ہم صرف ووٹر ، سپورٹرز اور عوام ہی نہیں ، اپنے اپنے حلقہ انتخاب کے خاندانی وڈیروں اور آقاﺅں کے پیشہ ور میراثی بھی ہیں۔ہماری میراثیت اب جدید دور کے تقاضوں میں ڈھل کر سائبر میراثیت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہم اپنے علاقے ، شہر ، صوبے یا ملک سے باہر بیٹھ کر بھی مبارکبادیں وصول کراسکتے ہیں ۔ چند روپے خرچ کرکے نیٹ پیکیج لگا کر ہم من چاہی جگہ استعمال کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔
ہمارے علاقے کے ایم پی اے، ایم این اے، وزیر یا کسی مسترد شدہ سیاسی اکائی کی پالتو گائے زچگی کے عمل سے گزرتے ہوئے کوئی بچھڑا جنم دے دے یا رشئین بلی کا پاﺅں بھاری ہوجائے تو ہمیں اپنی معاشی مشکلات بھول جاتی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کھانسی کا شربت لے کر دینے سے پہلے اپنی فیس بک کے سرخ و گلابی صفحہءخوشامد پر دو چار پرانی تصویریں اپ لوڈ کرتے ہیں اور مبارکبادوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کردیتے ہیں اور یہ سب کچھ ہم ان زمینی خداﺅں کے لئے کرتے ہیں جنہوں نے نسل در نسل ہماری غلامی کے احساس بندگی کو اپنی کراہت آمیز مسکراہٹ کی بقاءکے لئے استعمال کیا ہوتا ہے۔
ہم پیشہ ور میراثی ایک لمحہ کے لئے نہیں بھولتے کہ ان میں اور ہم میں صرف چند ایکڑ زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کا فرق ہے۔ ان کے پوتے، پڑپوتے ، بھتیجے اور بھانجے اگر پاﺅں کی موچ کا بھی شکار ہوجائیں تو ہماری سوچ کو کوڑھ کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ہمارے اجداد کے جنازے کی صفِ اول کی زینت بن جائے تو ہمارا دکھ ، ہماری آہیں ، نغمہءعشرت میں ڈھل جاتی ہیں۔ ہمارے اوپر واجب ہے کہ ہم ان کی بالکل اسی طرح خوشامد اور چاپلوسی کریں جیسے ان کے دادا کی ہمارے دادا نے کی تھی۔ ہم کون لوگ ہیں ؟جو ستاروں پر کمند ڈالنے کی خواہش لئے گھر سے نکلے تھے اور سا ل ہا سال سے ” مبارک باد “ کے چوراہے پر لگی سرخ بتی پر رکے ہیں۔
ہم وہ پیشہ ور طبلچی ہیں جو بغیر وقت ضائع کئے طبلے کے تال کو برقرار رکھتے ہیں۔ جب ان کے باغوں میں خزاں بسیرا کرتی ہے تو ہم افسردہ ہوتے ہیں پھر جب کونپلیں پھوٹ پڑیں اور پھل لگنے کے آثار باغات کو مہکادیں تو ہم مبارک باد دینا نہیں بھولتے ۔ وہ اپنے فارم ہاﺅس میں جب مویشیوں کی حفاظتی ویکسینیشن کرارہے ہوتے ہیں ہم ان کے لئے دعائیہ تقاریب کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں ۔ ہم اپنی خوشامد کے ہر پہلو کو استعمال کرتے ہیں اور انہیں اپنی وفاداری اور جانثاری کا یقین دلاتے دلاتے خو د بے یقین و بے توقیر ہوجاتے ہیں۔ عید مبارک، بارش مبارک، دھوپ مبارک، بچے کی پیدائش مبارک، موسم کا پہلا پھل مبارک، کوٹھی کی سالانہ بھل صفائی مبارک، فیوز ہونے والے بلبوں کی جگہ نئے انرجی سیور کی تنصیب مبارک، غیر قانونی تعلقات کا پہلا وصل مبارک، سیاسی پارٹی سے چھٹکارا مبارک کہ وہ آپ کے منشور کے مطابق نہ تھی اور آپ نے اپنے مبارک پانچ سال لولی لنگڑی جماعت کو دے دیے، اب نئی حکومتی پارٹی کا دو رنگا پٹہ مبارک۔ ساری زندگی جمہوریت کا چورن بیچنے والوں کو ایمپائر کی تازہ تازہ حمایت یافتہ پارٹی مبارک۔ الیکشن جیت گئے تو بھی فتح مبارک اور ہار گئے تو پھر بھی مبارک کیونکہ سیاسی حالات آپ کی سوچ اور پالیسی کے مطابق نہ تھے لہذا گھر بیٹھنا مبارک۔
زندگی میں اس قدر بے چارگی اچھی نہیں
ہر قدم پر چارئہ تدبیر ہونا چاہیے
صاحب توقیر ہونے سے تو کچھ ملتا نہیں
آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہیے
ہم ” مبارک باد “ دینے والے پیشہ ور سائبر میراثیوں کو ان کی ہمت کی داد دیتے ہیں کہ وہ اپنی شخصیت کو ایک لمحہ کے لئے گروی رکھتے ہوئے کس قدر بہادری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ دعا ہے کہ آپ کے اس پیشہءمشکل کو بھاگ لگے رہیں اور دشمن جو آپ کی قربتِ وڈیرہ شاہی سے جلتے ہیں وہ ہمیشہ حسد کی آگ میں پگھلتے رہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ جہان پاکستان )