عید کے روز بہاولنگر کے قریب پولیس کے خلاف فوجی جوانوں کی کارروائی کے بعد پولیس اور فوج کے افسروں نے واقعہ کی تحقیقات کی ہیں اور معاملات ’خوش اسلوبی‘ سے طے کر لیے گئے ہیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق بے بنیاد پروپیگنڈے اور غیر مصدقہ ویڈیوز کے ذریعے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن پولیس اور فوج صوبے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔
یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جس کے بعد بہاولنگر کے تھانہ مدرسہ کے ایس ایچ او اور دیگر عملہ کو تبدیل کر کے ان کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ البتہ پولیس کے بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ غیر قانونی طور سے پولیس تھانے کے علاوہ ایک ہسپتال پر حملہ کرنے اور متعدد لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والے فوجی اہلکاروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔ نہ ہی پاک فوج نے اس افسوسناک، ناگوار اور کسی حد تک شرمناک واقعہ کے بارے میں کوئی بیان جاری کیا ہے۔ حالانکہ پاک فوج کو اس وقت قومی رائے عامہ میں شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس واقعہ کو محض پولیس کی ’معافی‘ اور وضاحت سے رفع نہیں کیا جاسکتا۔
بہاولنگر کے تھانہ مدرسہ کے نئے ایس ایچ او کی مدعیت میں جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس سے واقعہ کے خدو خال کسی حد تک واضح ہوتے ہیں۔ ایس ایچ او انسپکٹر سیف اللہ کی مدعیت میں 10 اپریل کو درج ایف آئی آر کے متن میں لکھا گیا ہے کہ اے ایس آئی محمد نعیم نے اہلکاروں کے ساتھ 8 اپریل کو چک سرکاری میں محمد انور جٹ نامی شہری کے گھر پر چھاپہ مارا، جس پر اہل خانہ نے مزاحمت کی اور ایک پولیس اہلکار کو کمرے میں بند کر دیا۔ اس کے بعد ایس ایچ او تھانہ مدرسہ، رضوان عباس دیگر اہلکاروں کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کر کے گھر میں داخل ہوئے۔ خواتین کو بھی مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی دوران محمد انور جٹ کے بیٹے محمد خلیل اور دیگر اہل محلہ نے جمع ہو کر ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کو کمرے میں بند کر لیا اور ویڈیو بھی بنائی۔ واقعے کی اطلاع پر پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور گھر میں موجود افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا، توڑ پھوڑ کی۔ اور ایس ایچ او رضوان عباس اور دیگر کو چھڑا لیا گیا۔
پولیس اہلکاروں نے محمد انور جٹ، اس کے بیٹے آرمی ملازم محمد خلیل، اینٹی نارکوٹکس ملازم محمد ادریس اور دیگر کو گرفتار کر کے تھانہ مدرسہ منتقل کیا اور آرمی اہلکار، خواتین سمیت 23 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ دوران حراست پولیس نے مبینہ طور پر آرمی کے ملازم خلیل، اس کے بھائی ادریس، والد انور اور دیگر کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور گرفتار افراد میں سے کسی کو بھی عدالت میں پیش نہیں کیا۔ پولیس نے تشدد کا نشانہ بننے والے پاک آرمی کے سپاہی خلیل جٹ اور دیگر کی میڈیکل رپورٹ بھی جاری ہونے سے روکی۔ اس پر 10 اپریل کو سرکاری ادارے (آرمی) کے جوانوں کی بڑی تعداد پہلے ڈسٹرکٹ ہسپتال پولیس خدمت سینٹر پہنچی اور وہاں پر پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنا کر پکڑ لیا، پھر مذکورہ ڈاکٹر کو اپنے ہمراہ لے گئے۔
انسپکٹر سیف اللہ نے بتایا کہ انہیں مدرسہ پولیس اسٹیشن کا نیا ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے 8 اپریل کو درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا جس کے تحت سابق ایس ایچ او رضوان عباس، اسسٹنٹ سب انسپکٹر محمد نعیم اور کانسٹیبل محمد اقبال اور علی رضا نے اس میں نامزد تین افراد کو بغیر تفتیش گرفتار کیا تھا اور 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی تینوں کو مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ قانون سے آگاہ ہونے کے باوجود چاروں اہلکاروں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتی۔ اس طرح کیس کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا اور اختیارات کا غیر ضروری استعمال کیا۔ پولیس اہلکاروں کی غیر قانونی حرکتوں کے بارے میں حکام کو الرٹ کیا گیا اور بعد ازاں ان چاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔
اس وقوعہ کے بارے میں پنجاب پولیس نے جو وضاحت جاری کی ہے، اس کے مطابق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے بہاولنگر کے معاملے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ اس واقعہ کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان لڑائی ہوئی ہے۔ غیر مصدقہ ویڈیوز وائرل ہونے پر دونوں اداروں نے مشترکہ تحقیقات کا آغاز کیا۔ دونوں محکموں کے افسران نے حقائق کا جائزہ لیا اور پرامن طریقے سے معاملے کو حل کیا۔ پنجاب پولیس اور پاک فوج صوبے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ ہم سوشل میڈیا صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جعلی پروپیگنڈا نہ پھیلائیں۔ پنجاب پولیس نے ضلع بہاولنگر میں پاکستانی فوج کے افسران کی جانب سے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں پر تشدد کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کو ’جعلی پروپیگنڈا‘ قرار دیتے ہوئے، اس کی مذمت کی ہے۔
تاہم نئے ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کی گئی ایف آئی آر اور پولیس بیان کے متن کو ملا کر پڑھا جائے تو پنجاب پولیس کا موقف کمزور دکھائی دیتا ہے۔ پولیس کے افسران یہ واضح کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد نے ایک تھانے اور ہسپتال پر ’حملہ‘ کیا، پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک ڈاکٹر کو اغوا بھی کیا۔ یہ بیان ایک غیرقانونی واقعہ کی پردہ پوشی کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نہ تو پنجاب پولیس کے وقار و عزت میں اضافہ ہوا ہے اور نہ ہی اس سے فوج کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ایک فوجی کی گرفتاری پر اس کے ساتھی اشتعال میں آ گئے ہوں اور انہوں نے اسی جوش میں کچھ ایسے اقدامات کیے ہوں جو غیر قانونی ہیں۔ ان کی نہ تو ملکی قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی فوج کا ڈسپلن اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ یہ واقعہ پولیس سے زیادہ فوج کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جس کا اسے سخت نوٹس لینا چاہیے تھا۔ اس لیے پولیس بیان کی بجائے اگر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے اس واقعہ کی وضاحت و مذمت سامنے آتی تو صورت حال واضح ہو سکتی تھی اور عوام میں پائی جانے والی بے چینی بھی کم ہوتی۔
سوشل میڈیا صارفین کو متنبہ کرنے، ویڈیوز کو جعلی قرار دینے اور انہیں پھیلانے کی مذمت کرنے سے نہ تو حقیقی تصویر سامنے آئی ہے اور نہ ہی پولیس اور فوج کی پوزیشن واضح ہوئی ہے۔ بلکہ ایف آئی آر میں تو پھر بھی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے پولیس نے بعض لوگوں کے خلاف کارروائی کی جن میں ایک فوجی اہلکار بھی شامل تھا۔ اس کے بعد اس فوجی اہلکار کو پکڑنے اور اس کے اہل خاندان کو ہراساں کرنے پر فوجیوں نے جوابی کارروائی کی۔ پولیس تو اپنی کارروائی کے لئے پھر بھی یہ دلیل دے سکتی ہے کہ امن و مان کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے۔ یہ مانا جاسکتا ہے کہ متعدد دیگر معاملات کی طرح اس کارروائی میں بھی پولیس افسروں نے زیادتی کی ہو اور قانون کے مطابق اپنے فرائض ادا نہ کیے ہوں۔ البتہ اب اعلیٰ افسروں کی تحقیقات اور احکامات کے بعد ان سب پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ البتہ فوجی اہلکاروں کی ’غیرقانونی‘ حرکت کے بارے میں کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔ ممکن ہے کہ فوج اپنے ڈسپلن کے مطابق اس واقعہ میں ملوث اہلکاروں سے جواب طلب کرے اور ان کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی بھی کی جائے لیکن یہ معاملہ چونکہ اب ویڈیو شواہد، گواہوں کے بیانات اور ایف آئی آر کے متن کی صورت میں عام ہو چکا ہے، اس لیے متعلقہ فوجیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی کے بارے میں فوج کی وضاحت بے حد ضروری ہے۔ اس بیان میں اس نکتہ کی اہمیت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سول معاملات میں فوجی اہلکاروں کو پولیس کارروائی میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اگر پولیس کسی زیادتی کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے تدارک کے لیے وہی مروجہ قانونی طریقہ اختیار کیا جائے جو سب شہری اختیار کرتے ہیں۔
کسی بھی تنازعہ میں صرف ایک فریق پورا سچ بیان نہیں کرتا۔ دونوں کی بات سن کر کسی عدالت کو ہی سچائی کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ اگر رخصت پر گھر آیا ہوا کوئی فوجی اہلکار کسی تنازعہ کی وجہ سے پولیس کارروائی کا نشانہ بنتا ہے تو اس کی حیثیت عام شہری ہی کی ہوگی۔ کیوں کہ متعلقہ اہلکار نہ تو اس وقت یونیفارم میں تھا اور نہ ہی کسی سرکاری ڈیوٹی پر متعین تھا کہ پولیس کارروائی سے اس کے فرائض بجا لینے میں کوئی خلل واقع ہوا ہو۔ اس شخص نے اپنے ساتھیوں کو مدد کے لیے بلایا جس کے بعد یہ افسوسناک واقعہ دیکھنے میں آیا۔ فوج کے ڈسپلن میں اس کی اجازت نہیں ہو سکتی کہ چھٹی پر گئے ہوئے کسی اہلکار کی مدد کے لیے اس کے ساتھی فوجی ساز و سامان کے ساتھ روانہ ہوں اور سول معاملات کی نگران پولیس فورس پر حملہ کر دیں یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں۔ اس معاملہ میں پولیس کو اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف کارروائی پر مجبور کرنے سے فوج کی شہرت بحال نہیں ہوگی۔ اس کے لئے اسے پوری شفافیت سے ان تمام فوجیوں کے خلاف ہونے والی کارروائی کی تفصیلات عام کرنی چاہئیں جو اس افسوسناک سانحہ میں ملوث تھے تاکہ مستقبل کے لیے بھی یہ اصول طے ہو جائے کہ فوجی اہلکار اپنے طور پر کسی سول تنازعہ میں ملوث ساتھی کی مدد کے لیے اپنی سرکاری حیثیت اور اسلحہ وغیرہ کا استعمال نہیں کر سکتے۔ خاص طور سے یہ واضح ہونا بے حد ضروری ہے کہ فوجی اہلکاروں کی قیادت کس رینک کا افسر کر رہا تھا اور کمان چین میں کس افسر نے پولیس تھانے کے خلاف اس کارروائی کی اجازت دی تھی۔
ملک کے دو اداروں کے درمیان ہونے والے اس افسوسناک واقعہ کو متعلقہ قواعد و ضوابط کے مطابق طے ہونا چاہیے۔ اس معاملہ پر سیاسی بیان بازی کرنے سے گریز بے حد ضروری ہے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اس وقت چونکہ ’حقیقی آزادی‘ کے لیے ملک میں انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے، اس لیے اس نے بہاولنگر واقعہ کی تمام تفصیلات سامنے آئے بغیر ہی اس پر دھواں دار بیان بازی شروع کردی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھے ججوں کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے بارے میں بھی دیکھنے میں آئی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ ان ججوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے نہیں بلکہ تحریک انصاف سے مدد مانگی ہو۔
بہاولنگر سانحہ پر تحریک انصاف کے لیڈر حماد اظہر نے اسی قسم کا رویہ اختیار کیا ہے۔ انہوں نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’آئی جی پنجاب اور فارم 47 کی جعلی وزیراعلی اس واقع کو اپنی شرمندہ وضاحت میں معمولی بات کہہ کر رد کر رہی ہیں۔ الٹا زخمی پولیس اہلکاروں پر ہی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے۔ ایسی وضاحت دینے سے پہلے آئی جی کو استعفی دینا چاہیے تھا لیکن انہیں تمغہ بلاوجہ تو نہیں ملا‘ ۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے ایکس پر ایک طویل بیان میں اس واقعہ کو ملک میں پھیلی ہوئی انارکی اور طبقاتی تقسیم کا مظہر قرار دیا۔ اور اسے تحریک انصاف کی حکومت و ریاست سے شکایات کے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔
بہاولنگر واقعہ کو میرٹ پر پرکھنے اور تمام قصور واروں کے بارے میں متوازن رویہ اختیار کرنے کی بجائے تحریک انصاف نے بظاہر فوج کے خلاف اپنے بیانیہ کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرز عمل سے تو یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی عوامی حمایت سے ملک میں جو انقلاب برپا کرنے کے دعوے کرتی ہے، اسے درحقیقت ملک میں رونما ہونے والے بعض تنازعات اور شکایات کو اچھال کر حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام کی طاقت پر بھروسا کرنے والی کسی پارٹی کو اس قسم کے گھٹیا سیاسی ہتھکنڈوں سے گریز کرنا چاہیے۔ اس سے اس کی سیاسی پوزیشن تو بہتر نہیں ہوگی لیکن اس کے عزائم کے بارے میں بے یقینی میں ضرور اضافہ ہو گا۔
( بشکریہ : کاروان ناروے )
فیس بک کمینٹ