Close Menu
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
Facebook X (Twitter)
ہفتہ, اکتوبر 18, 2025
  • پالیسی
  • رابطہ
Facebook X (Twitter) YouTube
GirdopeshGirdopesh
تازہ خبریں:
  • کیا ٹرمپ یوکرین جنگ بند کرا سکیں گے؟۔۔سید مجاہد علی کاتجزیہ
  • Who assassinated Liaquat Ali Khan ? لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کے بیٹے کی خود نوشت میں سنسی خیز انکشافات : ڈاکٹر عباس برمانی کا تجزیہ
  • حیات محمد شیرپاؤ کے قتل سے مرتضی بھٹو تک : کابل کا راستہ کیسے بند ہوا ؟ : حامد میر کا کالم
  • اسلام آباد میں وارداتیں کرنے والی خواتین کا گروہ : نصرت جاوید کا کالم
  • عارضی جنگ بندی اور عمران خان کی پیشکش : سید مجاہد علی کا تجزیہ
  • انڈیا، افغان حکومت، طالبان اور پی ٹی آئی : ارشد بٹ ایڈووکیٹ کا تجزیہ
  • خوشامد نہیں آرٹ ۔۔بس کر رلائے گا کیا : محمد حنیف کا کالم
  • یہ وہ ملالہ نہیں جس پر ہمیں فخر تھا : یاسر پیرزادہ کا کالم
  • افغان طالبان کا سپن بولدک میں چار مقامات پر حملہ، 15 حملہ آور ہلاک کر دیئے : آئی ایس پی آر
  • میرے کتاب لکھنے کے ارادوں میں کیا رکاوٹ ہے ؟ ۔۔ نصرت جاوید کا تجزیہ
  • مرکزی صفحہ
  • اہم خبریں
    • عالمی خبریں
    • تجزیے
  • English Section
  • ادب
    • لکھاری
    • مزاح
    • افسانے
    • شاعری
    • کتب نما
  • کالم
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • علاقائی رنگ
    • پنجاب
      • لاہور
      • اوکاڑہ
      • خانیوال
      • پاکپتن
      • چکوال
      • جہلم
      • اٹک
      • گوجرانوالا
      • سیالکوٹ
      • گجرات
      • قصور
      • فیصل آباد
      • راولپنڈی
      • نارووال
    • سرائیکی وسیب
      • ملتان
      • ڈی جی خان
      • رحیم یار خان
      • لیہ
      • میانوالی
      • جھنگ
      • بہاول پور
      • راجن پور
      • مظفر گڑھ
      • وہاڑی
      • بہاول نگر
    • سندھ
      • کراچی
    • بلوچستان
      • کوئٹہ
      • ہرنائی
    • خیبر پختونخوا
      • شانگلہ
    • گلگت بلتستان
    • کشمیر
  • کھیل
    • پاکستان سپر لیگ
    • کرکٹ ورلڈ کپ2019
  • تجارت
  • جہان نسواں
  • وڈیوز
    • لایئوٹی وی چینلز
GirdopeshGirdopesh
You are at:Home»تجزیے»کیا ٹرمپ یوکرین جنگ بند کرا سکیں گے؟۔۔سید مجاہد علی کاتجزیہ
تجزیے

کیا ٹرمپ یوکرین جنگ بند کرا سکیں گے؟۔۔سید مجاہد علی کاتجزیہ

رضی الدین رضیاکتوبر 18, 202516 Views
Facebook Twitter WhatsApp Email
trump and putin
Share
Facebook Twitter WhatsApp Email

امریکی صدر ٹرمپ اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان دو گھنٹے طویل ٹیلی فون گفتگو کے بعد دونوں صدور نے مستقبل قریب میں ملنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ملاقات ہنگری میں ہوگی۔ واشنگٹن اور ماسکو نے یکساں طور سے اس بات چیت کو مثبت پیش رفت کہا ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کو یوکرین کے صدر ذیلنسکی کے ساتھ ملاقات میں یہ معلومات فراہم کریں گے۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کرانے کے بعد صدر ٹرمپ نے اب اپنی توجہ یوکرین جنگ کی طرف مبذول کی ہے جو اس وقت اپنے چوتھے سال میں بھی جاری ہے ۔ فروری میں اس جنگ کو 4 سال پورے ہوجائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگست کے دوران صدر پوتن کے ساتھ الاسکا میں ملاقات کرچکے ہیں اس موقع پر بھی یہی امیدیں لگائی گئی تھیں ۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی طرف سے پوتن کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے باوجود امریکی سرزمین پر روس کے صدر کا شاہانہ استقبال کیا گیا تھا اور انہیں مکمل ریاستی پروٹوکول دیا گیا تھا۔ البتہ گزشتہ ایک سال کے دوران صدر پوتن کے ساتھ ٹیلی فون پر متعدد طویل بات چیت کے ادوار اور نرم گوشہ دکھانے کے باوجود ٹرمپ ابھی تک روسی صدر کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اب بھی بظاہر کوئی ایسے حالات نہیں ہیں کہ روس کسی ایسے معاہدے پر متفق ہوجائے جس کے تحت یوکرین کی خود مختاری کو قبول کیا جائے اور وہ اس کے مقبوضہ علاقے خالی کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
روس اس وقت یوکرین کے انیس فیصد علاقے پر قابض ہے اور کسی بھی جنگ بندی کے لیے اس نے دو شرائط کو اہم قرار دیا ہے۔ ایک روس مقبوضہ علاقے خالی نہیں کرے گا بلکہ ان علاقوں پر روس کا تسلط درست مان لیا جائے گا۔ یوکرین اس شرط کو منظور کرنے پر راضی نہیں ہے۔ روس کی دوسری شرط یہ ہے کہ جنگ بندی کی صورت میں یوکرین نہ تو نیٹو کا رکن بنے گا اور نہ ہی یورپی ممالک اسے روس کے خلاف مسلح کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ دونوں شرائط یوکرین کے علاوہ یورپ کے بیشتر ممالک کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ مقبوضہ علاقوں کے حوالے سے البتہ یہ مؤقف ضرور بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے جنگ بند ہوجائے پھر دونوں ممالک مل کر ان علاقوں کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ روس نے ابھی تک یہ رعایت دینے پر بھی آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔
جہاں تک یوکرین کی نیٹو میں رکنیت کا تعلق ہے، تو وہ صدر ٹرمپ کی موجودگی میں تو ممکن نہیں ہے۔ نیٹو کے قواعد کے مطابق کسی نئے ملک کو رکن بنانے کے لیے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ لیکن صدر پہلے ہی مرحلے میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں بن سکتا۔ اس واضح اور دوٹوک امریکی پوزیشن کے بعد یورپی ممالک بھی یوکرین کو نیٹو کا کا رکن بنانے کی جد و جہد نہیں کریں گے۔ البتہ اگر روس جنگ بندی کے کسی معاہدے پر راضی ہوتا ہے تو وہ یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہے گا کہ یوکرین کے لیے نیٹو کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند رہیں اور ٹرمپ کے بعد آنے والا کوئی صدر یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر راضی نہ ہوجائے۔ جبکہ دوسری طرف یوکرین اور اس کے یورپی دوست ممالک کی خواہش ہوگی کہ روس یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کوئی رعایت دینے پر آمادہ ہوجائے۔ اور مستقبل میں یوکرین کی جغرافیائی حدود کا احترام یوینی بنایا جائے۔ان دو نکات پر باہمی طور سے پوزیشن نرم کرنے کی صورت میں کوئی نہ کوئی معاہدہ تو ممکن ہے لیکن روس، یوکرین کے علاقوں کے بارے میں سخت گیر مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے۔
یوکرین کے لیے اپنے مقبوضہ علاقوں کی واپسی قومی خود مختاری کے تحفظ کے لیے ضروری ہے جبکہ بیشتر یورپی ممالک ان علاقوں سے روسی فوجوں کی واپسی کو اپنی قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ مغربی یورپی ممالک میں یہ احساس موجود ہے کہ اگر ایک بار ہمسایہ ملکوں کے بارے میں روس کی توسیع پسندی کو مان لیا گیا تو مستقبل میں ایسا ہی رویہ دہرانے کے لیے روایت قائم ہو جائے گی۔ یہ خطرہ محسوس کیا جاتا ہے کہ روس اس مثال کی صورت میں اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے لیے مسلسل خطرہ بنا رہے گا۔ البتہ یہ دلیل استعمال کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کردیاجاتا ہے کہ یوکرین کے علاوہ روس کےدیگر تمام ہمسایہ یورپی ممالک یکے بعد دیگرے نیٹو کے رکن بن چکے ہیں۔ ان میں سے سویڈن اور فن لینڈ کو تو یوکرین پر حملہ کے بعد نیٹو میں شامل کیا گیا ہے۔ روس کبھی کسی نیٹو ملک پر حملہ کرکے نیٹو کے ساتھ وسیع اور تباہ کن جنگ شروع نہیں کرنا چاہے گا۔
گو کہ فوری جنگ بندی کے لیے کسی ایسی سفارتی زبان کا سہارا لیا جاسکتا ہے جس سے دونوں فریق مطمئن ہوں لیکن دونوں اس کی وضاحت مختلف انداز میں کریں۔ اس کی مثال غزہ میں جنگ بندی کے لیے ٹرمپ کے بیس نکاتی منصوبہ میں بھی موجود ہے۔ اس میں فلسطینیوں کے لیے ریاست کا حوالہ موجود ہے لیکن اسرائیل کو اسے تسلیم کرنے یا اس مقصد کے لیے کام کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ البتہ عرب ممالک کی سفارتی اشک شوئی کرتے ہوئے یہ نکتہ اس معاہدہ میں شامل کرلیا گیا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین جنگ بند کرانے کے لیے بھی ایسی ہی کوئی شعبدہ بازی دکھانے میں کامیاب ہوسکیں گے؟
صدر بننے کے بعد سے ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے حوالے سے تن تنہا پیش رفت کرنے کی متعدد کوششیں کی ہیں۔ شروع میں تو انہوں نے یوکرین یا یورپی ممالک کو فریق ماننے سے ہی گریز کیا اور سعودی عرب کے تعاون سے براہ راست روس سے امن مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ البتہ یورپی ممالک نے براہ راست ٹرمپ سے تصادم کا خطرہ مول لیے بغیر انہیں یہ ماننے پر مجبور کیا کہ یوکرین یورپ کا حصہ ہے اور اس کی خود مختاری کی حفاظت کا براہ راست تعلق یورپ کی سلامتی سے ہے۔ اس لیے یوکرین میں جنگ بند کرنے کا کوئی ایسا منصوبہ نہیں ٹھونسا جاسکتا جو یوکرین اور اس کے حامی یورپی ممالک کو یکساں طور سے منظور نہ ہو۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا ٹرمپ یوکرین کے معاملے میں بھی غزہ میں جنگ بند کرانے جیسا کوئی فارمولا پیش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہیں اہم یورپی ممالک کو بہر حال ہم خیال بنانا ہوگا۔
غزہ امن منصوبہ کا اعلان کرنے سے پہلے بھی صدر ٹرمپ نے چیدہ چیدہ عرب ممالک کے علاوہ پاکستان اور انڈونیشیا کو اس منصوبہ کا شراکت دار بنایا تھا۔ پھر حماس پر بھرپور دباؤ ڈال کر اسے منصوبہ کو ہوبہو مان لینے پر مجبور کیا گیا ۔ اگرچہ اب بھی یہ غیر واضح ہے کہ غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنے کا کام کیسے مکمل کیا جائے گا۔ البتہ سوموار کے روز شرم الشیخ میں غزہ امن کانفرنس کے موقع پر جس امن دستاویز پر دستخط ہوئے ہیں اس پر امریکہ کے علاوہ قطر، مصر اور ترکی کے سربراہوں نے دستخط کیے ہیں۔ گویا ان تین ممالک نے ضمانت دی ہے کہ حماس معاہدے کے مطابق غیرمسلح ہونے کے عمل پر متفق ہوگی اور غزہ کا انتظام ایک عبوری اتھارٹی کے حوالے کیا جائے گا۔ سعودی عرب، پاکستان اور متعدد دیگر ممالک نے بھی ا س منصوبے سے اتفاق کیا ہے۔ گویا یہ سب اس اصول سے متفق ہیں کہ حماس کو غیر مسلح ہونا چاہئے تاکہ غزہ میں امن قائم ہوسکے۔ اگرچہ اسرائیل اسے اپنی مکمل کامیابی قرار دے رہا ہے جبکہ عرب و مسلمان ممالک اپنے عوام کو یہ بتا رہے ہیں کہ اس طریقے سے ایک تو غزہ میں دو سال سے جاری جنگ بند کرادی گئی ہے اور دوسرے مستقبل میں فلسطینی ریاست کے قیام کا اصول منوایا گیا ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین کی حمایت کرنے والے یورپی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی سر فہرست ہیں، بھی ایسے ہی کسی غیر واضح اور مبہم وعدے کی بنیاد پر یوکرین کو جنگ بندی پر مجبور کریں گے یا ٹرمپ پر دباؤ ڈال سکیں گے کہ وہ روس سے قابل عمل اور حقیقی رعایات حاصل کریں۔ اور کیا صدر ٹرمپ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ وہ کمزور عرب و مسلم ممالک کی طرح ایک طرف یورپی ممالک کو اتفاق رائے پر آمادہ کریں تو دوسری طرف روس سے کوئی رعایت حاصل کریں۔ کیوں کہ غزہ معاہدہ کے لیے ٹرمپ کو بہر حال اسرائیل اور اس کے وزیر اعظم نیتن یاہو پر دباؤ ڈال کر یہ منصوبہ منظور کرانا پڑا تھا۔ اسی لیے نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس سے فون کرکے قطر کے وزیر اعظم سے معافی مانگی تھی۔ روس ، اسرائیل کی طرح امریکہ کی شرائط ماننے پر مجبور نہیں ہے۔ اس نے امریکی مخالفت اور جنگ میں فریق بننے کے باوجود ساڑھے تین سال سے یہ جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
یوکرین امن معاہدہ درحقیقت صدر ٹرمپ کی سفارت کاری اور ڈیل میکنگ کا اصل امتحان ہوگا۔ آئیندہ چند دنوں یا ہفتوں میں واضح ہوسکے گا کہ وہ کس حد تک فریقین کو جنگ بندی کی شرائط پر آمادہ کرسکتے ہیں ۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )

فیس بک کمینٹ

  • 0
    Facebook

  • 0
    Twitter

  • 0
    Facebook-messenger

  • 0
    Whatsapp

  • 0
    Email

  • 0
    Reddit

پیوٹن ڈونلڈ ٹرمپ سید مجاہد علی
Share. Facebook Twitter WhatsApp Email
Previous ArticleWho assassinated Liaquat Ali Khan ? لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کے بیٹے کی خود نوشت میں سنسی خیز انکشافات : ڈاکٹر عباس برمانی کا تجزیہ
رضی الدین رضی
  • Website

Related Posts

عارضی جنگ بندی اور عمران خان کی پیشکش : سید مجاہد علی کا تجزیہ

اکتوبر 16, 2025

خوشامد نہیں آرٹ ۔۔بس کر رلائے گا کیا : محمد حنیف کا کالم

اکتوبر 16, 2025

مولانا فضل الرحمان، طالبان کی وکالت اور کشمیر پر ثالثٰی کی پیشکش : سید مجاہد علی کا تجزیہ

اکتوبر 15, 2025

Comments are closed.

حالیہ پوسٹس
  • کیا ٹرمپ یوکرین جنگ بند کرا سکیں گے؟۔۔سید مجاہد علی کاتجزیہ اکتوبر 18, 2025
  • Who assassinated Liaquat Ali Khan ? لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کے بیٹے کی خود نوشت میں سنسی خیز انکشافات : ڈاکٹر عباس برمانی کا تجزیہ اکتوبر 17, 2025
  • حیات محمد شیرپاؤ کے قتل سے مرتضی بھٹو تک : کابل کا راستہ کیسے بند ہوا ؟ : حامد میر کا کالم اکتوبر 17, 2025
  • اسلام آباد میں وارداتیں کرنے والی خواتین کا گروہ : نصرت جاوید کا کالم اکتوبر 16, 2025
  • عارضی جنگ بندی اور عمران خان کی پیشکش : سید مجاہد علی کا تجزیہ اکتوبر 16, 2025
زمرے
  • جہان نسواں / فنون لطیفہ
  • اختصاریئے
  • ادب
  • کالم
  • کتب نما
  • کھیل
  • علاقائی رنگ
  • اہم خبریں
  • مزاح
  • صنعت / تجارت / زراعت

kutab books english urdu girdopesh.com



kutab books english urdu girdopesh.com
کم قیمت میں انگریزی اور اردو کتب خریدنے کے لیے کلک کریں
Girdopesh
Facebook X (Twitter) YouTube
© 2025 جملہ حقوق بحق گردوپیش محفوظ ہیں

Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.