ملتان شہر میں اگر کوئی چیز رفتار سے بڑھ رہی ہے تو وہ آبادی نہیں بلکہ پلیٹرز کی تعداد ہے۔ ہر گلی، ہر چوک، ہر موڑ پر ایک نیا “فوڈ پلیٹر پوائنٹ” کھل چکا ہے جہاں سے اٹھنے والی خوشبو ایسی ہوتی ہے کہ آدمی چاہے شوگر، بلڈ پریشر یا دل کا مریض ہو، پھر بھی دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر رک ہی جاتا ہے۔ اب شہر میں لوگ “کھانا کھانے” نہیں بلکہ “پلیٹر فتح کرنے” نکلتے ہیں۔ کچھ شہری تو ایسے ماہر ہو گئے ہیں کہ ناشتہ منی پلیٹر سے شروع کرتے ہیں، دوپہر میں اسپیشل پلیٹر پر حملہ کرتے ہیں، اور رات کو کنگ سائز پلیٹر کے ساتھ دن کا اختتام کرتے ہیں۔
پلیٹر کا کمال یہ ہے کہ ایک ہی تھال میں بریانی، پیزا، برگر، تکہ، فرائز، چکن ونگز، نگٹس اور کولڈ ڈرنک سب ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ وہ کھانا کھا رہا ہے، مگر دراصل وہ اپنے معدے پر تجربہ کر رہا ہوتا ہے۔ اگر معدہ انسان کا محکمہ ہوتا تو وہ روز دفتر میں “عارضی معطلی” کی درخواست دیتا کہ حضور! آج مزید مرچ، تیل اور ساس برداشت نہیں ہو پائے گی۔
پہلے لوگ کہتے تھے “مختلف قوموں کا کھانا چکھنا علم بڑھاتا ہے”، لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ شہری ایک ہی وقت میں دس قوموں کے کھانے کھا کر علم نہیں بلکہ چربی بڑھا رہے ہیں۔ پلیٹر ختم نہیں ہوتا، بلکہ کھانے والا ختم ہو جاتا ہے۔
دل کے مریضوں کے لیے اب رپورٹ کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر صرف پوچھتا ہے: “پچھلے ہفتے آپ نے سپائسی پلیٹر تو نہیں کھایا؟” اگر مریض شرماتے ہوئے ہاں کہہ دے تو ڈاکٹر فوراً پرہیز کی فہرست نہیں بلکہ دعائے مغفرت پڑھنے کا مشورہ دیتا ہے۔ بلڈ پریشر والے پلیٹر کو دیکھ کر ہی پریشر میں آ جاتے ہیں۔ نمک اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اگر پلیٹر سے نکال لیا جائے تو پورے محلے میں برف پگھلانے کے کام آ سکتا ہے۔ شوگر والے حضرات کے لیے تو پلیٹر ایک “میٹھی خودکشی” ہے، جس کے آخر میں جب کولڈ ڈرنک انڈیلی جاتی ہے تو گویا جسم کی انسولین احتجاجاً استعفیٰ دے دیتی ہے۔
پلیٹر کے مصالحے دراصل وہ “خفیہ ہتھیار” ہیں جو باورچیوں نے دشمن کے معدے کو نیست و نابود کرنے کے لیے ایجاد کیے ہیں۔ ان مصالحوں کے نام کچھ بھی ہوں، اثر ایک ہی ہوتا ہے: معدے کا جنازہ۔ محکمہ صحت اور فوڈ اتھارٹی اس صورتحال پر بالکل خاموش ہیں، شاید اس لیے کہ ان کے اپنے دفاتر میں بھی چائے کے ساتھ “منی پلیٹر” ہی سرو ہوتا ہے۔ جب محافظ خود شکار بن جائیں تو قانون صرف ہنڈیا میں رہ جاتا ہے۔
اگر فوڈ اتھارٹی کبھی واقعی حرکت میں آ جائے تو آدھے شہر کے پلیٹر پوائنٹ بند ہو جائیں اور باقی آدھے ہسپتال کے کیفے ٹیریا میں کھل جائیں۔ مگر افسوس، یہاں تو انسپکٹر خود پلیٹر کھاتے ہوئے ویڈیو بنواتے ہیں اور کہتے ہیں “مزہ آ گیا، معیار لاجواب ہے”، حالانکہ وہ معیار نہیں بلکہ مریض بننے کے راستے کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں۔
پلیٹر کے بعد انسان کے اندر جو تبدیلی آتی ہے، وہ کسی سیاسی تبدیلی سے کم نہیں۔ سب سے پہلے معدہ بغاوت کرتا ہے۔ تین مختلف تیل، چار مختلف ساسیں، اور پانچ مختلف گوشت ایک ہی وقت میں جا کر معدے میں ایسی جنگ چھیڑ دیتے ہیں کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ پلیٹر تھا یا حملہ۔ اس کے بعد جگر اپنی ڈیوٹی چھوڑ دیتا ہے، کیونکہ تلی ہوئی چیزوں کی اتنی بھرمار کے بعد وہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر گردے کہتے ہیں: “بس بہت ہو گیا، اب ہم پانی صرف وضو کے لیے فراہم کریں گے، کولڈ ڈرنک کے لیے نہیں۔”
پلیٹر صرف جسم کو نہیں بلکہ دماغ کو بھی متاثر کرتا ہے۔ کھانے کے بعد جب بندہ چلنے کی کوشش کرتا ہے تو دماغ کہتا ہے “اٹھ جا”، اور پیٹ جواب دیتا ہے “ایک ہچکی اور آنے دے”۔ کچھ لوگ پلیٹر کے بعد ایسی نیند سوتے ہیں کہ الارم نہیں بلکہ چکن کے سالن کی خوشبو ہی جگاتی ہے۔
اسی تباہی میں سب سے بڑا کردار فوڈ وی لاگرز کا ہے۔ وہ جب کھانے کے فضائل بیان کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی شاعر اپنے محبوب کا تذکرہ کر رہا ہو۔ ان کی ویڈیوز دیکھ کر لگتا ہے کہ بس ابھی موبائل میں سے ہاتھ ڈال کر پلیٹر نکال لیں یا خود موبائل میں گھس جائیں۔ ان کے جملے سنیں تو معدہ خود ہی تالی بجانے لگتا ہے: “یہی کھانا چاہیے مجھے!” مگر جب حقیقت میں وہی کھانا آپ کے سامنے آتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ویڈیو کا ذائقہ کیمرہ مین کے کیمرے میں تھا، پلیٹر میں نہیں۔
فوڈ وی لاگرز کھانے کو اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا بھول جاتا ہے کہ یہ چکن ہے یا چکنا تیل کا ذخیرہ۔ وہ ہر لقمے کے بعد “آہ، واہ، مزہ آ گیا” کہہ کر ایسی فضا بناتے ہیں کہ لگتا ہے بندہ کسی نعمتِ جنت کے قریب ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ صرف دل کے دورے کے قریب ہوتا ہے۔
عوام کا حال یہ ہے کہ اگر پلیٹر کے بعد طبیعت خراب ہو جائے تو کہتے ہیں “یار کھانا تو زبردست تھا، بس شاید کولڈ ڈرنک زیادہ ہو گئی تھی۔” یعنی قصور ہمیشہ کولڈ ڈرنک کا، تعریف ہمیشہ پلیٹر کی۔ کچھ لوگ تو اب پلیٹر کے بغیر شادی، سالگرہ اور یہاں تک کہ مجلس بھی مکمل نہیں سمجھتے۔ جیسے نکاح کے بعد مولوی صاحب کہیں: “اب پلیٹر پیش کیا جائے تاکہ نکاح مکمل ہو۔”
اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو جلد ہی محکمہ صحت کو “نیشنل پلیٹر کنٹرول پروگرام” شروع کرنا پڑے گا، اسکولوں میں “پلیٹر سے بچاؤ” کے لیکچر ہوں گے اور ہسپتالوں میں “پلیٹر ری ہیب سینٹر” بنیں گے جہاں لوگ علاج نہیں بلکہ پلیٹر کی یادوں سے چھٹکارا پانے آئیں گے۔
ایک شہری نے کیا خوب کہا: “پہلے ہم کھانے کے شوقین تھے، اب کھانا ہمیں کھانے لگا ہے۔”
اور واقعی، اب وقت آ گیا ہے کہ ملتان کے شہری پلیٹر کے پیچھے نہیں، اپنی صحت کے پیچھے بھاگیں۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پلیٹر میں صرف کھانا نہیں، ایک پورا ہسپتال چھپا ہوا ہے۔
فیس بک کمینٹ

