینی صدر ژی جن پنگ کا دورہ پاکستان بھی ممکن نہیں ہوسکا۔ یہ صورت حال دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سرد مہری کی علامت ہے جو سی پیک منصوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ چین البتہ خاموش ڈپلومیسی پر یقین رکھتا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری کا براہ راست بیان بازی سے اظہار سامنے نہیں آیا تاہم سی پیک منصوبوں میں حائل مشکلات کی وجہ سے بیجنگ اور اسلام آباد دونوں کو پریشانی لاحق ہے۔ چین کے لئے سی پیک ون روڈ ون بیلٹ کا اہم جزو ہے جو گوادر اور سنکیانگ کے درمیان مواصلت کو یقینی بنائے گا۔ پاکستان کے لئے سی پیک معاہدہ کے تحت آنے والی سرمایہ کاری ملک کی معاشی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور روزگار کی فراہمی کے لئے اہم ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے مشکلات کا شکار رہی ہے۔ اگرچہ کورونا وبا کی وجہ سے بھی معاشی تعطل میں اضافہ ہؤا ہے لیکن چین کے ساتھ سی پیک کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلافات بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کا بنیادی سبب بنے ہیں۔ عمران خان حالیہ دورہ کے دوران چینی حکومت کو پاکستانی حکومت کے تعاون اور جذبہ خیر سگالی سے آگاہ کریں گے ۔ تاہم یہ دیکھنا ہوگا کہ چین نے پاکستانی وزیر اعظم کو جس مقصد کے لئے بیجنگ کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے، وہ اسے حاصل کرنے کے بعد کس حد تک پاکستان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لئے پیش قدمی پر راضی ہوتا ہے۔تحریک انصاف کی حکومت نے انرجی سیکٹر میں چینی کمپنیوں کی شرح منافع پر اعتراض کیا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سابقہ حکومت نے بہت زیادہ شرح منافع پر اتفاق کیاتھا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان ان معاہدوں میں تبدیلی کا خواہاں تھا لیکن چین نے اس میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ بیجنگ حکومت کا اصرار رہا ہے کہ پاکستانی حکومت کے معاہدے چین کی پرائیویٹ کمپنیوں اور بنکوں کے ساتھ ہیں۔ اسے ان معاہدوں کا احترام کرنا چاہئے۔ اسلام آباد کو توقع تھی کی صدر ژی جن پنگ پاکستان کا دورہ کریں گے تو خیر سگالی کے سفارتی ماحول میں ان معاملات پر کوئی مفاہمت ہوجائے گی۔ تاہم یہ دورہ ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ چینی حکومت طے شدہ معاہدوں میں کسی تبدیلی پر راضی نہیں ہے۔ اسی دباؤ میں حکومت پاکستان کو انرجی سیکٹر کے مختلف منصوبوں میں چینی کمپنیوں کو ادائیگیاں کرنے پر راضی ہونا پڑا ہے۔ پاکستان کو اس مد میں 230 ارب روپے ادا کرنے ہیں جن میں سے 50 ارب روپے عمران خان کے دورہ چین سے پہلے ادا کئے جاچکے ہیں جبکہ مزید 50ارب آئیندہ چند ہفتوں میں ادا کئے جائیں گے۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ انرجی سیکٹر میں نجی کمپنیوں کے ساتھ منافع کی شرح پر معاملات طے کرلئے گئے ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہے کہ چینی حکومت اس پیش رفت سے کس حد تک مطمئن ہے۔
دو طرفہ تعلقات میں ان مشکلات کے باوجود دونوں ملکوں کو معاشی، سفارتی اور اسٹریٹیجک طور سے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے ایک طرف افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کے ساتھ شدید سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے تو دوسری طرف وہ چین کے خلاف سفارتی محاذ آرائی میں شدت پیدا کررہا ہے۔ چین میں سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور آسٹریلیا نے بھی جمعہ کو بیجنگ میں شروع ہونے والے ونٹر اولمپکس کی افتتاحی تقریبات کا بائیکاٹ کیا ہے۔ اس بائیکاٹ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان ممالک کے کھلاڑی بدستور مقابلوں مٰیں حصہ لیں گے لیکن یہ ممالک مختلف تقریبات میں سفارتی نمائیندگی نہیں کریں گے۔ اس بائیکاٹ کے لئے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کی حالت زار ، ہانگ کانگ میں جمہوری تحریک کے خلاف چین کا سخت گیر رویہ اور ملک میں انسانی حقوق کی عمومی صورت حال کو عذر کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن یہی ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور مسلمانوں کے خلاف عمومی تعصب کی بڑھتی ہوئی فضا پر زیادہ پریشانی ظاہر نہیں کرتے اور نہ ہی اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے حقوق پامال کرنے پر انہیں انسانی حقوق یاد آتے ہیں۔ اس لئے بیجنگ اولمپکس کے بائیکاٹ کو وسیع تر تجارتی اور اسٹریٹیجک مفادات کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔چین نے سفارتی دباؤ کی امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے ہی افتتاحی تقریب میں دوست ممالک کی اعلیٰ قیادت کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوتن کے علاوہ تیس ممالک کے سربراہ یا سربراہان حکومت اس تقریب میں شرکت کریں گے۔ پاکستانی وزیر اعظم کو بھی عالمی سطح پر امریکہ کے ساتھ سفارتی پنجہ آزمائی کے تناظر میں ہی بیجنگ آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ عمران خان نے اس ’احسان‘ کا بدلہ کسی حد تک اس دورہ سے پہلے چینی میڈیا سے گفتگو میں دینے کی کوشش کی تھی ۔ اس انٹرویو میں انہوں نے مغربی ممالک پر دوہرے معیار کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی زبانیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف بات کرتے ہوئے گنگ ہوجاتی ہیں لیکن انہیں ایغور مسلمانوں کی بہت فکر ہے حالانکہ وہ معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم نے چین کے سرکاری مؤقف کی تائد کرتے ہوئے پاکستانی سفیر کی شہادت بھی پیش کی تھی اور بتایا تھا کہ پاکستانی سفیر کو سنکیانگ کے دورہ کے دوران ایغور مسلمانوں کے خلاف کسی ظلم و جبر کے شواہد نہیں ملے۔ واضح رہے امریکہ اور مغربی ممالک چین کو ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب قرار دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ سنکیانگ کے حراستی مراکز میں ایک سے دو ملین مسلمانوں کو قید کیا گیا ہے جنہیں جسمانی تشدد اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چین ان مراکز کو تربیت گاہیں قرار دیتا ہے جہاں مسلمانوں کو انتہاپسندی کے خلاف تیار کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کو چین سے اولمپک تقریبات میں شرکت کی دعوت ایک ایسے موقع پر آئی تھی جب اسے عالمی سطح پر شدید سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے برسر اقتدار آنے کے بعد عمران خان کو فون تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض لینے کے لئے پاکستان کو ساڑھے پانچ سو اراب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کے علاہ انتہائی متنازعہ سٹیٹ بنک بل منظور کروانا پڑا ہے۔ افغانستان کی دگرگوں حالت کی وجہ سے اسے افغان پناہ گزینوں کی آمد کی صورت میں شدید معاشی دباؤ کا اندیشہ ہے۔ ملکی معاشی پیداواری صلاحیت حکومتی دعوؤں کے باوجود اس قابل نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور روزگار کی ضرورتوں کو بھی پورا کرے اور بیرونی قرض کی اقساط بھی ادا کرسکے۔ اس دوران چین اور سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست ممالک کے ساتھ بھی سفاتی الجھنوں اور فاصلوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سی پیک جیسے اہم اقتصادی و اسٹریٹیجک منصوبے کا شراکت دار ہونے کے باوجود نہ کوئی چینی لیڈر گزشتہ دو سال کے دوران پاکستان آیا اور نہ ہی پاکستانی وزیر اعظم کو چین کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔اب اولمپکس کی تقریبات کے بہانے ہی سہی عمران خان کو چین جانے اور چینی قیادت سے معاملات طے کرنے کا ایک موقع ضرور مل رہا ہے۔ پاکستانی لیڈر چین سے پرانے قرضوں کی ادائیگی میں سہولت کی درخواست کریں گے ۔ اس کے علاوہ فوری طور سے زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے کے لئے 3 ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ممکن ہے کہ دورہ کے دوران اس بارے میں کسی باقاعدہ معاہدہ کا اعلان بھی ہوجائے۔ پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اس دورہ کو بے حد اہم اور پاک چین دوستی میں قابل قدر پیش رفت قرار دیا ہے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ’ یہ دورہ چینی قیادت کی خصوصی دعوت پر کیا جارہا ہے‘۔ کابینہ کے ارکان اور سرکاری افسروں کا ایک وفد بھی وزیر اعظم کے ہمرکاب ہوگا۔ اس دورہ میں دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیا جائے گا اور تجارتی و معاشی تعاون بڑھانے کے لئے بات چیت ہوگی۔ بیان کے مطابق خاص طور سی پیک کے حوالے سے معاملات زیر غور آئیں گے اور دونوں ملکوں کے لیڈر علاقائی اور عالمی پس منظر میں صورت حال کا جائزہ لیں گے۔ بیان کے مطابق یہ دورہ ’دونوں ملکوں کی آہنی دوستی کو نئی بلندیوں کی طرف گامزن کرنے کا سبب بنے گا‘۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی بیجنگ روانگی سے ایک روز پہلے ایک اعلیٰ سطحی بریفنگ کے دوران امید ظاہر کی ہے کہ اس دورہ سے دونوں ملک قریب آئیں گے اور ان کی دوستی مزید پختہ ہو گی۔ تاہم اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقاتوں میں عمران خان کی کارکردگی قابل ستائش نہیں رہی۔ وہ اپنے ہم منصب سے مواصلت میں اطمینان سے بات سننے اور صورت حال کو بھانپنے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرپاتے بلکہ اپنے جذباتی انداز میں گفتگو کو سطحی انداز سے آگے بڑھاتے ہیں۔ چینی صدر ژی جن پنگ اور وزیر اعظم لی کیکیانگ کے ساتھ ملاقات میں انہیں اسی مشکل کا سامنا ہوگا۔ وہ چینی نظام کی خوبیاں تو گنوا لیں گے لیکن دونوں ملکوں کے تعلقات میں پاکستان کی سفارتی پوزیشن اور سی پیک میں حائل دشواریوں کے حوالے سے کوئی مناسب حل ان کے پاس نہیں ہوگا۔ قیاس یہی ہے کہ زیادہ معاملات وزارتی اور سرکاری اہلکاروں کی سطح پر بات چیت میں ہی طے ہوں گے۔ ایسی صورت میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان نہیں ہوتا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )