میں تین برس سے مختلف بیماریوں کا شکار ہوں ۔ لگ بھگ ڈیڑھ برس قبل بیماری کا پتا چلا کہ ہے کیا۔ اس سے لڑائی شروع کر دی تاکہ گور میں اترنے تک زیادہ سے زیادہ جی سکوں ۔ جی جانے میں میرے دوستوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے ۔ علاج کا تمام خرچ رؤف کلاسرہ صاحب اٹھا رہے ہیں جو کبھی مجھ سے ملے بھی نہیں ۔ نفسیاتی علاج ڈاکٹر اختر علی سید نے کیا ۔ ان سے فقط ایک ملاقات ہوئی گزرے نومبر میں ۔ قلبی راحت کے لئے اسما بتول ہر لمحہ ساتھ رہیں اور نبراس پر میں خود نازل رہتی رہی اور آئندہ بھی یہی ارادہ ہے کہ اس سکھ کا سانس نہیں لینے دینا ۔
عمران علی نے بھی خوب ساتھ نبھایا ۔ باقی تمام دوستوں نے بھی بہت پیار دیا ۔ رضی صاحب نے سب سے آخر میں انٹری ماری اور چھا گئے ٹھا کر کے ۔ جان ہتھیلی پر رکھ کر میرا خواب پورا کیا ۔ میری کتاب چھاپنا ہرگز آسان کام نہ تھا۔ مگر وہ ڈرے نہیں مگر ڈٹے رہے میرے ساتھ ہی۔ فصیح اور رائے عرفان نے میرے کچھ بچوں والے شوق تھے جنہیں پورا کیا ۔ مگر جو نام گئے کل اور آج بھی سنہرے حروف سے میری کتاب دل پر لکھا ہے وہ ابصر ارشاد کا ہے ۔ میرے بھتیجے کا دوست کب میرے سٹوڈنٹ سے سرپرست بنا خبر ہی نہیں ہوئی ۔ بہت محبت سمیٹی میں نے ۔ بیماری کوئی زیادہ بھیانک نہیں سو بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیا ہے ۔ البتہ عمران علی اور رؤف کلاسرہ کو میں نے خود بتایا ۔ باقی جن کا ذکر کیا ہے شاید کسی دوسرے سے انہیں معلوم ہوا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتی ۔
آج کل حملہ پھر کیا ہوا ہے مرض نے سو بہت کمزوری محسوس ہوتی ہے ۔ وزن میں دس کلو کا اضافہ ہوا ہے جو ایک اور مرض ہے اپنی جگہ ۔ خیر جینا اتنا ہی ہے جتنا لکھا ہے لیکن اپنی مرضی کا جینا اصل جینا ہے جس کے لئے تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے لیکن بیماری کی تکلیف ذرا کم ہی آئے تو کیا ہی سہانی زندگی ہو۔ بھرپور زندگی گزارنے کی متمنی ۔
فیس بک کمینٹ