کملائے ہوئے پھول جیسا اس کا معصوم چہرہ ، مجھے بار بار اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا، ایک نئے ماحول میں ڈرا دبکا اور گھبرایا ہوا ، وہ خاموشی سے میرے برآمدے میں فرش پر بیٹھا تھا،،،
"ماما! یہ ہمارا نیا نوکر ہے،اسے بابا لائے ہیں”
اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے میں ابھی اسکا جائزہ لے ہی رہی تھی کے میرے بیٹے نے مجھے اسکی وہاں موجودگی کا سبب بتایا ،
مجھے دیکھتے ہی وہ کسی غلام کیطرح تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سر جھکا لیا،،،،
اس معصوم کے عاجزانہ احترام پر میرا دل یکدم مغموم ہو گیا، میں نے اسے پیار سے اپنے پاس بلایا، وہ اسی طرح اپنی نظریں جھکائے میرے قریب آ کھڑا ہوا۔
"کیا نام ہے تمہارا،” اور کہاں سے آئے ہو؟” میں نے اس سے بات کرنا چاہی تو اسنے جواب دینے کی بجائے سہمی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا ،،،،،
"ماما آپکو بتایا تو ہے، یہ ہمارا نیا نوکر ہے اور بابا اسے یہاں لائے ہیں ” میرے بیٹے نے ایک بار پھر اپنی بات دھرائی تو اس غریب نے اپنی اس حتمی پہچان اور تعارف پر خجل سا ہوتے ہوئے ، دوبارہ اپنا سر خم کر لیا۔۔۔
میں نے اپنے بیٹے کی طرف تنبیہہ نظروں سے گھورا اور وہاں سے جانے کو کہا،،،،،،،،،،
آٹھ ، نو سال کے اس معصوم کی آنکھوں میں ایک اجنبی ماحول سے متعلق تشویش کو بھانپتے ہوئے، میں نے اس سے مزید کچھ پوچھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ روز تک وہ اسی طرح سہما سہما میرے ساتھ گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتا رہا، اس دوران میں نے بھی اسکا خاص خیال رکھا۔
"تم نے میرے جوتے پالش کیوں نہیں کیے ، تمہیں پتا نہیں تھا کے مجھے سکول جانا ہے”
میں نے اپنے بیٹے کو اس پر غصے میں برستا دیکھا تو اس معصوم کیساتھ اپنے بیٹے کا ہتک آمیز رویہ مجھے نہایت گراں گزرا،،،،،،،
"کیوں چلا رہے ہو اس پر، اپنا کام خود کیوں نہیں کر سکتے تم ؟ ” میں نے بیٹے کی اسکے اس رویے پر سرزنش کی۔
"مگر ماما! وہ میرا نوکر ،،،،،،”
خاموش ہو جاؤ اور اگر جوتے صاف چاہیں تو خود پالش کر لو،،،، ” اس سے پہلے کے میرا بیٹا اپنی بات مکمل کرتا میں نے اسے خاموش کروا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ساری صورتحال کے دوران وہ بچہ خاموش اور خوفزدہ کھڑا رہا۔
میں نے ایک نگاہ اس مزدور بچے کی طرف اور دوسری اپنے بیٹے کیطرف ڈالی جو اسوقت میری ڈانٹ کے بعد اپنے جوتے صاف کرنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے خیال آیا کے دونوں بچے ہی ہم عمر اور معصوم تھے، دونوں ہی اپنے اپنے والدین کے جگر کا ٹکڑا تھے، فقط حالات اور قسمت نے ان دونوں کے بیچ اسقدر گہرا خلا حائل کر دیا تھا کے وہ ایک دوسرے کی حیثیت سے ناواقف تھے، قصور ان معصوموں کا نہیں تھا، قصور معاشرے کا تھا، قصور ہمارا تھا جو ہم ان دونوں کو ہی انکی حقیقی پہچان سے آشنا نہیں کروا پائے تھے،،، ہم انہیں نہیں سمجھا پائے تھے کے اصولِ انسانیت کے تحت ان دونوں کو برابری کا درجہ حاصل تھا، مالک نوکر، آقا غلام،،، یہ سب تفریق ان معصوم ذہنوں کو ہماری ہی دین تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے دونوں بچوں کو اپنے پاس بلایا ۔۔ میرا بیٹا صوفے پر میرے برابر آن بیٹھا ، اور وہ ننھا مزدور جھجھکتا ہوا ہمارے قریب آ کھڑا ہوا۔ میں نے اسکا ہاتھ تھامتے ہوئے ،اسے بھی اپنے برابر بٹھا لیا۔۔۔۔۔
"میری بات غور سے سنو ! نا کوئی کسی کا نوکر ہے نا کوئی مالک، تم دونوں ہی ہم عمر ہو اور آج سے آپس میں بھائی ہو، ”
دونوں بچوں نے حیرت سے ایک ساتھ میری طرف دیکھا ، تو میں نے دونوں کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے ایک بار پھر سے اپنی بات کی تصدیق کی” دونوں نے ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، اور اپنی اس نئی پہچان پر قدرے مطمئن نظر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"حالات سے مجبور ایسے کئی ننھے بچے ہمارے گھروں میں اپنی پہچان چکے ہوتے ہیں ، ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ ہم ان معصوم مزدوروں کو انکی خدمات کے بدلے میں محض چند روپوں کے علاوہ انکو فرضی ہی سہی مگر باعزت "پہچان ” دے کر انکی پروان چڑھتی عزتِ نفس کا بھی خیال رکھیں