نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس کا دھاوا بظاہر کسی مزاحیہ ایکشن ڈرامہ کا ایکٹ دکھائی دیتا ہے جو اصل کہانی کے کرداروں کو چھپانے کے لیے رچایا گیا ہو۔ پولیس پوری طاقت سے کلب پر حملہ کرکے صحافیوں پر تشدد کرتی ہے، وزیر داخلہ فوری تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہیں، وزیر اطلاعات پریس کلب کو اپنا گھر قرار دے کر اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔
یہ معلوم ہی نہیں ہو پارہا کہ مظلوم کون ہے اور زیادتی کا مرتکب کون ہؤا ہے۔ وقوعہ کے بعد وزیروں کے بیانات اور سخت الفاظ میں تردید و مذمتی بیانات سے تو یہ لگتا ہے کہ اسلام آباد پولیس نے صحافیوں کی بجائے حکومت کے کسی ادارے پر ہی حملہ کردیا ہے۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے طلال چوہدری نے واقعہ کی مذمت کی ، شفاف تحقیقات کا یقین دلایا اور وعدہ کیا کہ وہ صحافیوں کوشانت کرنے کے لیے ہمہ وقت ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ اسلام آباد ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے صحافی شدید ناراض ہیں۔ اجلاس منعقد ہورہے ہیں، مذمتی قراردادوں اور رد عمل کی تیاریوں پر بات چیت ہورہی ہے اور سوشل میڈیا پر اپنے اپنے انداز میں مذمتی بیانات کی بھرمار ہے۔
اسلام آباد میں ملکی صحافیوں کے اہم ترین کلب پر حملے کو حکومت کی عمومی میڈیا پالیسی، اختلاف رائے اور احتجاج کرنے والے لوگوں، گروہوں یا پارٹیوں سے نمٹنے کی حکمت عملی اور کسی بھی قیمت پر خوف و ہراس کی فضا جاری رکھنے کے طریقے سے ہٹ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔ فی الوقت یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ کس حد تک ایسے عناصر کو کلب میں ’پناہ‘ دینے میں ملوث تھی جو پولیس کو مطلوب تھے اور جن کے خلاف بظاہر امن و امان کو نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات عائد ہیں۔ البتہ یہ تو واضح ہے کہ حکومتی وزیر خواہ کتنے ہی بلند بانگ دعوے کریں، اور پریس کلب پر حملے کو اپنے گھر پر حملہ اور دل پر وار سے ہی کیوں تعبیر نہ کریں، اسلام آباد پولیس اعلیٰ سیاسی قیادت کی واضح ہدایت کے بغیر نیشنل پریس کلب میں داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس دھاوے کی کسی اعلیٰ سطح سے کلیرنس دی گئی تھی اور اس کا مقصد بھی بہت واضح تھا کہ صحافی خود کو مقدس گائے سمجھنا بند کردیں اور انہی حدود کے اندر رہ کر کام کرتے رہیں جو حکومت نے مقرر کی ہیں۔
سیاسی قیادت ہی نہیں اسلام آباد پولیس کے افسروں کو بھی بخوبی علم ہوگا کہ شہر کے پریس کلب پر پولیس حملے کے بعد شدید احتجاج ہو گا، بیان بازی ہوگی اور سنگین نتائج کی دھمکیاں سننے کو ملیں گی۔ تاہم کسی اعلیٰ حکومتی سطح پر محسوس کیا گیا ہوگا کہ ایسےپولیس ایکشن سے جو پیغام عام ہو گا، اس کے بعد حالات پر قابو پانا آسان ہوجائے گا۔ اور اس سے ’پیغام رسانی ‘میں سہولت ہوگی۔ صحافیوں ہی کو نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر عناصر کو بھی کان ہوجائیں گے کہ جو حکومت پریس کلب اور صحافیوں کو معاف نہیں کرتی اور ضرورت پڑنے پر انہیں مارنے پیٹنے اور دھمکانے سے نہیں چوکتی ، وہ کسی دوسرئے احتجاج یا اجتماع کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔ کوئی اسے مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد پولیس کارروائی کے ذریعے حکومت یہ ’پیغام‘ بخوبی پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کہ کیا اس پولیس ایکشن کے بعد مطلوبہ نتائج حاصل ہوپائیں گے یا ملک میں بے چینی اور سول نافرمانی کا سلسلہ مزید شدید ہوجائے گا۔
جہاں تک صحافیوں اور میڈیا پر حملے اوران کے ساتھ طاقت کی زبان میں بات کرنے کا معاملہ ہے تو اس کی صاف اور سخت ترین الفاظ میں مذمت ہونی چاہئے۔ صحافی تنظیموں کے علاوہ ہیومن رائیٹس کمیشن نے بھی ایک بیان میں اس واقعہ کی مذمت کی اور شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ تاہم اس معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ملک میں ہونے والی کوئی بھی تحقیقات ’اصل ذمہ داروں‘ کا تعین نہیں کرسکتی۔ کسی بھی تحقیقات کے بعد کسی سب انسپکٹر یا پولیس پارٹی میں شامل نچلے درجے کے اہلکار کو مورد الزام ٹھہرا کر ’معطل یا تبدیل‘ کرنے کا اعلان کردیا جائے گا۔ اس طرح حکومت بھی سرخرو ہوجائے گی اور خود کو بادشاہ گر سمجھنے والے صحافی نما لیڈروں کی انا بھی مطمئن ہوجائے گی لیکن پرنالہ وہیں رہے گا ۔نہ حکومتی استبداد میں کمی ہوگی اور نہ ہی آزاد ی رائے یا احتجاج کوقبول کیا جائے گا۔ اس کا مشاہدہ ملکی میڈیا میں نیشنل پریس کلب پر ہونے والے پولیس حملہ کی کوریج سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ بعض انگریزی اخبارات نے ضرور یہ خبر نمایاں طور سے شائع کی ہے لیکن اردو میڈیا ایسے ‘معمولی سانحات‘ کو نظر اندز کرکے اچھے بچوں کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
نیشنل پریس کلب میں پولیس کارروائی کا تعلق بھی آزاد کشمیر میں ہونے والی ہمہ گیر ہڑتال سے ہے جسے ختم کرانے کے لیے اب وزیر اعظم شہباز شریف نے کئی وزیروں پر مشتمل ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد مظرآباد بھیجا ہے اور لوگوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔ آزاد کشمیر میں احتجاج منظم کرنے والی جموں و کشمیر جوائینٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے کے جے اے اے سی) نے اپنی آواز ملک بھر میں پہنچانے کے لیے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج منظم کیا تھا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد بعض لوگ بھاگ کر کلب کے اندر چلے گئے۔ پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لیے ماردھاڑ کرتے ہوئے کلب کی عمارت میں گھس گئی اور اس دوران جو بھی سامنے آیا ، اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
آزاد کشمیر میں ہونے والے احتجاج میں بھی یہی کیفیت مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ وہاں بھی پولیس یا مظاہرین یکساں طور سے تشدد پرآمادہ ہیں۔ پہلے مظاہرین کے ہاتھوں کچھ پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے اور اب مظاہرین مظفرآباد کے لال چوک میں پولیس تشدد میں جان دینے والوں کی لاشیں لیے بیٹھے ہیں اور تمام مطالبات پورے ہونے تک انہیں دفن نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں فیصلہ سازوں نے سوچا ہوگا کہ اگر اسلام آباد میں ہونے والے احتجاجیوں کو مناسب سبق سکھا دیا گیا تو اس کا ’مثبت‘ اثر مظفر آباد میں بھی محسوس کیا جائے گا۔ شاید اسی لیے پولیس اہلکاروں کو صحافیوں کے کیمرے توڑتے ، تصویریں بنانے والے فوٹو گرافروں کو نشانہ بناتے اور نیشنل پریس کلب کے کیفے ٹیریا میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے کوئی مشکل پیش نہیں آئی ، ورنہ پولیس ایسے معاملات میں اپنی ’ریڈ لائنز‘ کو خوب پہچانتی ہے اور انہیں عبور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
حکومت معاشی میدان اور عالمی سفارت کاری میں شاندار کامیابیاں حاصل کرنے کے دعوے کررہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ایسے ’شاندار کارنامے ‘ انجام دینے والی حکومت کے خلاف احتجاج یا اس کے خلاف آواز اٹھانا بجائے خود ’ملک سے غداری‘ کے مترادف ہے۔ شاید اسی لیے صحافی تنظیموں کی طرف سے حکومتی طرز عمل پر شدید شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ نیشنل پریس کلب پر حملہ کے بعد پی ایف یو جے، کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ایڈیٹرز نے نیشنل پریس کلب میں پولیس ایکشن کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کارروائی میں ملوث افراد کو فوری سزا دی جائے۔ بیان میں اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران کچھ ایسے اشتہارات شائع کیے گئے ہیں جن کا عنوان ہے کہ ’کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ حالت جنگ کیا ہوتی ہے‘؟ بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ اشتہارات حکومت کے ایما پر شائع ہوئے ہیں۔ ان کا لب و لہجہ دھمکی آمیز ہے اور ان میں رپورٹروں، فری لانسرز اور میڈیا کی سوشل میڈیا تنظیموں کو ریاست دشمن کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔ ان اشتہاروں کا مقصد صحافیوں کی کردار کشی، انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش اور آزادی رائے کو کچلنا ہے۔
البتہ اس بیان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ اشتہارات کس ادارے یا تنظیم کی طرف سے کن مطبوعات میں شائع ہوئے ہیں۔ اور کیا ان تنظیموں کے رکن ایڈیٹروں میں سے کسی نے اپنے اخبار یا جریدے میں ایسے اشتہار شائع کرنے سے انکار کیا تھا۔ دوسری طرف ملک کا وزیر اطلاعات نیشنل پریس کلب کو اپنا گھر بتا رہا ہے اور پی ایف یو جے کا صدر اس واقعہ کی مذمت کے لیے وزیر مملکت کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ملک میں میڈیا کی آزادی کا اصل دشمن کون ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

