آج سے ٹھیک 11 برس قبل امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011 کو صوبائی دارالحکومت میں دو افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس نے سنہ 2017 میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی ’دا کنٹریکٹر‘ میں پاکستان میں اپنی گرفتاری، مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش، مقدمے کا احوال اور بالآخر رہائی کا ذکر بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے۔
ان کے مطابق اس دوران سب سے ڈرامائی دن مقدمے کا آخری دن تھا جب لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قائم کردہ خصوصی سیشن کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس پر قتل کی فردِ جرم عائد ہونا تھی۔ ڈیوس لکھتے ہیں کہ انھیں اس رات نیند نہیں آئی تھی۔
عدالت میں اس دن معمول سے زیادہ بھیڑ تھی اور ڈیوس کو سٹیل کے ایک پنجرے میں بند کر کے جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا مقصد مجھے لوگوں سے بچانا تھا یا پھر لوگوں کو مجھ سے محفوظ رکھنا۔‘
اس دوران وہاں موجود لوگوں کے رویے سے انھیں لگا جیسے وہ سبھی لوگ جج کی جانب سے اُن کے قصوروار ہونے کا فیصلہ سُنائے جانے کے منتظر ہیں تاکہ ’اس کے بعد وہ مجھے گھسیٹ کر کسی قریبی درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دیں۔‘
ڈیوس کو عدالت میں ایک حیران کن بات یہ نظر آئی کہ اس دن وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ غیر حاضر تھے جنھوں نے اس سے قبل ان پر خاصی سخت جرح کی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ ڈیوس نے فیضان حیدر (دو افراد میں سے ایک جنھیں ریمنڈ ڈیوس نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا) کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا ہے۔
کتاب کے مطابق بعد میں وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ نے کہا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو انھیں پکڑ کر کئی گھنٹوں تک قید میں رکھا گیا اور کارروائی سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلائنٹس (یعنی وہ افراد جن کے وہ وکیل تھے) سے بھی ملنے نہیں دیا گیا۔
’دا کنٹریکٹر‘ کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ 23 فروری 2011 کو پاکستانی اور امریکی فوج کے سربراہان جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن کے درمیان عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صرف ہوا کہ پاکستان عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ ڈیوس کی گلوخلاصی ہو پائے۔
16 مارچ 2011 کی دوپہر کو جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو جج نے صحافیوں سمیت تمام غیرمتعلقہ لوگوں کو باہر نکال دیا۔ لیکن ایک شخص جو کارروائی کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود رہے وہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل شجاع پاشا۔
اس وقت ڈیوس کو معلوم نہیں تھا کہ یہ شخص کون ہیں لیکن اسی دوران پسِ پردہ خاصی سرگرمیاں ہو رہی تھیں۔ ان سرگرمیوں کے روحِ رواں جنرل پاشا تھے، جو ایک طرف امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر سے بھی رابطے میں تھے۔
ڈیوس لکھتے ہیں کہ عدالت کی کارروائی کے دوران جنرل صاحب مسلسل کیمرون منٹر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے۔
عدالتی کارروائی چونکہ اُردو میں ہو رہی تھی اس لیے ڈیوس کو کچھ خاص پتہ نہیں چلا لیکن درمیان میں وہاں موجود لوگوں کے ردِعمل سے پتہ چلا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ ڈیوس کے ایک امریکی ساتھی پال وکیلوں کا پرا توڑ کر پنجرے کے قریب آئیں اور کہا کہ جج نے ’عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا ہے۔‘
’یہ کیا کہہ رہی ہو؟‘ ڈیوس نے حواس باختہ ہو کر کہا۔ ’میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘
کتاب کے مطابق مقدمے کو شرعی بنیادوں پر ختم کرنے کے فیصلے کے منصوبہ سازوں میں جنرل پاشا اور کیمرون منٹر شامل تھے۔ پاکستانی فوج بھی اس سے آگاہ تھی جب کہ صدر زرداری اور نواز شریف کو بھی بتا دیا تھا کہ کیا کھچڑی پک رہی ہے۔
ڈیوس لکھتے ہیں کہ جنرل پاشا کو صرف دو دن بعد یعنی 18 مارچ کو ریٹائر ہو جانا تھا اس لیے وہ سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ یہ معاملہ کسی طرح نمٹ جائے۔ اور جب یہ معاملہ نمٹا تو ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور مارچ 2011 کی بجائے مارچ 2012 میں ریٹائر ہوئے۔
’دا کنٹریکٹر‘ کے مطابق یہ جنرل پاشا ہی تھے جنھوں نے سخت گیر وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ کو مقدمے سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسد یہ مقدمہ مفت لڑ رہے تھے۔
ریمنڈ ڈیوس لکھتے ہیں کہ جب دیت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا، چنانچہ 14 مارچ کو آئی ایس آئی کے اہلکار حرکت میں آئے اور انھوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا، اُن کے گھروں کو تالے لگا دیے گئے اور اُن سے موبائل فون بھی لے لیے گئے۔
کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں ان لواحقین کے سامنے دو راستے رکھے گئے: یا تو وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں ورنہ۔۔۔
کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور انھیں کہا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں۔
یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید وصول کرتے اور باہر آ جاتے۔یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ یہ رقم کس نے دی؟ اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس بات سے صاف انکار کیا تھا کہ یہ خون بہا امریکہ نے ادا کیا ہے۔ تاہم بعد میں خبریں آئیں کہ رقم آئی ایس آئی نے دی اور بعد میں اس کا بل امریکہ کو پیش کر دیا۔
جونھی یہ کارروائی مکمل ہوئی ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سیسنا طیارہ رن وے پر اُن کا انتظار کر رہا تھا۔
اور یوں پاکستان کی عدالتی، سفارتی اور سیاسی تاریخ کا یہ عجیب و غریب باب بند ہوا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ