کار ساز قتل عام کی گیارہویں برسی پر لکھنے بیٹھا تو مجھے راﺅ دلمیر یاد آگئے۔آپ میں سے بہت کم لوگ انہیں جانتے ہوں گے اور جانتے بھی کیسے وہ لیڈر تو نہیں سیاسی کارکن تھے اور کارکنوں کو تو گم نامی میں ہی رہنا اور پھر خاموشی سے رخت سفر باندھنا ہوتا ہے۔میری بھی ان کے ساتھ کوئی زیادہ شناسائی نہیں تھی۔گزشتہ برس انہی دنوں ان کے ساتھ پہلا رابطہ ہوا اور پھر چند ماہ بعد ایک روز اچانک کسی تعزیتی خبر کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ راﺅ دلمیر اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔وہ پیپلز پارٹی کے ان بہت سے لوگوں میں سے ایک تھے جو 18 اکتوبر2007ء کو کار ساز میں ہونے والے قتل عام میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔راﺅ ساجد بھی ان کے ساتھ تھے ان دونوں کا تعلق ملتان سے تھا۔گزشتہ برس 18 اکتوبر سے پہلے میں نے ان شہدا اور زخمیوں کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر خبر دی تھی جن کا تعلق ملتان یا سرائیکی خطے کے دوسرے شہروں سے تھا۔اس خبر کی تیاری کے دوران معلوم ہوا کہ راﺅ ساجد اوررانا دلمیر اس دھماکے میں زخمی ہوئے تھے اور کئی روز کراچی میں زیر علاج رہنے کے بعد ملتان واپس آئے تھے۔راﺅ ساجد سے تو ملاقاتیں مختلف تقریبات اورجلسوں میں ہوتی رہی تھیں۔وہ پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ کے دوران وہ کافی متحرک رہے لیکن یہ رانا دلمیر کون تھے ان کے بارے میں مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔پھر راﺅ ساجد سے ہی ان کا فون نمبر حاصل کیا۔رانا دلمیر قادر پور راں میں رہتے تھے ان کے ساتھ ٹیلفون پر طویل گفتگو ہوئی انہوں نے اس روز کے دلخراش واقعات بھی سنائے۔انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنی طویل وابستگی کا ذکر کیا انہیں پارٹی سے کوئی شکوہ نہیں تھا نہ انہوں نے نظر انداز کیے جانے کا گلہ تھا۔بس انہیں بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے آزاد پھرنے کا قلق تھا۔مجھے کبھار ان کا فون موصول ہوتا تھا، وہ بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور کل اور آج کی سیاست کا موازنہ کرتے اور پیپلز پارٹی کے زوال پر ملال کا اظہار کرتے تھے۔آج یوم کار ساز قتل عام پر راؤ صاحب یاد آ گئے، وہ آئندہ بھی اسی روز یاد آیا کریں گے۔18 اکتوبر 2007ء کا دن ایک غیر معمولی دن تھا۔پاکستان کی تاریخ کے ایسے بہت سے دنوں میں سے ایک کہ جو امید کی کرن کے ساتھ طلوع ہوتے ہیں۔اس دن کا کئی ماہ سے انتظار کیا جا رہا تھا اور انتظار کیوں نہ ہوتا پاکستان پیپلز پارٹی کی چئر پرسن اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو طویل جلاوطنی کے بعد وطن واپس آرہی تھیں۔تاریخ دوسری مرتبہ اپنے آپ کو دہرانے جارہی تھی۔پہلی مرتبہ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کے دور میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد لندن سے وطن واپس آئی تھیں۔دس اپریل 1986ء کو لاہور ائر پورٹ پر ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا۔لاکھوں افراد اپنی قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ملک بھر سے لاہور پہنچے تھے۔وہ ایک تاریخ ساز استقبال تھا۔تاحد نظر سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے۔امید اور یقین کے ملے جلے جذبات کے ساتھ لوگ آمریت سے نجات کے لیے سڑکوں پر آئے تھے۔اکیس برس بعد پھر وہی منظر تھا۔مقام اس مرتبہ لاہور نہیں کراچی تھا۔عہد ایک اور فوجی آمرجنرل پرویز مشرف کا تھا اور بے نظیر بھٹو آٹھ سالہ جلاوطنی کے بعد دبئی سے کراچی پہنچ رہی تھیں۔انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔پیپلز پارٹی ،اے این پی اور ایم کیو ایم کو انتخابی مہم کے دوران شدید مشکلات کا سامنا تھا۔جلسوں میں بم دھماکے ہو رہے تھے اور روشن خیال جماعتوں کو انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے خود کش بمبار میدان میں لائے جا چکے تھے۔عام تاثر یہ تھا کہ 1986ء اور2007ء کے پاکستان میں زمین آسمان کافرق ہے۔تجزیہ نگار یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم ہوچکی ہے۔بم دھماکے ہو رہے ہیں۔ایسے میں بے نظیر بھٹو کا 1986ء جیسا استقبال نہیں ہوسکے گا۔دوسری طرف 18 اکتوبر سے پہلے ہی ملک بھر سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے قافلے کراچی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔گیارہ اکتوبر کی رات سے ہی ٹی وی چینلز نے استقبالیہ جلسوں اور کراچی کی شاہراہوں سے براہ راست کوریج شروع کردی۔دنیا بھر میں لوگوں کی نظریں ٹی وی سکرینوں پرتھیں۔بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا لمحہ لمحہ ٹیلی کاسٹ کیا جا رہا تھا۔
دبئی میں روانگی سے قبل بچوں سے ملاقات اور آفات سے تحفظ کی ضمانت سمجھا جانے والا امام ضامن بازو پرباندھ کر بے نظیر بھٹو ائرپورٹ روانہ ہوئی تو صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بھی طیارے میں موجود تھی۔ایک ایک پل دکھایا جارہا تھا۔راستے میں انٹر ویوز کیے جارہے تھے اور صحافی تجزیے دے رہے تھے۔خود بے نظیر بھٹو کو بھی یقین نہیں تھا کہ لوگ اتنی بڑی تعداد میں ان کے استقبال کے لیے آئیں گے۔انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔طیارہ کراچی ائرپورٹ پر لینڈ کرگیا۔ کراچی کی فضائیں جئے بھٹوجئے بے نظیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھیں اور پھر وہ لمحہ آیا جسے ہمیشہ کے لیے فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں نے محفوظ کرلیا۔طیارے کا دروازہ کھلا اور بے نظیر بھٹو قرآن پاک کے سائے میں طیارے سے باہر آئیں۔
انہوں نے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر آسمان کی جانب دیکھا۔آنسو چھلکے، ہاتھ دعا کے لیے اٹھے، ان آنسوﺅں میں خوشی تھی اور چہرے پر تشکر کے جذبات۔یہی وہ لمحہ تھا جسے بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت کے لیے محفوظ کروایا۔میں ٹی وی پر یہ منظردیکھ رہا تھا جونہی بے نظیر بھٹو نے چھلکتی آنکھوں کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ اٹھائے، میں نے بے اختیار اپنے ساتھ بیٹھے دوست سے کہا ’یہ ہے کل کی تصویر، یہی تصویر، یہی لمحہ آج کا حاصل ہے۔‘ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ تصویر بے نظیر بھٹو نے محض ایک دن کے لیے نہیں بلکہ آنے والے تمام دنوں کے لیے بنوائی تھی۔
انیس اکتوبر کے اخبارات یہ تصویر شائع نہیں کر سکے تھے کہ اس روز استقبالیہ ہجوم کی بجائے لاشوں اور تباہ شدہ ٹرک سے باہر آتی ہوئی بے نظیر بھٹو کی تصویر اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ائر پورٹ سے باہر آنے میں بے نظیر بھٹو کو کئی گھنٹے لگ گئے۔انہیں جلسہ گاہ تک لے جانے کے لیے ایک بلٹ پروف ٹرک تیار کیا گیا تھا جو پیپلز پارٹی کے پرچموں کے ساتھ آراستہ تھا۔ٹرک نے چیونٹی کی رفتار کے ساتھ سفر کا آغاز کیا۔رقص کرتے، ڈھول بجاتے، پیپلز پارٹی کے جھنڈے لہراتے کارکن ٹرک کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔کارکنوں کے ایک کفن پوش گروپ نے بے نظیر بھٹو کے ٹرک کو حصار میں لے رکھا تھا۔یہ کارکن ’جانثاران بے نظیر بھٹو‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔یہ فورس بے نظیر بھٹو کی حفاظت کے لیے تیار کی گئی تھی اور اس جلوس میں وہ اپنی قائد کے لیے انسانی ڈھال کا کردار ادا کر رہے تھے۔میں مسلسل ٹی وی سکرین پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور 10 اپریل 1986ء کے مناظر ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔میں اس استقبالیہ جلوس کا عینی شاہد تھا۔
ایک نوجوان کی حیثیت سے میں نے بھی بہت سے خواب آنکھوں میں سجائے اپنی قائد کا استقبال کیا تھا لیکن اس وقت میرے دل میں کوئی خوف نہیں تھا، مجھے کوئی دھڑکا نہیں تھا۔یہ وسوسہ نہیں تھا کہ نجانے کب کہاں سے کوئی دہشت گرد آکر قہقہوں کو آنسوﺅں تبدیل کردے۔چند روز پہلے تک کے بہت سے واقعات مجھے یاد آرہے تھے۔پیپلزپارٹی کے جلسوں میں دھماکے، دھاڑیں مارتے زخمی کارکن، شور مچاتی ہوئی ایمبولینسیں اور چیخ و پکار کرتے ہوئے اینکر پرسن ۔۔۔دھمال ڈالتے، ڈھول بجاتے اور نعرے لگاتے کارکنوں کو میں رشک کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔کتنے نڈر ہیں یہ لوگ جو اس ماحول میں بھی اوراس خوف کے عالم میں بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر جمہوریت کے خوابوں کی تعبیر لینے آئے ہیں۔ ’خیر ہوبس ۔۔۔ خیر ہو بس ۔۔۔‘ باربار زبان سے یہی ایک جملہ نکلتا تھا۔جلسہ مزار قائد کے قریب ہونا تھا۔جلوس کو ائر پورٹ سے شاہراہ فیصل تک آتے آتے کئی گھنٹے لگ گئے۔
رات کے 12 بجے کا وقت ہوگا جلوس اپنی منزل کی جانب گامزن تھاکہ جب ایک کبوتر کہیں سے آیا اور بے نظیر بھٹو کے کندھے پر بیٹھ گیا۔یوسف رضا گیلانی اور دوسرے قائدین ان کے ساتھ تھے۔کبوتر اپنی قائد کے کندھوں پر دیکھ کر کارکنوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہوگیا۔ٹی وی کیمرے بے نظیر بھٹو اور ان کے کندھے پر بیٹھے کبوتر کو فوکس کرنے لگے۔بے نظیرہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دیتی رہیں۔میں ایک رات پہلے بھی اسی طرح جاگتا رہا تھا۔تبصرے اور تجزیے سنتا رہا تھا۔دن بھر دفتر میں کام کیا اور پھر مسلسل ٹی وی دیکھتارہا۔میں جلسہ سننا چاہتا تھا۔رپورٹر بتا رہے تھے کہ جلسہ گاہ تک پہنچتے پہنچتے صبح ہوجائے گی۔میرا ذہن پھر ماضی میں چلا گیا۔دس اپریل 1986ء کو بھی جلوس نے جلسہ گاہ تک کا سفر کئی گھنٹوں میں طے کیا تھا۔سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔سوچا کہ اب آرام کرتا ہوں جلسے کی تفصیلات صبح اخبار میں پڑھ لوں گا۔میرے ذہن میں بے نظیر کی دعا مانگتی تصویر نقش تھی۔خیال تھا کہ صبح کے اخبار میں وہی تصویر نمایاں ہوگی۔بارہ بجے شب میں نے ٹی وی سوئچ آف کیا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ صبح سیاہ حاشیے والا اخبار میرا منتظر ہوگا۔پھر وہی ہوا جس کا دھڑکا تھا۔وہی ہوا جس کے خوف سے میں دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا۔ایک بجے شب رقص کرتے کارکنوں کے درمیان موت کا رقص شروع ہوگیا۔یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔ایک سو 77 کارکن شہید اور400 سے زیادہ رخمی ہوگئے۔شہدا اور زخمیوں میں بڑی تعداد ان جانثاروں کی تھی جو بے نظیر کے ٹرک کے گردڈھال بنے ہوئے تھے۔بے نظیر بھٹو اس سانحے میں محفوظ رہیں۔جلسہ گاہ کی طرف جانے والوں کو ایمبولینسوں کے ذریعے ہسپتال بھیج دیا گیا۔یہ ایک پیغام تھا بے نظیر بھٹو کے لیے، ایک انتباہ تھا کہ وہ الیکشن سے دور ہو جائیں۔ لیکن بھٹو کی بیٹی نے ڈرنے کی بجائے انتخابی مہم جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔
دو روز بعد ہی وہ سکیورٹی کی پروا کیے بغیر زخمی کارکنوں کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ گئیں۔اس سانحے نے کئی سوالات کو جنم دیا۔بے نظیر بھٹو کی جان کون لینا چاہتا ہے اور کیا یہ محض دھمکی ہے یا اس کے بعد کوئی اور سانحہ بھی منتظر ہے؟بے نظیر بھٹو نے اگلے روز پریس کانفرنس میں کہا کہ انتظامیہ انہیں سکیورٹی دینے میں ناکام ہوگئی۔انہوں نے غیر ملکی ماہرین سے اس سانحے کی تحقیقات کامطالبہ کیا مگر وزیر اعظم شوکت عزیز نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔حکومت کی جانب سے ایک مشتبہ حملہ آور کاخاکہ بھی جاری کیا گیا مگر بعد ازاں تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔اس سوال کاجواب بھی معلوم نہ ہوسکا کہ جلوس کے دوران سٹریٹ لائٹس کیوں بند کردی گئی تھیں۔بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے نام خط میں نہ صرف یہ کہ اس واقعے کی تحقیقات کامطالبہ کیا بلکہ تین افراد کو نامزد بھی کردیا۔خط میں کہا گیا تھا کہ سانحہ کارساز میں وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر اعجاز شاہ ملوث ہیں۔اس خط میں بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کو ملزم نامزد نہیں کیا تھا اور شاید اس لیے نہیں کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں یہ تحقیقات ممکن ہی نہ ہوتیں، یا شاید اس لیے کہ پرویز مشرف کو تو انہوں نے اپنے قتل کا ملزم نامزد کرنا تھا۔گیارہ سال بیت گئے۔پیپلز پارٹی کی حکومت اپنا پانچ سالہ اقتدار کرکے رخصت بھی ہوگئی مگر اس سانحے کے مجرموں کا سراغ نہیں مل سکا جنہیں بے نظیر بھٹو نے نامزد کیا تھا۔ان سے بھی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔پرویز الٰہی کی ق لیگ کو کچھ عرصہ تک کارکن قاتل لیگ کہتے رہے لیکن جب قیادت نے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں ق لیگ سے اتحاد کر لیا تو کارکن بھی خاموش ہو گئے۔کچھ عرصہ تک کارکن کارساز کے قریب شہدا کی یادگار پر پھول رکھتے رہے اور پھر یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔مگر راؤ دلمیر بولتا رہا۔وہ پوچھتا کہ ’آخر وہ کونسا وسیع تر قومی مفاد تھا جس کی وجہ سے بے نظیر کے قاتل گرفتار نہیں ہو سکے؟‘ اس کے بیشتر سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا تھا، میں خاموش رہتا۔کار ساز قتل عام کی یاد میں جب بھی کوئی تقریب ہوتی تھی، راؤ دلمیر اس میں ضرور شامل ہوتے تھے لیکن اس مرتبہ وہ اس سانحے کو یاد کرنے والوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ویسے بھی راؤ دلمیر کو کون جانتا ہے؟
( بشکریہ : لوک سجاگ )
فیس بک کمینٹ