یہ کالم میں انتہائی کرب اور افسوس کے عالم میں لکھ رہی ہوں کیوں کہ میں ۔۔بجٹ ۔۔ٹیکس اور شرح سود و منافع کے گورکھ دھندے میں جکڑی ایک قوم کے سب سے معتبر طبقے کی حالت زار اسی شرح منافع کے نام پر” غالب خستہ حال” کی صورت گذشتہ ایک سال سے دیکھ رہی ہوں ۔۔۔ائیر کنڈنشنڈ پرائیویٹ بنکوں اور اس بھوت بنگلہ نما بنک عرف قومی بچت کا موازنہ کررہی ہوں جہاں سرکاری منافع کے نام پہ لوگ اعتماد کا حوصلہ لئیے اپنی عمر بھر کی کمائی جمع کروانےجاتے ہیں ۔۔مگر نظام کی بوسیدگی ۔۔عملے کی بے حسی ۔۔جلد بازی ۔۔۔کھاتوں اور رجسڑوں کے اکیسویں صدی میں بھی بوسیدہ نظام کار ۔۔بنک ۔عمارت کی بدحالی اور گھٹن سے گھبرا کر شکستہ حال ہوکر واپس لوٹتے ہیں۔
یہ بنک نہیں ”بیمارستان” معلوم ہوتا ہے جو سب سے ز یادہ عوامی رقوم کی بچت و منافع کا دعویدارتو ہے مگر انتظامی اعتبار سے یہ پاکستان ریلوے ۔ پی آئی اے اور سرکاری سکولوں سے بھی بدتر منظر پیش کرتا ہے ۔۔گول باغ کے اداس درختوں کی مانند ۔۔۔مجھے یہاں نامور بزرگ دانشور۔۔بھی نظر آتے ہیں اور شعرا وقلمکاربھی ۔۔۔بہت نفیس ریٹائرڈ سربراہان تعلیم و طب ۔۔شہدا کی پسماندہ حال بیوائیں بھی لاٹھی کے سہارے کھڑی نظر آتی ہیں اور باشعور۔پنشنرز ۔۔ ضیعف العمر خواتین و حضرات بھی بے بس اور پریشان حال ملتے ہیں ۔۔۔جو اپنی لاکھوں کی رقوم جمع کراونے ۔۔چیک کیش کروانے ۔۔۔اکاؤ نٹ کھلوانے کے لیے صبح نو بجے سے لے کر دوپہر دو بجے کے مختصر اوقات میں طویل انتظار کی زحمت برداشت کرتے ہیں ۔۔
بارہ اعشاریہ پانچ فی صد شرح منافع دینے والے بنک ۔۔کے میلے کچیلے دیوارو در۔۔۔پچکے ہوئے چند سرکاری صوفوں کے درمیان ایک منحوس صورت خطرناک الیکٹرک واٹر کولر۔۔جو زنجیر سے بندھے ایک سڑے ہوئے بدنما اسٹیل کے گلاس کا سہارا لے کر احمقوں کو یقین دلاتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ ”اے منحوسو ۔۔جیو یا مرو۔۔یہ پرانی ٹینکی کا پانی پی کر ہی بے ہوش ہونا ۔۔’’۔جھنجلاتا اور الجھتا ہوا چھ یا سات افراد پر مشتمل بنک کا عملہ ۔جوبہشتی زیور کی طرح مقدس رجسڑوں اور کھاتہ کاپیوں کو سنبھال سنبھال کر بے حال نظر آتاہے ۔جو مرغ بھی ہے بسمل بھی ۔۔۔یعنی کبھی ایک ہی بندہ بیک وقت کیشیر ۔منیجر اور بنک ایڈوائزر کے فرائض بھی ماتم زدہ صورت بنائے سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔۔روز قیامت کی طرح نامہ اعمال پر سرعام نام لے کر پکار آتی ہے اور مجرموں کی طرح سرجھکائے چیک وصولی ہوتی ہے ۔۔۔کاؤ نٹر سیٹنگ ایسی جیسے صارف کے دو قدم پار ہی واہگہ بارڈر شروع ہوجاتا ہو ۔۔۔پسینے سے شرابور ۔۔چھینکتے ۔۔کھانستے ۔۔۔۔بزرگ اور ان پڑھ شہریوں کی حالت زار دیکھ کر خیال آتاہے ۔۔کہ یہ ہماری عوام سے محبت اور فلاح کے دعووں کی حقیقت ہے ۔۔کہ اس معاشی جیل میں ایسے بند ہیں کہ کھل جا سم سم کا جنتر بھی کام نہیں کر رہا ۔۔سادہ لوح عوام کی ناسمجھ آنے والی گورکھ دھندا نما اسکیمیں ۔۔محدود وقت اور جم غفیر۔۔۔اور ہم ہیں دوستو ۔۔۔
روئے زار زار کیا ۔۔۔کیجیے ہائے ہائے کیوں ۔۔؟؟؟؟؟؟؟
سوال صرف اتنا ہے کہ ہم نئے اور پرانے پاکستان کے ترانے کو اپنا پاکستان کے نعرے میں کب بدلیں گے ؟؟؟؟؟۔۔۔ایک دوسرے پر الزام تراشیاں پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔۔خود اپنا آپ کب سنواریں گے ہم ۔۔؟؟؟؟؟۔۔۔خدا کی قسم میں ان بزرگ خواتین کے نورانی ۔۔ سفید لٹھے جیسے چہرے پیلاہٹ میں بدلتے اورکمزور وجود کی لرزتی ہوئی جنبش ۔۔ ہاتھوں میں تھامے لاٹھی اور چیک بک کی فکر ۔۔نہیں دیکھ پاتی ۔۔۔۔کیا اس سرمایہ دار ملک میں عام سرمایہ دار خصوصا بزرگ شہری معمولی سرمایہ دار کی اتنی بھی وقعت سرکاری سطح پر نہیں کہ وہ ایک مناسب ماحول میں بیٹھ کر اپنے معاشی مسائل حل کر سکے ۔۔۔خدارا معاشیات پاکستان کو بیمارستان ۔۔بھکارستان نہ بنائیے ۔۔ٹی وی پر روز نئے پینٹ شدہ چہروں کے بے کار ٹاک شوز پر پابندی لگائیے۔۔توانائی اور سرمایہ بچائیے ۔۔۔ ان کی بجائے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ۔ان پڑھ عوام کو ٹیکس گوشوارے بھرنا ۔۔آسان شرائط قرضےکی فراہمی ۔۔۔سرکاری بچت اسکیموں کی آسان زبان میں ترویج ۔۔۔اوران سرکاری بھوت بنگلے نما بنکوں کی مینجمنٹ ۔۔صاف ستھرائی ۔۔۔ باشعور پروفیشنل عملے کی فراہمی ممکن بنائیے ۔۔یہ شہدا ۔کے خاندان ۔بزرگ شہری ۔۔۔ریٹایرڈ پنشنرز ہمارے وہ قیمتی سرمائےہیں جن کی قدر نہ کرنے سے حکومتیں ذلیل ورسوا ہوکر رہ جاتی ہیں ۔۔۔