ڈیرہ غازیخان اور دنیا پور کے ہزاروں لوگ گزشتہ تین ماہ سے اس لئے بھی سو نہیں سکے کہ ان کی جمع پونجی لٹ چکی ہے اور اب وہ لاہو ر ہائیکورٹ ملتان بنچ کے ڈویژن بنچ کے برآمدوں میں اپنی قسمت کے داﺅ پیچ دیکھ رہے ہیں۔ سینیئر وکلاءمنہ مانگی فیسیں لے کر وقتی طور پر اڑائی گئی دھول کو بٹھانے کی کوشش کررہے ہیں مگر نیب کے پراسیکیو ٹر ز کیس کو ” جھپٹ اور پلٹ “ میں مصروف رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تاریخ پہ تاریخ دہرائی جارہی ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ریاست کی آنکھ میں دھو ل جھونک کر محمد اسلم کھوکھر اور محمد اکر م کھوکھر نے ” نیشنل ٹریڈرز“ کے نام سے ایک ”ادارہ“ رجسٹرڈ کرایا اور ” سپیڈ بائیک “ موٹر سائیکل بنانے کا اعلان کردیا، ایک فیکٹری بھی خیالوں سے نکل کر خالی چار دیواری تک آپہنچی ۔ محمد اسلم کھوکھر نے ایک تحریری معاہدہ کے تحت لوگوں سے رقوم لینا شروع کردیں اور کاغذوں میں اقساط کا کاروبار دکھایا گیا مگر کسی ایک شخص کو بھی موٹر سائیکل نہ دی کیونکہ اندرونی کہانی تو صرف ”سود“ کے گرد گھومتی تھی ۔ لوگوں کو ہر ما ہ” جائز “ منافع ملنے لگا تو اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ، پولیس افسر ، پروفیسرز ، وکلاء، ڈاکٹرز نے بھی کروڑوں روپے ” نیشنل ٹریڈرز“ کے پاس رکھوائے ۔ ڈبل شاہ اور مدد کمیٹی سکینڈل سے بھی زیادہ رقوم محمد اسلم کھوکھر کے پاس جمع ہوگئیں اور ایسے نظام چلنے لگا کہ سٹیٹ بنک کے اصول بھی شرمانے لگے۔ ریاست کے اندر ریاست کا نظام بنکوں کے متوازی چلنے لگا۔
”سود“ کے اس کاروبار کی خبر جب آر پی او ڈیرہ غازی خان تک پہنچی تو انہوں نے یہ کیس نیب ملتان کو بھجوا دیا جس پر نیب نے محمد اسلم کھوکھر کے زیر اہتمام چلنے والے ” اڈے“ بند کروادیے اور کھوکھر برادران کی گرفتاری کےلئے ” فل ایکشن “ ریڈ کیا مگر وہ اپنی دولت کی اوٹ میں چھپ گیا اور عدالت عالیہ ملتان بنچ میں ضمانت قبل از گرفتاری کرانے میں کامیاب ہوگیا۔
سود کے اڈے بند ہوئے تو لوگوں کو ان کی رقوم پر ملنے والا ”منافع “بھی رک گیا جس پر متاثرین نیشنل ٹریڈرز نے بنک میں 645درخواستیں دیں اور ریکوری کے لئے کئے جانے والے دیوانی دعوی جات الگ ہیں جو ڈیرہ ، ملتان اور دنیا پور کی سول کورٹس میں دائر ہوئے۔
اسلم کھوکھر اپنی مہنگی ٹیم کے ہمراہ ہائیکورٹ آگیا اور اپنا کاروبار کھولنے کے لئے رٹ پٹیشن دائر کردی مگر نیب کا مؤ قف اپنی جگہ پر قائم رہا کہ اگر شورومز بھی کھل گئے تو یہ لوگ اپنا سامان اٹھا کر بیرون ملک بھاگ جائیں گے اور متاثرین کو کون ریکوری دے گا؟
ہزاروں متاثرین ہر تاریخ سماعت کو عدالت عالیہ ملتان بنچ آتے ہیں اور اک نیا وعدہ فردا لے کر چلے جاتے ہیں۔ متاثرین نہیں جانتے مگر وکلا تو جانتے ہیں کہ نیب کو ریفرنس کی تیاری میں جتنا وقت لگے گا وہ اتنا وقت تاریخ پہ تاریخ لے کر گزار دے گی ۔ اسلم کھو کھر شائد ضمانت قبل از گرفتاری خارج ہونے پر گرفتار بھی ہوجائے گا اور نیب کا ریفرنس بھی قانون کے عین مطابق ٹھہرے گا مگر متاثرین اپنی جمع پونجی سے ضرور محروم ہونگے کیونکہ کھوکھر برادران کا سامان جو شورومز میں موجود ہے وہ پچاس متاثرین کی رقم بھی پوری نہیں کرتا ، یہاں تو بات چالیس ارب روپے تک پہنچی ہوئی ہے۔
نیشنل ٹریڈرز اور سپیڈ بائیک کا کھیل جو گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے وہ ریاست کو نظر کیوں نہیں آیا ؟ کیا ریاستی ایجنسیاں اتنی بے خبر ہیں کہ اربوں روپے کا یہ کھیل اپنی طرف توجہ مبذول کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ؟
بظاہر نیب پہنچنے والے صرف 645متاثرین ہیں مگر ہزاروں لوگ ابھی ہائیکورٹ کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ ابھی بھی ان کو اسلم کھوکھر نے امید دے رکھی ہے کہ ” کاروبار کھل جائے تو رکا ہوا منافع بھی وہ ادا کردے گا“ ۔ نیب اپنے ریفرنس کی تیاری میں لگی ہے اور متاثرین اپنے ماہانہ منافع کے منتظر ہیں ۔ بینکنگ کے متوازی غیر قانونی نظام چلانے اور چلوانے کا ذمہ دار کس سزا کا مستحق ہے؟