کوئی ایک سال پہلے میں نے روئیداد خان صاحب کو اپنی ایک کتاب کے سلسلے میں ٹیلی فون کیا جو ’صحافت اور سیاست‘ کے بارے میں ہے مگر بتایا گیا کہ وہ بیمار ہیں دوسرے دن ان کا خود ٹیلی فون آ گیا، ’’سوری مظہر، یار بونس پر چل رہا ہوں تم نے فون کیا تھا‘‘ میں نےکہا، آپ کیوں شرمندہ کر رہے ہیں سوری کہہ کر۔ اورپھر تقریباً 40 منٹ تک گفتگو ہوئی جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ وہ ہماری سیاست ، بیوروکریسی کی متنازع تاریخ کے عینی شاہد ہیں فوجی ادوار سے لے کر سویلین حکومتوں تک۔ وہ 1949 کے ان 24 بیوروکریٹ میں سے ایک تھے جنہوں نے پاکستان سول سروس کا پہلا گروپ جوائن کیا۔ 12 مغربی پاکستان کے اور 12 مشرقی پاکستان کے۔
ان کی چند یادیں اور باتیں جو انہوں نے مختلف اوقات میں مجھ سے شیئر کیں پیش خدمت ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ ایک متنازع شخصیت رہے۔ ’’مجھے جب پہلی بار ڈپٹی کمشنر پشاور بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو ایک ہی ہدایت تھی کہ سرخوں پر نظر رکھنی ہے چاہے وہ سرخ پوش تحریک کے لوگ ہوں، کمیونسٹ پارٹی کے یابائیں بازو نظریات رکھنے والے صحافی۔‘‘ میں نے کہا، مطلب قیام پاکستان کے بعد ہی یہ پالیسی بنالی گئی تھی۔ ’’ہاں اور جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہم ایک نظریاتی ملک ہیں اور یہاں بائیں بازو کی گنجائش نہیں نہ ہی آزادی اظہار کی۔ لہٰذا ایسے سارے قوانین برقرار رکھے گئے جو انگریز تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے لایا تھا۔ ہم نے جو سلوک بنگالیوں کے ساتھ کیا وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا، خان صاحب کبھی آپ نے ان اقدامات کیخلاف اعلیٰ افسران سے بات نہیں کی۔ ہنس کر کہنے لگے، ’’میں ایک سرکاری ملازم تھا ،بس سروس کرتا رہا کبھی کبھار کوشش کرتا مگر ڈانٹ پڑ جاتی تھی، اپنے کام سے کام رکھو۔‘‘
گو کہ وہ اس بات سے انکاری تھے مگر 90 کے انتخابات میں ایوان صدر میں ایک خفیہ الیکشن سیل، سابق صدر اور روئیداد خان کے ساتھی غلام اسحاق خان نے تشکیل دیا تھا جس میں روئیداد خان بھی شامل تھے۔ ’’یہ بات درست نہیں میں نے کبھی کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا،‘‘ اس بار میں نے ہنس کر کہا، ’’خان صاحب کون سا ایسا مارشل لا ہے جس کی خدمت آپ نے نہیں کی۔‘‘ ’’یار، میں نے صرف نوکری کی ہے ورنہ جلد ہی نوکری جاتی۔‘‘
خان صاحب نے سرخ پوش تحریک اور نیشنل عوامی پارٹی کیخلاف کارروائیوں میں بھی حصہ لیا اور پھر یوں بھی ہوا کہ وہ نہ صرف ایک وقت میں عوامی نیشنل پارٹی میں گئے بلکہ خان عبدالغفار خان کے انتقال پر ان کے جنازے میں بھی شرکت کی۔ ایسا بھی ہوا کہ وہ صحافیوں اور اخبارات کیخلاف اقدامات کا بھی حصہ رہے خاص طور پر ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور پھر 3 نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں صف اول کے ٹی وی اینکرز اور چینلز پر پابندی لگائی توصحافیوں کی 90 روز کی تحریک میں وہ تقریباً ہر دوسرے روز میلوڈی پرقائم احتجاجی کیمپ میں اور جلوسوں کا حصہ رہے۔ مہناج برنا، احمد فراز، ناصر زیدی کے ساتھ آکر شریک ہوئے۔ انہوں نے 12 اکتوبر 1999 کے بعد جنرل مشرف کی حکومت کو اپنی خدمات پیش بھی کیں اور بعد میں وکیلوں کی تحریک میں شرکت بھی کی۔ ان کی آخری جماعت پاکستان تحریک انصاف تھی۔ انہوں نے آمرانہ ادوار کو بھی اپنی سروس پیش کی اور اہم ترین عہدے لیے مثلاً سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری اطلاعات وہ بھی ایوب اور ضیاء کے دور میں اور نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی وہ ’خدمات‘ انجام دیتے رہے۔
مگر اب جو واقعہ بقول خود روئیداد خان ان کی زندگی کا ناقابل فراموش ہے وہ 4 اپریل 1979 کی رات کا واقعہ ہے۔ گو کہ وہ تردید کرتے ہیں کہ انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے ’ڈیتھ وارنٹ‘ پر دستخط کیے مگر بطور سیکرٹری داخلہ اس وقت سب سے پہلے سرکاری افسران میں جیل میں موجود افراد میں، کہتے ہیں وہ بھی تھے۔ جو واقعہ انہوں نے مجھے اس رات کا سنایا وہ اگر درست ہے تو وہ اس وقت کی پی پی پی کی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ذاتی طور پر اس بات کو سن کر مجھے تعجب اس لیے بھی نہیں ہوا کہ ان کرداروں کی بہت سی کہانیاں خود بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیربھٹو سے میں نے سنی ہیں۔ میں نے 4 اپریل کے حوالے سے ماضی میں بہت کچھ لکھا ہے دونوں خواتین رہنمائوں کے انٹریوز سمیت مگر جو بات روئیداد خان صاحب نے سنائی وہ انتہائی حیران کن اور سبق آموز ہے۔ ’’مظہر، یہ بات آج میں تمہیں پہلی بار بتا رہا ہوں پہلے بھی کسی کو نہیں بتائی۔ 4 اپریل کو کوئی 4 یا 5 بجے کا وقت ہوگا ظاہر ہے وہ سونے والی رات نہیں تھی۔ بہرحال میں اس وقت اپنے بیڈروم میں تھا جب گارڈ نے آ کر اطلاع دی کہ جناب عبدالحفیظ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو آئے ہیں۔ میں حیران رہ گیا مگر گارڈ سے کہا انہیں کمرے میں یعنی ڈرائنگ روم میں لے آئو۔ ظاہر ہے اس وقت وہ چائے پینے نہیں آئے تھے بس سلام کے بعد ان میں سے ایک نے غالباً پیرزادہ صاحب نے صرف یہ پوچھا،کیاپھانسی ہوگئی میں یہ کہتے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گیا،جی، تھوڑی دیر پہلے۔ دونوں میرے قریب آئے اور بس یہ کہتے ہوئے نکل گئے، بڑا افسوس ہوا ہماری تاریخ کا ایک باب اختتام پذیر ہوا۔ ’’میں توقع کر رہا تھا کہ وہ کچھ مزید تفصیل معلوم کریں گے مگر وہ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر، افسوس کرکے روانہ ہوگئے۔‘‘
انہوں نے ایک بار یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ جس طرح کی حکومتیں قیام پاکستان کے پہلے 10 سال میں تیزی سے تبدیل ہوئیں اور جوکچھ بنگال میں اس دوران ہوا اس نے پاکستان کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔ ’’ایوب خان کی بحیثیت آرمی چیف وزارت دفاع پر تقرری شاید بڑی بنیادی غلطی تھی۔ 1958 کا مارشل لا لگا تو میرے بنگالی سول سرونٹ دوست، جس نے میرے ساتھ ہی 1949 میں پاکستان سول سروس جوائن کی ،نے کہا تھا کہ ہماری رسائی اسلام آباد تک تو تھی اب پنڈی کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔‘‘
ابھی کالم ختم ہی کر رہا تھاکہ جنگ کے ادارتی صفحہ کے انچارج حیدر تقی صاحب کے انتقال کی خبر نے پچھلے کئی سال کی رفاقت ، شفقت اور بے تکلفی کے ان گنت واقعات کی یادتازہ کردی۔ میں ہمیشہ ڈیسک پر کام کرنے والوں کو صحافت کے خاموش سپاہی کہتا ہوں۔ تقی صاحب کا تعلق نہ صرف اس ملک کے علمی و ادبی گھرانے سے تھاجن کے والد سید محمدتقی جنگ اخبار کے مدیر بھی رہے بلکہ رئیس بھائی سے لے کر جون بھائی تک کون ہے جو اس گھرانے سے واقف نہیں۔ آخری بار ان سے ایک ہفتہ پہلے فون پر بات ہوئی تو اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے، ’’بھائی مظہر، کالم دفتر پہنچا دینا،کچھ دن کی چھٹی پر ہوں۔ گویا، زندگی رہی تو ملاقات رہے گی۔‘‘ گویا لفظ اس گھرانے میں اکثر استعمال ہوتے سنا ہے بس ’گویا‘ سے آخری بار یہیں بات ہوئی تھی۔ ایک اچھا انسان، صحافی نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ ان کے اہل خانہ کو صبر عطا کرے۔ آمین۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ