لالہ موسیٰ تربیت کے دو ماہ پورے کرنے کے بعد میں واپس کبیروالہ پہنچ چکا تھا جہاں سے میں روزانہ دو بسیں بدل کر براستہ ملتان ہر صبح اپنے دفتر مخدوم عالی کے لئے روانہ ہوتا ، جو کہ ملتان بہاولپور روڈ پر ملتان سے تقریبا 50 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ میرے دفتری فرائض میں اپنے مرکز کی یونین کونسلز کی انسپکشن ، ایم پی گرانٹس کے منصوبوں کے لئے فنڈز کا اجرا اور ان کی نگرانی، اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے آنے والی ہدایات پر عمل کرانا اور اس کے علاوہ اپنے علاقے میں ڈپٹی کمشنر کی کھلی کچہری کا انعقاد تھا۔ ان دنوں لودھراں میں شیخ حامد نواز اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے۔ جوکہ ادب نواز ہونے کے ساتھ ساتھ خود بھی نثر لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ انہی دنوں ان کی سیرت نبی پر ایک کتاب وسیلہ بھی شائع ہوئی۔ اپنی خوش اخلاقی کی وجہ سے لودھراں کے عوام میں ہر دلعزیز تھے۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے لودھراں میں طویل عرصہ گزارا، سول کلب لودھراں کو فعال کیا ۔۔ اور وہاں ادبی اور سماجی سرگرمیوں کو بحال کیا۔ جب انہیں علم ہوا کہ میں شاعر ہوں تو وہ بہت خوش ہوئے، اور کہنے لگے میں لودھراں میں کل پاکستان مشاعرہ منعقد کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اس مشاعرے کے انتظامات کی کمیٹی میں ہوں گے۔ شعر و ادب سے ان کی دلچسپی اپنی جگہ لیکن مشاعرے کی طرف انہیں شاعر افسر ساجد کھینچ کر لائے تھے جوکہ ان دنوں اسسٹنٹ کمشنر جنرل ملتان تعینات تھے۔ مشاعرے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ شاعروں کے ناموں کی فہرست افسر ساجد اور ان کے دیگر ادبی احباب نے فائنل کی۔ ان میں لاہور سے احمدندیم قاسمی مرتضیٰ برلاس قتیل شفائی ، شہزاد احمد منیر نیازی امجد اسلام امجد پروین شاکر کے علاوہ دیگر شہروں کے بھی اہم نام شامل تھے۔ اس مشاعرے کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کی حکمت عملی اس طرح بنائی گئی۔ سب سے پہلے شہر کے مخیر حضرات تاجروں اور صنعتکاروں کی میٹنگ بلائی گئی جن میں ان لوگوں سے ڈونیشن دینے کے لئے کہا گیا۔۔ پھر یونین کونسلز کے چیئرمین صاحبان کی میٹنگ بلا کر ان کے ذمے فنڈ لگایا گیا۔۔ اور یوں علاقے سے اچھا خاصا پیسہ جمع کیا گیا۔ جس روز مشاعرہ تھا اتفاق سے اسی روز ایک سانحہ ہوگیا۔ یوں مشاعرے کا انعقاد خطرے میں پڑگیا۔ لیکن مشاعرے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں ۔ پنڈال سجایا جاچکا تھا۔ بہت سے شاعر پہنچ چکے تھے۔ شہر میں مشاعرے کی پبلسٹی ہوچکی تھی ۔ مشاعرہ کسی طور بھی منسوخ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی پریشانی کے عالم میں شیخ حامد نواز کے ذہن میں ایک تجویز آئی کہ مشاعرے کا ایک حصہ نعتیہ کلام کے لئے مخصوص کر دیا جائے اور پھر غزل کا مشاعرہ ہو۔چنانچہ اسی طرح کیا گیا۔ یہ لودھراں میں بہت بڑا ادبی ایونٹ تھا۔ جس میں ملک بھر سے اہم شاعر شریک تھے۔ ۔ یہ اور بات کہ اس مشاعرے پر بھی تنقید کرنے والوں نے جی بھر کر تنقید کی ۔۔ کچھ لوگوں کے خیال میں انتظامیہ نے مشاعرے کی آڑ میں بہت سی رقم اکھٹی کی۔ کچھ مشاعرے پر لگائی گئی اور کچھ خود ہضم کرلی گئی ۔۔ لیکن ایسے لوگوں کے بیانئے کو کسی طرف سے کوئی پزیرائی حاصل نہیں ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ حامد نواز صاحب کی بطور اسٹنٹ کمشنر ساکھ بہت اچھی تھی۔ ۔ اسٹنٹ کمشنر سے شاعرانہ تعلق کا کم ازکم مجھے یہ فائدہ ضرور حاصل ہوا میں محکمانہ سطح پر جن قباحتوں سے بچنا چاہتا تھا انہوں نے اس حوالے سے میری بہت مدد کی۔ مثلا بہت سے سیاسی لوگ دباؤ ڈال کر میرٹ سے ہٹ کر مجھ سے بہت سے کام کروانا چاہتے تھے ۔ لیکن حامد نواز شیخ نے مجھے ان کے ناجائز دباؤ سے بچایا اور ان سیاسی لوگوں کو میری طرف سے کہا کہ میں نے اسے یہ کام کرنے سے منع کر دیا ہے اور وہ یہ کام نہیں کرے گا کیونکہ قانونی طور پر یہ درست نہیں ہے۔ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد چونکہ مجھے براستہ ملتان کبیروالہ جانا ہوتا تھا۔ لہٰذہ اکثر اوقات میں واپسی پر ملتان اپنے دوست شاکرحسین شاکر کے کتابوں کے شو روم کتاب نگر پر چلا جاتا جہاں رضی الدین رضی بھی آجاتا اور پھر ہم تینوں مل کر ادب میں مختلف تخریب کاریوں پر غور کرتے۔ اصل میں یہ تخریب کاری نہیں بلکہ وہ غصہ تھا جو ہمیں ان ادبی لوگوں پر تھا جنہوں نے ملتان لاہور اور گردونواح میں خاص طرح کی دکانداریاں سجائی ہوئی تھیں۔ ریڈیو ملتان پر ایک خاص لابی قابض تھی ۔۔ ادبی صفحات پر بھی ان کا کنٹرول تھا اسی طرح مشاعروں میں بھی ان کے خوشامدی یا من پسند تھرڈ کلاس شاعر شرکت کرتے تھے۔ ہم تینوں میں رضی کچھ زیادہ جذ باتی تھا۔ وہ اپنے قلم اور عمل سے ایسے دو نمبر لوگوں سے نبرد آزما رہتا۔ کبھی کبھی اس کی زد میں کئی معصوم افراد بھی آجاتے جس پر میں اور شاکر احتجاج بھی کرتے۔ بہر حال وہ ایک جذ باتی دور تھا۔ یقینا بہت سی غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی ۔۔ لیکن ہم تینوں اپنے موقف میں واضح تھے۔۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم ادب میں کسی شارٹ کٹ کے حامی نہیں تھے۔ ہماری زیادہ توجہ اپنی تخلیقات پر تھی اور ہم اسی کے ذ ریعے شناخت چاہتے تھے
فیس بک کمینٹ