جرنیلی سڑک پر اٹک پنجاب کا آخری ضلع ہے۔ اس سے آگے ضلع نوشہرہ سے خیبر پختون خوا کی حدود شروع ہوتی ہے۔ ان دو اضلاع کے زمینی اتصال ہر ہمارے آبی نظام کا ایک اہم سنگ میل واقع ہے۔ یہاں دریائے سندھ میں دریائے کابل آن ملتا ہے۔ دونوں دریاؤ ں کی آبی کثافت میں فرق کے باعث کچھ دور تک دونوں دریائی دھارے الگ الگ دکھائی دیتے ہیں اور پھر یک رنگ ہو جاتے ہیں۔ ہماری قوم نے اس منظر کا ایک عکس ریڈیو کی نشریاتی لہروں پر بھی دیکھ رکھا ہے۔
5 جولائی 1977 کی صبح تھی۔ چند گھنٹے قبل نصف شب کے ہنگام فوجی کمانڈوز نے وزیراعظم ہاؤس میں گھس کر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کر لیا تھا۔ سیکرٹری اطلاعات مسعود نبی نور کو ہدایت کی گئی کہ وہ یہ خبر لے کر خود ریڈیو پاکستان جائیں تاکہ اسے صبح چھ بجے کے بلیٹن میں نشر کیا جا سکے۔ سیکرٹری اطلاعات ریڈیو پاکستان کے نیوز سٹوڈیو پہنچے تو چھ بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔ خبر کی نوعیت اس قدر حساس تھی کہ ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر نیوز نے براہ راست اعلیٰ عسکری حکام سے خبر کی تصدیق چاہی۔ اس دوران چھ بجے کا نیوز بلیٹن شروع ہو گیا۔ پہلی خبر میں مسٹر بھٹو کا اعلان سنایا گیا کہ حکومت اور قومی اتحاد میں سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ اسی بلیٹن کی آخری خبر میں قوم کو بتایا گیا کہ مسلح افواج نے آج صبح ملک کا نظم و نسق سنبھال لیا ہے۔ سابق وزیراعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو سمیت پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے اہم رہنماؤ ں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ ہماری تاریخ کا یہ نیوز بلیٹن اٹک کے مقام پر ایک دھارے میں بہتے دو الگ الگ رنگ لیے ہوئے تھا۔ راقم اس صبح حسب معمول کمنڈل اور کٹورا پکڑے دودھ اور دہی خریدنے جا رہا تھا۔ اس نے یہ خبر گلی سے گزرتے ہوئے کسی گھر کی کھڑکی سے آتی ریڈیو کی آواز کے ذریعے سنی تھی۔
بائیس برس بعد 12اکتوبر 1999 کی شام ریڈیو اور ٹیلی ویڑن پر فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کی سبک دوشی کا اعلان کیا گیا اور پھر کئی گھنٹوں کے لیے ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کی نشریات بند ہو گئیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بے خبری کے ان طویل گھنٹوں پر محیط خاموشی کے دوران ملک پر کس کی حکومت تھی۔ رات تین بجے ٹیلی ویڑن کی نشریات بحال ہوئیں تو قوم نے نئے حکمران کا درشن کیا جو بزبان انگریزی دبنگ لہجے میں اپنی تشریف آوری کا اعلان کر رہے تھے۔ یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ سری لنکا سے واپس آنے والے طیارے میں پرویز مشرف ریٹائرڈ جنرل تھے لیکن کراچی ایئرپورٹ پر قدم رکھا تو ملک کے چیف ایگزیکٹو بن چکے تھے۔ پرویز مشرف صدر تھے اور نہ وزیراعظم۔ انہیں بوجوہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کہلانا بھی پسند نہیں تھا چنانچہ قبلہ مرحوم کے لیے کاروباری اداروں سے منسوب چیف ایگزیکٹو کی اصطلاح تراشی گئی۔
اکتوبر 58 کے بارے میں جنرل (ر) مجید ملک نے خود گواہی دے رکھی ہے کہ وہ بطور جونیئر فوجی افسر اٹیچی کیس میں مارشل لا کے نفاذ سے متعلقہ احکامات کا پلندہ رکھے ٹرین کے ذریعے پنڈی سے کراچی گئے تھے۔ الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ یحییٰ خان اور ان کے ٹولے نے ایوب خان کی الوداعی تقریر کی ریکارڈنگ ایک میز کے گرد بیٹھ کر بڑے انہماک سے سنی تھی۔
گزشتہ صدی میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سرکاری تسلط تھا۔ 1964 میں نیشنل پریس ٹرسٹ قائم ہوا تو اخبارات میں دو دھارے نمودار ہو گئے۔ ٹرسٹ کے اخبارات سرکاری فرمان تھے جبکہ نجی اخبارات میں صحافت کی کچھ رمق نظر آتی تھی۔ ٹرسٹ کے اخبارات میں ملازمت سرکارکی عنایت سمجھی جاتی تھی۔ نجی اخبارات میں کام کرنے والے صحافیوں پر آئے روز عتاب نازل ہوتا تھا۔ ان اخبارات کے مالکان بھی کاروباری مفادات رکھتے تھے لیکن اڑچن یہ تھی کہ اخبار میں پیشہ ور صحافی اور مدیر کچھ دائروں کے اندر رہتے ہوئے خبر کی ترسیل کا راستہ نکال لیتے تھے۔ پریس ایڈوائس اور سنسرشپ کی تاریخ ضمیر نیازی نے دستاویز کر رکھی ہے۔ نیشنل پریس ٹرسٹ 1988 میں غلام اسحاق خان کی نگران حکومت نے ختم کیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ٹرسٹ کے اخبارات لگاتار سرکاری قصیدہ نگاری کے طفیل اپنا اعتبار کھو بیٹھے تھے۔ مشرف حکومت نے نجی ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کے لائسنس جاری کئے تو امید پیدا ہوئی کہ آزاد صحافت عوام کو باخبر رکھنے کا منصب بہتر طور پر ادا کر سکے گی۔ 2007 میں عدلیہ تحریک کے دوران صحافت کے اثرورسوخ نے صاحبان اقتدار کو مضطرب کر دیا۔ کچھ چینلز بند کئے گئے، کچھ صحافی نما کارندوں کی سرپرستی کی گئی۔ مدیر کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔ سرکش صحافیوں کی گوشمالی کی گئی۔ چنانچہ اظہار کا یہ دریا آلودہ ہو گیا۔ پراجیکٹ عمران کی تعمیر میں دست پروردہ صحافت نے اہم کردار ادا کیا۔ 2011 تک عمران خان کا کل اثاثہ قومی اسمبلی کی ایک عطیہ کی گئی نشست تھی لیکن عمران خان کے سینکڑوں انٹرویو نشر کئے گئے۔ سیاست میں بصری پہچان کو بہت دخل ہے۔ ماضی قریب میں الطاف حسین اور نواز شریف کو ٹی وی اور اخبار سے غائب کیا گیا تو ان کی سیاست مرجھا گئی۔ گزشتہ برس وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے باوجود عمران خان ٹیلی ویژن سکرین پر مسلط رہے بلکہ پارٹی کے جھنڈے اور قومی پرچم کے بیچ وزیراعظم جیسی آن بان سے بھاشن دیتے رہے اور پھر 9 مئی ہو گیا۔ درویش حاشیے کی صحافت کرتا ہے، حاشیہ بردار نہیں ہے۔ سو یہ دیکھ کر سر دھنتا ہے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات آج بھی 5 جولائی 1977 کی صبح چھ بجے کا نیوز بلیٹن نشر کر رہے ہیں۔ 180 ممالک میں پاکستان کا آزادی صحافت میں درجہ بھلے 150 ہو، یہ خیال ہی فرحت بخش ہے کہ پی ٹی وی کی یک رنگی میں قدرت حق نے کیسی وسعت بخش دی ہے۔ درجنوں چینلز پر راگ درباری اور پہاڑی میں سرگم کی الٹ پھیر سے ایک ہی بندش گائی جا رہی ہے۔ یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کے لیے۔
( بشکریہ : ہم سب لاہور )