سرائیکی وسیبظہور احمد دھریجہکالملکھاری
انسان دوست اقبال ارشد کی ملتان دوستی ۔۔ ظہور دھریجہ

نامور اردو شاعر سئیں اقبال ارشد گزشتہ روز (4ستمبر 2018ءبروز منگل )بقضائے الٰہی وفات پا گئے، اُن کی وفات سے پورا وسیب خصوصاً اہل ملتان بہت سوگوار ہیں، بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت اچھے انسان بھی تھے، اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے بہت محبت کرتے تھے اُن کی یادوں کے حوالے سے اپنی گزارشات پیش کرنے سے پہلے اُن کے خاندانی پس منظر کے حوالے سے پروفیسر انور جمال لکھتے ہیں کہ محترم اقبال ارشد 22اکتوبر 1940ءکو انبالہ (بھارت ) کے ہاشمی محلے میں پیدا ہوئے۔ ہاشمی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ابتدائی تعلیم و تربیت گھر سے ہی حاصل کی، گھر کا ماحول ادبی تھا اس لئے پانچویں جماعت سے ہی بچوں کے لئے نظمیں لکھنا شروع کر دیں، تقسیم ہند کے بعد پہلے مظفر گڑھ اور پھر ملتان میں قیام پذیر ہوئے، سٹی سنٹرل سکول سے پانچویں اور میٹرک پائلٹ سکول سے پاس کیا، گورنمنٹ اسلامیہ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، کالج میں تعلیم کے دوران ایک رسالہ ”الوکیل“ نکالا، ملتان کے ادیبوں میں سے حسین سحر مرحوم کے ساتھ ان کی مثالی دوستی رہی، انہوں نے حسین سحر کے ساتھ مل کر بچوں کا رسالہ ”ننھی دنیا“ بھی نکالا، اردو ادب میں ماسٹر کیا، عملی زندگی کا آغاز محکمہ بہبود آبادی میں ملازمت سے کیا لیکن ضیاءالحق دور میں انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا، اس کے بعد واپڈا کے محکمے میں پی آر او کی خدمات سر انجام دیں، اقبال ارشد نے انٹرمیڈیٹ کے دوران ہی ثریا نقوی سے پسند کی شادی کر لی جن سے ان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، اکلوتے بیٹے کا ایام جوانی میں ہی انتقال ہو گیا، ان کے 11 شعری مجموعے منظر عام پر آئے، انہوں نے ملتان کے تمام بڑے اخبارات میں کالم لکھے، لاہور کے ہفت روزہ ”اقدار“ میں ملتان کی ڈائری لکھی، افسانے بھی لکھے لیکن نثر نگار کی بجائے بطور شاعر ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔
اقبال ارشد بنیادی طور پر انبالا سے آئے تھے، اُن کا تعلق پنجابی سے تھا لیکن وہ اردو بولتے تھے اور میرے ساتھ وہ تھوڑی دیر کیلئے سرائیکی میں بھی بات کرتے، میں نے دیکھا کہ اُن میں بناوٹ اور تصنع نہیں ہے وہ جو بھی بات کرتے ہیں دل سے کرتے ہیں، ملتان آرٹس کونسل میں پروگرام تھا اُن دنوں ہم نے سرائیکی اجرک نئی نئی متعارف کرائی تھی، اقبال ارشد جو کہ بہت ہی صابر و شاکر انسان تھے، دوسرے صدمات کے ساتھ ساتھ آخری عمر میں اُن کی نظر کا بھی مسئلہ ہو گیا، میں نے دیکھا کہ وہ کسی نوجوان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر میری طرف آرہے ہیں، میں نے بڑھ کر اُن کے پاﺅں چھوئے اور اُن سے مصافحہ کیا، اقبال ارشد نے کہا کہ دھریجہ صاحب قسم باخدا میں آپ کو صرف مبارکباد دینے آیا ہوں، آپ نے سرائیکی اجرک متعارف کرا کے بہت بڑا کام کر دیا ہے، اب یہ اجرک اس خطے کی پہچان بن چکی ہے اور تاریخی طور پر آپ نے ہمارے ایک ہمسایہ صوبے کے دعوے کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ ملتان سے آگے ساہیوال اور اوکاڑہ تک یہ تمام علاقے تاریخی طور پر سندھ کا حصہ ہیں، اس کی وہ مثال سندھی اجرک دیتے تھے، جبکہ آپ نے ہمارے ملتان کی گمشدہ میراث کو ایک بار پھر سامنے لا کر اس وسیب کو ثقافتی طور پر نئی زندگی دے دی ہے اور میں آپ کو مبارکباد دینے آیا ہوں۔
ایک مرتبہ ملتان آرٹس کونسل کی ادبی بیٹھک کے اختتام پر محترم اقبال ارشد صاحب سے میں نے ہاتھ ملایااور اپنا نام بتایا کہ وہ نظر کی وجہ سے فوری پہچان نہیں سکتے تھے تو انہوں نے مجھے گلے لگایا اور کافی دیر مجھے گرمجوشی سے ملے اس موقع پر انہوں نے خود ہی بات چھیڑ دی کہ ایک اردو اخبار میں جو بحث چل رہی ہے اور بعض اوقات اُس میں آپ کے خلاف اخلاق باختہ باتیں بھی لکھی جاتی ہیں تو میں پوری بحث کو دیکھ رہا ہوں اور میں آپ کو واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس بحث میں آپ کے دلائل سچائی پر مبنی ہیں اور بہت ہی طاقتور ہیں اور آپ کے خلاف کیچڑ اچھالنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اُن کی بات میں وزن ہے، انہوں نے کہا کہ جتنے بھی لوگ یہاں آئے ہیں اُن کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ اب ہمارا مرنا جینا اسی دھرتی کے ساتھ ہے اب ہماری آنیوالی نسلوں کا مستقبل بھی اس سے وابستہ ہے، اب تو قبریں بھی سانجھی ہو گئیں تو اب کاہے کی ایک دوسرے سے دوری ، سرائیکی اس دھرتی کی زبان ہے، بہت میٹھی زبان ہے، یہ تصوف اور معرفت کا خطہ ہے، محبت کرنے والوں کی سرزمین ہے اب جو جھگڑا ہے اُن قوتوں کے ساتھ ہونا چاہئے جنہوں نے اس علاقے کے حقوق دبا رکھے ہیں، یہ جو لوگ باتیں کر رہے ہیں یہ خود نہیں کر رہے، یہ باتیں کرائی جا رہی ہیں اور لکھوائی جا رہی ہیں لیکن ہماری محبتیں اور ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، میں نے شکریہ ادا کیا اور آج میں اُن کی باتوں پر غور کرتا ہوں تو وہ مجھے بہت بڑے صاحب بصیرت انسان نظر آتے ہیں، آج میں اپنے اس وسیب کے اُن سیاستدانوں جن کی بڑی بڑی آنکھیں اور بڑی بڑی جاگیریں ، کوٹھیاں اور کاریں ہیں غور کرتا ہوں تو مجھے وہ عقل کے اندھے اور اقبال ارشد صاحب نظر اور صاحب بصیرت نظر آتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا اقبال ارشد اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ملتان سے اُن کی محبت لازوال اور بے مثال تھی، ایک مرتبہ جھوک کے دفتر تشریف لائے انہوں نے کہا کہ میرا ملتان عظیم تر ہے اور صرف ملتان شہر ہی نہیں بلکہ چاروں اطراف سینکڑوں میل دور دراز کے علاقے بھی ملتان کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے جیسا کہ ڈی جی خان کے پہاڑوں سے ایک خاص مٹی ملتی ہے اُس کا نام ملتانی مٹی ہے حالانکہ یہ مٹی ملتان کی نہیں اس کے باوجود زمانہ قدیم سے کیونکہ یہ علاقے ملتان کے حوالے سے پہچانے جاتے تھے اس لئے یہ ملتانی مٹی کہلائی اور پوری دنیا میں آج بھی اسے ملتانی مٹی کہا جاتا ہے اور سنا ہے کہ انڈیا میں اس پر بہت تحقیق اور ریسرچ ہو رہی ہے اور جو ہندو یہاں سے انڈیا چلے گئے وہ تو اس کی پوجا کرتے ہیں، اقبال ارشد نے یہ بھی بتایا کہ غالباً اصغر ندیم سید نے کسی جگہ لکھا تھا کہ من موہن سنگھ اپنی سٹوڈنٹ لائف میں خود کو من موہن ملتانی لکھتے تھے حالانکہ اُن کا تعلق جہلم کے علاقے سے تھا لیکن اُن کے والد تجارتی لحاظ سے ملتان سے وابستہ تھے اس لئے ان لوگوں نے خود کو ملتانی کہلوایا، اقبال ارشد نے یہ بھی بتایا کہ غالباً فخر الدین بلے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قائد اعظم کے بزرگوں کا تعلق بھی کسی زمانے ملتان سے رہا اور قائد اعظم کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان کا دارالحکومت اگر مستقبل میں شفٹ کرنا پڑے تو مغربی پاکستان کے درمیان کے عین وسط میں ہو اور اُن کی سوچ کے تحت یہ علاقہ ڈی جی خاں اور ملتان کے درمیان بنتا تھا۔ مگر ایوب خان نے غلط کیا ، دارالحکومت کو ایک کونے سے اٹھا کر دوسرے کونے پہنچا دیا ۔ جس کے خلاف احتجاج بھی ہوا اور ملک کا نقصان بھی۔ محترم اقبال ارشد کی یہ تمام باتیں میرے لئے نئی باتیں تھیں، اس سے میرے علم میں اضافہ بھی ہوا اور میرے دل میں محترم اقبال ارشد کی قدرو منزلت مزید بڑھ گئی کہ وہ واقعی اپنے شہر ملتان سے سچی اور حقیقی محبت کرنے والے انسان ہیں۔
اقبال ارشد کے 11 مجموعوں کے نام اس طرح ہیں نظر انداز، فصیل و پرچم، منزل کی تلاش، نو بہار، خماسی، سرمایہ حیات، آبشار، چاندنی کی جھیل، کہکشاں کے درمیان، بادلوں کے تلے، دکھوں کا آخری موسم۔ آخری شعری مجموعے کا نام دکھوں کا آخری موسم اُن کے حسب حال ہے کہ انہوں نے آخری عمر میں بہت دکھ دیکھے اُن کا اکلوتا جواں سال بیٹا اُن کی آنکھوں کے سامنے رخصت ہوااسی طرح وہ اپنی شریک حیات جس سے وہ بہت زیادہ محبت کرتے تھے وہ بھی فوت ہو گئیں،وہ ان کو پہلی اور آخری محبت کا نام دیتے تھے، اُن کی زوجہ محترمہ کا انتقال 2 فروری 2011ءکو ہوا تو اُن کے وصال رو رو کر انہوں نے اپنی آنکھیں دے دیں، وہ ملتان کی ادبی دنیا کا سنگھار تھے، کوئی ایسی ادبی تقریب نہیں جو اُن کے بغیر ہو ان کا منصب تعلقات عامہ کا تھا انہوں نے اپنے منصب سے صحیح معنوں میں وفا کی اور پوری زندگی انہوں نے نہ صرف یہ کہ تعلقات بنائے بلکہ تعلقات کو نبھایا، سرائیکی میں جس طرح ایک شاعر نے کہا کہ ”یاری لاون توڑ نبھاون ، ساکوں پیر فرید دا ڈس اے“ اسی طرح اقبال ارشد کو بھی دوستی کا گر کسی پیرو مرشد نے بتایا تھا وہ خود کو کبھی صوفی نہ کہلوایا اور نہ ہی وہ آج کے روایتی صوفی تھے لیکن اُن کی پوری زندگی انسان دوستی میں گزری، انہوں نے انسان اور انسانیت سے محبت کی اس لئے وہ اپنے منصب کے اعتبار سے بہت بڑے انسان تھے اور ایسے لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں اقبال ارشد بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے اپنی خوبصورت یادوں اور محبتوں کے ساتھ کہ بابا بلھے شاہ نے سچ فرمایا ”بلھے شاہ اساں مرنا نہ ہئی، گور پیا کوئی ہور“۔