پاکستان جیسا ملک پوری دنیا میں کہیں نہیں جہاں ایک ہی وقت میں پچاس درجہ حرارت اور برفباری کے موسم موجود ہیں۔ جب ملتان اور سبی میں لوگ گرمی سے جھلس رہے ہوتے ہیں عین اسی وقت دیو سائی ،فیری میڈو اور سیاچن میں منفی درجہ حرارت ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں خزاں اور بہار ایک ہی وقت میں دو مختلف علاقوں میں اپنے جوہر دکھاتی ہے۔ خشک سالی اور سیلاب بھی یکساں میسر ہوتے ہیں۔ سونے کی کانوں سے لیکر تیل اور گیس کے ذخیروں جیسے قدرتی وسائل بھی ہمیں دستیاب ہیں مگر پھر بھی ہم غربت کی آخر ی حد کو چھو رہے ہیں ۔ کبھی بے علاج مارے جارہے ہیں اور کبھی پانی کی کمی ہماری موت کی وجہ بن رہی ہے۔ ہم سیلاب میں ڈوبتے ہیں یا پھر پانی کی قلت نے ہماری زرخیز زمینیں بنجر کرڈالی ہیں ۔ ہمار ا بہترین نہری نظام کرپٹ محکموں کی لوٹ مار کی نذر ہوگیا۔ ایک ہی وقت میں مذہبی ، لبرل اور انتہا پسند لوگ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔ قدرتی آفات بھی نہ ہونے کے برابر ہمارے حصے میں آتی ہیں اور یہ قدرت کا خاص کرم ہے جو ہمیں ودیت کردیا گیا ہے ۔ ان سارے وسائل اور نعمتوں کے باوجود صرف ایک چیز ہمیں آگے نہیں بڑھنے دیتی اور وہ ہے ”کھلا تضاد“۔ یقین نہ آئے تو آپ ماضی کے حالات کی تحقیق کرلیں اور اب موجودہ حالات کا مشاہدہ ، آپ کو ہر محکمے میں کھلا تضاد نظر آئے گا ۔ شائد پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ان تضادات کے باوجود دنیا کے نقشے پر قائم بھی ہے اور دائم بھی رہے گا۔ آپ وزیر ثقافت کی پروفائل نکال کر دیکھ لیں وہ خود مغربی لباس پہنتے ہونگے اور ان کے گھروں میں امپورٹڈ اشیاءاستعمال ہوتی ہونگی ۔ آپ کو وزیر تعلیم کے بچے بیرون ملک زیر تعلیم نظر آئیں گے ۔ وزیر صحت ڈسپرین تک باہر سے منگوا کر کھاتے ہونگے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ملنے والی ادویات دو نمبر ہوتی ہیں۔ وزیر قانون اپنی مرضی کے اٹارنی اور لاءافسران لگانے کے لئے قانون توڑنے سے گریز نہیں کرتے ۔وزیر پانی و بجلی کے اپنے گھروں میں جنریٹر اور یوپی ایس پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔وزیر ریلوے کی اپنی ٹرانسپورٹ سروس ہوتی ہے یا پھر وہ ہوائی سفر کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ماہرین تعلیم میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تقسیم کرنے والے چانسلر ایف اے پاس ہوتے ہیں۔ وزیر مواصلات کے اپنے گاﺅں کی سڑکیں کچی ہیں اور وزیر داخلہ خود جلسہ عام میں گولی کھابیٹھے تھے ۔ وزیر ٹیکنالوجی سرے سے جدت کے مخالف اور کمال کے قدامت پسند رہ چکے ہیں ۔ وزیر خزانہ کا خزانے سے صرف اتنا تعلق ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے لوٹنا ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر لوگ 2018میں بھی ملکی دفاع کےلئے ”دم “ پر یقین ر کھتے ہیں ۔ وزیر دفاع اپنی صحت کا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں ۔ وزارتِ مذہبی امور کے منصب سنبھالنے والے حاجیوں کے پیسے تک کھاگئے تھے اور پھر سپریم کورٹ کے حکم پر رقوم واپس کی گئیں اور جیل میں توبہ کرنے کا موقع دیا گیا ۔ آپ جانتے ہیں کہ وزیر سیاحت کی سیرو تفریح ہی فرانس اور مصر میں ہوتی تھی۔ کیا پاکستان میں وزیر اطلاعات کا کام صرف جھوٹ بولنا نہیں ہوتا ؟ حکومت کی ہر خامی کو خوبی میں بدل کر عوام کو گمراہ کرنے کے لئے غلط اعداد و شمار پیش کرنا بھلا کہاں کا اخلاص ہے۔ ان تضادات کے باوجود ملک پاکستان قائم و دائم بھی ہے اور دشمنوں کی سازشوں میں تابندہ بھی ۔ کھلے تضاد صرف وزارتوں تک ہی نہیں محکموں میں بھی موجود ہیں ۔ کسی بھی شہر کے محکمہ واساکا سربراہ واٹر سپلائی کا پانی پی سکتا ہے ؟ جواب یقیناً نہیں ہوگا۔ ہسپتالوں کے ایم ایس اپنا یا اپنی فیملی کا علاج پرائیویٹ ہسپتالوں سے کیوں کرواتے ہیں ؟ صرف اس لئے کہ ان کو اپنے محکمے کی کارکردگی پر اعتبار ہی نہیں ہوتا ۔ قومی بینک کے سربراہ کے ذاتی اکاﺅنٹ پرائیویٹ بینکوں میں ہوتے ہیں ۔محکمہ پولیس کیا واقعی عوام کا محافظ ہے ؟؟ محکمہ انٹی کرپشن کیا کرپشن میں اضافے کا سبب نہیں؟نیب کی کارکردگی بارے تو خود ملک کی اعلیٰ عدلیہ اپنے خیالات عالیہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے یکطرفہ تفتیشی محکمہ قرار دے چکی ہے۔ کھلے تضادات کی ایک طویل فہرست ہے جسے بیان کرنے کےلئے ایک کالم کا وجود بہت کم ہے ۔ اکثر محکمے ٹھیکیداری پر چل رہے ہیں جن کی لیز کی شرائط ہی کمیشن اوپر تک پہنچانا ہے۔ ان تضادات کے ہوتے ہوئے بھی ملکی سلامتی کی دعائیں مانگنے اور یوم دفاع کو بھرپور طریقے سے منانے والی قوم کو سلام پیش کرتے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ