گزشتہ روز لندن میں انتہائی دائیں بازو کے ایک گروہ کی اپیل پر ’قومی اتحاد‘ کے سلوگن کے تحت ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے مظاہرہ کیا۔ یہ تعداد پولیس کے اندازوں سے کہیں زیادہ تھی۔ ماہرین کے مطابق برطانیہ کی تاریخ میں نسل پرست اور انتہا پسند عناصر اس سے پہلے اتنا بڑا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
مظاہرین قومی اتحاد اور پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس مظاہرہ کو محض نسل پرستی قرار دے کر مسترد کرنا آسان راستہ ہو گا۔ اس طرح تارکین وطن کی آمد اور برطانوی معاشرے میں رونما ہونے والی ثقافتی و سماجی تبدیلیوں کی گہرائی اور سنگینی کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس مظاہرے کا اہتمام نسل پرست اور انتہاپسند گروہ ’انگلش ڈیفنس لیگ‘ کے سربراہ ٹامی روبنسن نے کیا تھا جو اسلام اور غیر ملکیوں سے نفرت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ لیکن مظاہرے میں شریک لوگوں کی کثیر تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے بے شمار لوگ بھی اس مظاہرے میں شامل تھے جو بنیادی طور پر نہ تو انتہا پسند ہیں اور ہی نسل پرست لیکن برطانیہ میں غیر ملکیوں کے اثرات اور پناہ گزینوں کی آمد سے پیدا ہونے والے معاشی، سماجی اور ثقافتی مسائل سے پریشانی کا شکار ہیں۔
تاہم احتجاج کا اہتمام چونکہ ایک نسل پرست گروہ نے کیا تھا، اس لیے برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف سرگرم عناصر کو اس پر شدید تشویش ہے۔ اسی لیے نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم نے بھی انتہاپسندوں کو جواب دینے کے لیے متبادل مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ البتہ اس مظاہرے میں صرف پانچ ہزار کے لگ بھگ لوگ شریک ہوئے۔ ان دو متضاد مظاہروں میں شریک لوگوں کے درمیان تصادم روکنے کے لیے پولیس کی بھاری تعداد متعین کی گئی تھی۔ اگرچہ دونوں گروہ تو آمنے سامنے نہیں آئے لیکن انتہاپسندوں کے مظاہرے میں شامل بعض عناصر نے پولیس پر حملے کیے اور اسے للکارا۔ ان حملوں میں 26 پولیس افسر زخمی ہوئے جن میں بعض شدید زخمی ہیں۔ پولیس نے تشدد پر آمادہ دو درجن کے لگ بھگ مظاہرین کو گرفتار کیا۔ انتہاپسندوں اور نسل پرست مخالف گروہ کے درمیان براہ راست تصادم کی خبر موصول نہیں ہوئی۔ اگرچہ اکا دکا حملوں اور تشدد کی شکایات کی گئی ہیں۔
برطانیہ میں نسل پرستی یا تارکین وطن کے خلاف سیاسی رائے کا اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب ان عناصر کی بڑھتی ہوئی قوت اور ان کے لب و لہجہ میں پائی جانے والی شدت برطانوی معاشرے کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس خطرے کا سب سے پہلا نشانہ اس ملک میں دہائیوں سے آباد غیر ملکی بنیں گے۔ یہ لوگ برصغیر کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک سے برطانیہ آ کر آباد ہوئے ہیں اور بیشتر صورتوں میں انہیں یہاں رہتے اور زندگی گزارتے کئی کئی نسلیں گزر چکی ہیں۔ یہ لوگ رنگ و نسل، زبان و ثقافت، عقیدہ و روایت میں مختلف ہونے کے باوجود اب برطانیہ کا حصہ ہیں۔ ان کے بچے ایک طرف اپنے والدین کی نسل کی ثقافتی روایات کو پروان چڑھاتے ہیں تو دوسری طرف وہ درحقیقت برطانیہ ہی کا حصہ ہیں اور ان ملکوں کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے جہاں سے ان کے آبا و اجداد نے ہجرت کر کے برطانیہ کو مسکن بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
’انگلش ڈیفنس لیگ‘ کے زیر انتظام ہونے والا مظاہرہ اگرچہ مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف تھا۔ اس میں براہ راست ملک میں آباد اور برطانوی شہریت رکھنے والے تارکین وطن کا حوالہ موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اگر نسل پرستی، اسلام دشمنی اور بیرونی تہذیب و ثقافت کے خلاف رجحان تقویت پکڑتا ہے تو نفرت کے اس طوفان میں کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس وقت برطانوی شہریوں کو مالی مشکلات، بیروزگاری اور سماجی بہبود کی سہولتوں میں کمی کی وجہ درپیش مسائل نے تشویش و پریشانی میں مبتلا کیا ہے۔ اس صورت میں جب یہ خبریں سامنے آتی ہیں کہ حکومت پناہ گزینوں کو ہوٹلوں میں مقیم رکھتی ہے یا ان کی آباد کاری پر کثیر وسائل صرف ہوتے ہیں تو عام لوگوں کے غم و غصہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے برطانوی معاشرہ بالکل نیا ہوتا ہے۔ وہ ناقابل قبول سماجی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور بعض اوقات جنسی ہراسانی و استحصال کے غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ ایسے واقعات اکا دکا ہونے کے باوجود نفرت و تعصب کی فضا کو گہرا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
اس حوالے سے تین پہلوؤں پر غور کرنا اہم ہو گا۔ سب سے بنیادی مسئلہ تو برطانیہ کے معاشی مسائل ہیں جن کی وجہ سے حکومت عام لوگوں کی سہولتیں کم کرنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے عام گھرانوں کے لیے زندگی بسر کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ طبی سہولتوں میں کمی ہوئی ہے۔ مہنگائی کے علاوہ بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے سفید فام آبادی سب سے پہلے غیر سفید فام لوگوں کو اس کا ذمہ دار سمجھنے لگتی ہے۔ اور بعض نسل پرست گروہ ایسے جذبات کو ہوا دے کر خود اپنی مقبولیت کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔
اس مسئلہ کا دوسرا پہلو زیادہ پیچیدہ اور گنجلک ہے اور اس میں ملک کے اندر دہائیوں سے آباد ایسے غیر ملکی گروہوں کا طرز عمل بھی قابل غور ہے جو برطانیہ میں رہنے کے باوجود وہاں کی زبان و ثقافت سیکھنے اور خود کو نئے ماحول کے مطابق ڈھالنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ اس حوالے سے برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک میں انٹیگریشن کے سوال پر بحث ہوتی رہی ہے۔ تاہم دیکھا جاسکتا ہے کہ تارکین وطن کی تنظیمیں اور گروہ اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر اسے زیادہ وسائل فراہم کرنے پر آمادہ کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی صفوں میں نئے معاشرے میں آباد ہونے سے پیدا ہونے والے معاملات پر غور کرنے کا رجحان موجود نہیں ہوتا۔ بیشتر صورتوں میں یہی سمجھا جاتا ہے گویا نئے معاشرے کو یہاں آ جانے والے لوگوں کی ضرورتیں اور تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔
تارکین وطن یہ باور کرنے میں قدرے سست روی کا شکار رہے ہیں کہ کسی نئے معاشرے میں آباد ہونے والے گروہوں پر بھی نئے معاشرے کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان میں سب سے پہلے زبان سیکھنا، قانون کی پابندی کرنا، باہمی احترام کو فروغ دینا اور اختلاف کرنے اور اسے قبول کرنے کی تہذیب سیکھنا اہم ہے۔ اگر سیاسی لیڈر ان پہلوؤں کو نظر انداز کرتے رہے ہیں تو تارکین وطن بھی ان معاملات پر غور و فکر کرنے اور نئی معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کمی کا فائدہ مشکل معاشی وقت میں انتہاپسند گروہوں کو پہنچتا ہے۔
اس حوالے سے حال ہی میں برطانیہ اور یورپ بھر میں آباد مسلمانوں کی طرف سے عید میلادا لنبی کی تقریبات کا انعقاد اور ان مواقع پر نئے سماجی حالات کے مطابق گفتگو کی کمی خاص طور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ بیشتر یورپی ممالک میں آباد مسلمان گروہ گزشتہ دو ہفتے سے ان تقریبات کے انعقاد میں مصروف ہیں۔ اس موقع پر پاکستان اور دیگر ممالک سے دینی علما کو برطانیہ یا دیگر ممالک میں بلایا جاتا ہے جو روایتی انداز میں گفتگو کر کے چلے جاتے ہیں۔ ان باتوں میں نئے معاشرے کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور اس کی تعمیر میں حصہ لینے کے حوالے سے فرائض کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ حتی کہ اب متعدد یورپی ممالک میں عاشورہ کی طرح عید میلاد النبی کے جلوس بھی نکالے جاتے ہیں۔ ان جلوسوں میں شریک ہونے والے بیشتر لوگوں کے لباس بھی مقامی معاشرتی اقدار سے مختلف ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ دراصل گرد و پیش سے بے خبر ایک خاص طرزعمل ہی کو کامیابی کا راستہ سمجھ رہے ہیں۔ اس طریقہ سے سماجی حساسیات پر غور کرنے اور اجتماعی رویوں میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ جو مجموعی سماجی و سیاسی معاملات میں مشکلات پیدا کرنے اور مسائل میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔
اس حوالے سے تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ نسل پرستی اور تارکین وطن کے بارے میں تعصبات یا پریشانی صرف برطانیہ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اب ہر یورپی ملک میں وسیع ہو رہا ہے۔ تقریباً تمام یورپی ملکوں میں تارکین وطن مخالف سیاسی جماعتوں کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ عمومی اندازے کے مطابق بیشتر یورپی ممالک میں تارکین وطن مخالف جماعتوں کو بیس سے تیس فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے۔ کسی فعال جمہوریت میں یہ بہت بڑی تعداد ہے جس کا حکومتی فیصلوں پر اثر مرتب ہونا لازمی ہے۔ ناروے کے حالیہ انتخابات میں تارکین وطن کے خلاف سیاسی نعروں کو سلوگن بنانے والی فریم اسکرتس پارٹی کو چوبیس فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملے ہیں اور وہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی بن گئی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں تارکین وطن مخالف ’ریفارم یوکے پارٹی‘ جائزوں کے مطابق آج انتخابات منعقد ہونے کی صورت میں سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن سکتی ہے۔
لندن میں انگلش ڈیفنس لیگ کے احتجاج میں مقامی و دیگر یورپی ممالک کے لیڈروں کے علاوہ امریکہ کے ارب پتی ایلن مسک نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے تارکین وطن کی وجہ سے برطانیہ کو تباہی کی طرف بڑھنے والا ملک قرار دیا اور وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کی حکومت کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی طرح دیگر یورپی نسل پرست لیڈروں نے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کو یورپی تہذیب و ثقافت کے لیے خطرہ قرار دیا۔
مظاہرے میں ان عناصر کی شرکت اور نسل پرستانہ خیالات کی تشہیر سے دیکھا جاسکتا ہے کہ اس احتجاج کے منتظمین نسل پرستی کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ برطانیہ اور یورپی ممالک میں آباد تارکین وطن نے اس خطرے کو بھانپ کر اپنی روش تبدیل نہ کی تو آئندہ چند برسوں میں سماجی تصادم کی سنگین صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )

