کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم آج تک جنرل پرویز مشرف کو ہی غدار سمجھتے تھے۔ اور اس لیے سمجھتے تھے کہ اس نے ایک منتخب حکومت کاتختہ الٹا تھا، منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے الگ کیا، اسے حراست میں لیا اور جلاوطنی پر مجبور کیا۔جنرل پرویز مشرف کے دیگر جرائم ہیں کہ انہوں نے انسانی حقوق پامال کیے، ایمرجنسی نافذ کی، ججوں کو نظربند کیا، وکلا کو حراست میں لیا اور کراچی سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں لوگوں کو قتل پر اپنی طاقت کا اعلان کیا تھا۔اس نے نامور بلوچ رہنما اکبر بگٹی کی جان لی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام بھی اسی پر ہے۔پرویزمشرف نے صحافت کو پابند سلاسل کیا۔ میڈیا پر پابندیاں لگائیں اور نشریات بند کر دیں۔
یہ محض الزامات نہیں، ان میں سے بیشتر مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اور ایک مقدمے میں تو اسے سزا بھی سنائی جاچکی ہے۔یہ الگ بات کہ بعد میں سزا سنانے والی عدالت ہی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔میری بحث پرویز مشرف کےغدار ہونے یا نہ ہونے پر نہیں۔فی الحال معاملہ یہ ہے کہ مجھے گزشتہ روز معلوم ہوا کہ اصل غدار تو مولانا فضل الرحمن ہیں اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ بھی چلایا جاسکتا ہے۔سچ پوچھیں تو مولانا فضل الرحمن کو غدار قرار دیے جانے پر مجھے قطعی طورپر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ہاں میں اس شش وپنج میں ضرور پڑ گیا کہ غداروں کی طویل فہرست میں اگر مولانا فضل الرحمن کو شامل کرلیں گے تو باقی غداروں کو کہاں بھیجیں گے؟
لفظ غدار”غدر“ سے مشتق ہے۔غدر کے معانی بلوہ، ہنگامہ آرائی وغیرہ ہیں اور یہ لفظ خاص طورپر انگریز سامراج کی طرف سے1857ء کی جنگ آزادی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا گیا تھا۔اس دور میں برطانوی استعمارکے خلاف جدوجہد کو غدر اور اس جدوجہد میں حصہ لینے والوں کو غدار کہا جاتا تھا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والے جن افراد کو غدار قراردیا گیا تھا کیا وہ واقعی غدار تھے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ انگریز کے ’غداروں‘ سے عوام نے ٹوٹ کر محبت کی اور انہیں اپنا ہیرو بنایا کہ یہ آزادی کی جنگ لڑرہے تھے، ایک الگ وطن کی جنگ۔ایک ایسے خطے کے حصول کی جنگ جہاں سب کو ان کے حقوق حاصل ہوں۔’غداری‘ کا عمل قیام پاکستان کے بعد بھی اسی تسلسل اور اسی تناظر میں آگے بڑھتا رہا۔ استحصالی قوتیں جنہیں غدار قرار دیتی تھیں عوام ان سے محبت کرتے تھے۔یہ کہانی آج تک اسی انداز اور اسی زاویے سے جاری ہے اور پابندیاں لگانے والوں، حقوق غصب کرنے والوں اور غداری کے تمغے بانٹنے والوں کو آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ عوام غداروں سے آخر محبت کیوں کرتے ہیں؟ہر دور اور ہر زمانے میں نئے ’غدار‘ متعارف کروائے گئے اور آزمودہ غداروں کو بعد ازاں محب وطن بھی قراردیا جاتا رہا۔ایک عہد میں جسے غدار قراردیا گیا بعد کے دنوں میں معلوم ہوا کہ وہ تو محب وطن تھا۔
اس فہرست کی تیاری قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی۔جب باچا خان کو سرحدی گاندھی قرار دے کر غدار کہا گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے پھر پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔بعد کے غداروں میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا نام سر فہرست ہے۔انہیں غدار قرار دینے والا کوئی اور نہیں اس وقت کا فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان تھا جسے ہم آج بھی محب وطن سمجھتے ہیں۔محترمہ فاطمہ جناح کے بعد غداری کا تمغہ شیخ مجیب الرحمن کے سینے پر داغا گیا۔یہ وہی شیخ مجیب الرحمن تھے جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو کر ڈکٹیٹر ایوب خان کے خلاف ان کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا۔غداروں میں ذوالفقارعلی بھٹو، ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو، ان کے بچے شاہنواز بھٹو اور مرتضی بھٹو شامل کیے گئے۔غداروں کے اس خاندان کے علاوہ سندھ میں یہ اعزار جی ایم سید کو بھی حاصل ہوا۔وہی جی ایم سید جنہوں نے 1943ءمیں برطانیا کے زیرانتظام قائم ہونے والی سندھ اسمبلی میں قیام پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کروائی تھی۔بھٹو خاندان اور جی ایم سید کے بعد غداروں کی فہرست میں پنجاب سے نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو شامل کیا گیا۔ ان سے پہلے80ء کے عشرے میں جنرل ضیا نے جس الطاف حسین کو پیپلزپارٹی اور جی یو پی کا ووٹ بینک خراب کرنے کے لیے متعارف کروایا تھا آج وہ بھی سکہ بند غداروں کی فہرست میں شامل ہے اور میڈیا سے انہیں مکمل طور پر آﺅٹ کرکے انہی کی پارٹی میں سے کچھ ’حقیقی محب وطن‘ تلاش کرلیے گئے ہیں۔
منظور پشتین ،علی وزیر،محسن داوڑ نئے غدارہیں۔یہ وہی غدارہیں جنہوں نے چند ماہ پہلے ہی فاٹا کے انضمام کی تاریخی آئینی ترمیم متعارف کروائی تھی جسے ترمیم کو ریاست کی بھرپور تائید حاصل تھی۔سمجھ نہیں آتا کہ جن محب وطن اراکین اسمبلی نے یہ تاریخی ترمیم منظور کروائی تھی وہ اچانک ایسے غدار کیوں قرارپائے کہ جن کا گرفتاری کے بعد پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہ ہوسکا۔ان تمام سوالات کا جواب سوچنے بیٹھیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بیشتر غداروں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ’محب وطن‘ کی حیثیت سے ہی کیا تھا۔وہ جب تک مقتدر قوتوں کی بات مانتے رہے ان کا سیاسی سفر سہولت کے ساتھ جاری رہا اور جیسے ہی انہوں نے اپنی سوچ یا عوام کی منشا کے مطابق چلنے کی کوشش کی تو نافرمان، ملک دشمن اور غدار قرار پائے۔طے یہ ہوا کہ جب ’محب وطن‘ اپنی اوقات سے نکل جاتے ہیں تو ان کا حب الوطنی کی فہرست سے بھی نکل جانا ضروری ہوتا ہے۔سو آئیے ہم سب عہد کرتے ہیں کہ غداری سے بچنے کے لیے اپنی اوقات میں رہیں گے۔
( بشکریہ :سجاگ لاہور )
فیس بک کمینٹ