جب زکیاس میرا چھوٹا بیٹا اصرار کرتا ہے کہ پاپا بور ہو رہا ہوں ۔باہر تفریح کے لئے چلتے ہیں تو میں فوراً جان جاتا ہوں کہ اس کا مطلب کیٍا ہے؟ کیونکہ اس کا اگلا ہی جملہ ہوتا ہے ” پاپا کچھ اچھا کھانا ہے“ اور اچھے کھانے سے مطلب ہوتا ہے کسی فاسٹ فوڈ ریستوران میں برگر یا چیز اور مایونیز سے بھرا ڈیپ فرائی کیا ہوا چکن کا ٹکڑا۔۔۔۔۔میں سوچتا ہوں تفریح کے معنی کب سے ” اچھا کھانا “ ہوئے؟ میں نے ایک بار فرہنگ آصفیہ بھی کھول کر دیکھی کہ شاید کبھی تفریح کے معنی یہ رہے ہوں۔۔۔۔۔لیکن فرہنگ میں تفریح کے ایسے معانی کہیں نہ تھے۔۔ تفریح کا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرحت،خوشی،راحت۔۔۔۔۔۔۔۔خوش طبعی،مزاح،کھلی،دل لگی،ہنسی،چہل۔۔۔۔۔۔۔۔تازگی،شگفتگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوا خوری، سیر،دل بہلانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرہنگ آصفیہ اپنی جگہ مگر آجکل تفریح کے معنی یہی لئے جاتے ہیں یعنی کسی اچھے ہوٹل میں اچھا سا کھانا کھانا۔۔۔۔۔۔ وقت کے ساتھ لفظوں کے معانی کا بدلنا سنا تھا مگر تفریح کا اس قدر بھیانک انجام ۔۔۔۔۔پورے کلچر کی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے اور سوچ کے لئے غذا بھی۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا کہ اسکولوں کے ساتھ کھیل کا میدان لازم و ملزوم تھا جو نہ صرف سکول کے اوقات میں دعا، ترانہ ، پریڈ ، فن و آرٹ اور کھیل کے لئے استعمال ہو تا تھا بلکہ بعد از دوپہر شہر یا علاقے کے بڑی عمر کے کھلاڑیوں کی تربیت کا ذریعہ بھی بنتا تھا اور رات اور پھر صبح کو مرد و خواتین کے سیر سپاٹے کی جگہ بھی۔۔۔ جگہیں بھی وسیع تھیں اور دل بھی وسیع اور تفریح کے معنی بھی راحت، خوشی اور تازگی۔۔۔لیکن اب تفریح کے معنی بدلنے سے گراؤ نڈ اور کھلے میدانوں کی جگہ ہوٹلوں کے تنگ ماحول میں سکرین پر ویڈیو گیمزاور اچھل کود کے چند ریڈی میڈ کھلونوں نے لے لی ہے یعنی کھانے کی رغبت دینے کے لئے تفریح بطور ذریعہ استعمال۔۔۔ اصل مطلب ہوتا ہے کھانا کھانا اور سیر ہو کر ڈکار مارنا۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ عہد میں ہمارے ہاں سب سے منا فع بخش کاروبار ہو ٹلنگ کو سمجھا جاتا ہے اور ہوٹل نئے نئے ناموں اور فرنچائز کی حصہ داری میں مشروم کی طرح پھیل رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب جن کھانوں کو ذہنی طور پر ترک کر چکا ہے ہماری نئی نسل اب ان کے پیچھے دیوانی ہوئی جاتی ہے یونیورسٹیوں میں آجکل طالبات ایک برگر کے لئے یا تو فرینڈشپ کا آغاز کرتی ہیں یا پھر اس کے لئے پرانی دوستیاں توڑ دیتی ہیں دیہاتی اور غریب پس منظر رکھنے والے طالب علم اور طالبات کی خرابی کی ایک وجہ برگر بھی ہے ۔یونیورسٹیوں میں سگریٹ اور ہیش کے بعدبر گر ایک سٹیٹس سمبل بن چکا ہے۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ یہ تو لازم تھا کہ اسکول کی عمارات کی وسعت بھی گھٹتی مگر کیا یہ بھی ضروری تھا کہ دیہات اور شہروں سے یہ کھلے میدان اور گراؤ نڈ بھی ختم کر دئے گئے یا عدم توجہی سےانھیں قبضہ ما فیا کے ہتھے چڑھنے دیا گیا۔
تفریح اور انٹر ٹینمنٹ کا ایک اور ذریعہ رات کے کھانے کے بعد ماؤ ں اور دادیوں کی قر بت بھی تھی کہانیاں، داستانیں اور لوریاں۔۔۔۔۔۔کتنی فرحت بخش تھیں یہ سب؟۔۔۔۔کیا اس فرحت کی طلب مٹ گئی؟ بچے تو ہر دور میں بچے ہی ہو تے ہیں ۔۔کہانی اب بھی ان کو فرحت اور تفریح عطا کرسکتی ہے ۔۔۔مگر نہ بچے کے پاس کورس کی کتابوں کے انبار سے باہرنکلنے کی آزادی اور نہ ماں اور دادی کے ذہنوں کی مکیں اب کہانی رہی۔۔۔۔۔کہانی نہ روٹھی ہے اور نہ ہی کہیں گئی ہے کہانی اب بھی ہم میں موجود ہے ہم ہی اسے دیکھ نہیں پاتے ۔۔۔ ہمارے بچے اس سے کیسے واقف ہوں ؟ کون ہے جو بچوں کو کہانی سے متعارف کرواتا ہو؟
تفریح کا ذریعہ ہمارے محلے اور گلیاں بھی تھیں ۔۔۔۔جب ہم جان لیتے تھے کہ آج ہمارے محلے یا گلی میں فلاں بچہ یا لڑکا فلاں محلے یا گلی کا آیا ہے ہمارا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔سب ایک دوسرے کی خفیہ مقامات کی نشانیوں سے بھی واقف تھے۔۔۔۔۔اب واقفیت سوشل ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔وسیع ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔محلے یا گلی میں تفریح کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔اونچ نیچ ۔۔۔۔دھوپ چھاؤں ۔۔۔۔کورڑہ چھپاتی۔۔۔۔لکن چھپن۔۔۔۔۔بٹہ چھپائی۔۔۔۔۔۔کھیلنے کے لئے ساتھیوں کا اشتیاق سے انتظار نہیں کرواتی ۔۔۔۔۔اب واقفیت موبائیل کی سکرین پر آ گئی ہے اور گھر کے ایک کونے میں مقید ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تفریح کہاں ہے؟ تفریح پرندوں کی طرح نا یابی سے ” نا پیدیت“ کی جانب بڑھ گئی ہے۔۔۔۔۔
تفریح کا مطلب ہے ” کسی اچھے ہوٹل میں کوئی اچھا کھانا کھانا“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راجہ گدھ میں بانو قدسیہ نے عورت کی پیٹ کی زائد از ضرورت ” بھوک “ کو منفی اور تخریب پر مبنی رجحان قرار دیا ہے شاید اس لئے کہ عورت کی یہ خرابی مصنفہ کی نظر میں خاندانی رشتوں کے باہم ربط کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیتی ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ جب پورا معاشرہ ہی پیٹ کی بھوک میں مبتلا ہو۔۔۔۔۔۔۔کھانے اور تفریح کو ہم معانی سمجھتا ہو۔۔۔۔۔۔۔
جسمانی تفریح کے ساتھ ساتھ کبھی ذہنی تفریح بھی اتنی ہی اہم ہوا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔کتاب، لائبریری، تھیٹر، آرٹس کونسل، مسجد، بیٹھکیں، ڈیرے، سینما۔۔۔۔اور تو اور گھر کی دہلیزیں ، گلی کے نکڑ، کھیت کھلیان میں نالے اور پگڈنڈیاں سب ذہنوں کی آبیاری کرتیں اور ان کی زر خیزی میں اضافہ کرتیں ۔۔ایسی تفریح جو تخلیق کی وادیوں کو اور وسعت بخشتی۔۔۔مگر نہ کتاب نہ لائبریری، آرٹس کونسل، تھیٹر، ڈیرے ، بیٹھکیں ،سینما سب اجڑ گئے مسجدیں آباد ہیں مگر ذہنی آبیاری کی بجائے ذہنی بد حالی میں اضافہ کر رہی ہیں۔۔۔۔۔
ذہن کی تفریح یا تسکین ہو تی ہے۔۔۔۔حیرت سے۔۔۔۔نئی دریافتوں سے ۔۔۔نئی کتاب پڑھنے سے۔۔۔کہانی سے ۔۔۔داستان کے سسپنس سے۔۔۔۔پگڈندی پر بیٹھ کر رات کو ستارہ شماری اور آشنائی سے۔۔۔۔بات سے۔۔۔بات کرنے سے۔۔۔۔۔
خامشی سے رات دن سکرین دیکھنے والی آنکھیں تفریح کی راحت اور لطف سے کیسے آشنا ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ہماری اس نفسیات کو ٹی وی چینل کے مالکان نے خوب سمجھا ہے اور حصول منفعت کی دوڑ میں اسے بخوبی استعمال کیا ہے ہر چینل مذہب، منہ کے ذائقے اور چٹپٹی خبروں کے علاوہ کسی تیسرے تحقیقی، ڈاکومنٹری یا معلوماتی موضوع کے نشریے کو وقت کا زیاں اور بے سود کاروبار گردانتا ہے۔۔۔۔۔ ہر ٹی وی چینل مذہب اور چٹپٹی خبروں کو ذہنی تفریح اور ذائقہ پروگراموں کو جسمانی تفریح کے ذریعے کے طور پر نشر کرتا ہے ۔ اور آنیوالی نسلوں کے ذہن کی ایسی تر بیت ۔۔۔۔۔اگر اسے تربیت کہا جائے۔۔۔۔۔۔کر رہاہے جس کے نزدیک تفریح کا مطلب ہے تھوڑا سا مذہب اور کچھ چٹپٹی خبریں اور باقی ” بھوک بھوک “ ۔۔۔۔ذائقہ اور کھانا خزانہ پروگرام ایسے ہی ذہن کی تشفی کے لئے نشر کئے جاتے ہیں ۔
جھوٹ اور سچ الگ کہاں ہیں؟ اور الگ کہاں دکھائے جاتے ہیں۔دونوں ایک دوسرے پر ثبت ہیں۔۔جھوٹ سچ پر اور سچ جھوٹ پر سوار ہے۔۔۔ونڈو در ونڈو۔۔تہہ بہ تہہ۔۔۔پہچان ناممکن۔
بے یقین اور غیر حقیقی پروگراموں کو دیکھ کر خالی رہ جانیوالے دماغ اور کھانے سے اشتیاق بجھانے والے جسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قسم کی ذہنیت اور جسمانیت کو ” جدیدیت“ کہنے والے لوگ شائد برا مانیں مگر جب اس طرز پر پروان چڑھنے والی نئی نسل کو بڑے بوڑھے ” برائیلر نسل “ کا خطاب دیتے ہیں۔تو کچھ غلط بھی نہیں کہتے۔۔۔۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم ایساکند ذہن اور ایسا سست جسم پروان چڑھا رہے ہیں جو کسی برائیلر چکن کا ہی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔اپنی جگہ سے نہ ہلنے والا ، گیس چھوڑتا ہوا جسم جسے کھانے کے علاوہ کوئی تفریح نہیں سوجھتی۔اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ آگے مقابلہ بھی سخت ، محنتی اور دشوار قوم سے ہے۔۔۔
وہ دن دور نہیں جب ہماری اس برائیلر نسل نو کو چینی اصیل مرغے ٹھونگیں مارٖرہے ہوں گے اور یہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ پائے گی۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ