پاکستان تاجر چوہدری جاوید عطا نےآخری باراپنی بیوی کوایک سال قبل اس وقت دیکھا تھا جب وہ چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ سے ویزا کی تجدید کے لئے پاکستان لوٹ رہا تھا۔ وہ دن اورآج کا دن وہ دوبارہ اپنی بیوی سےنہیں مل سکا۔آخری ملاقات میں اس کی بیوی نے جو کہا تھا وہ چوہدری کوبڑی اچھی طرح یاد ہے۔ّجونہی تم یہاں سے جاؤ گے تو وہ( چینی حکام) مجھے کیمپ میں لے جائیں گے جہاں سے پھرمیں کبھی واپس نہیں آسکوں گی۔یہ اگست 2017 کا واقعہ ہے۔ عطا جاوید اورآمنہ منانجی جس کا تعلق یغورمسلم کمیونٹی سے ہے،کی شادی کو چودہ سال بیت چکے ہیں۔ عطا اور آمنہ کے پانچ اورسات سال کے دو بیٹے ہیں جن کے پاسپورٹس چینی حکام نے ضبط کرلئے تھےاورعطا انھیں اپنے ہمراہ نہ لا سکاتھا۔ عطا جاوید کوئی ایک پاکستانی نہیں ہے جس کے بیوی بچوں کوزبردستی اس سے چھین لیا گیا ہے بلکہ ایسے دوسو کے قریب پاکستانی شوہرہیں جنھیں ان کے بیوی بچوں سےزبردستی جدا کردیا گیا ہے۔یہ پاکستانی شوہرہردیوارسے سر پٹخ چکے ہیں لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔ چین میں پاکستانی سفیر مسعودخالد سے ملاقات بھی بآور ثابت نہیں ہوسکی۔ چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے امور خارجہ سینٹر مشاہد حسین سید کا موقف ہے کہ پاکستان اورچین ایک دوسرے کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصول پرسختی سےعمل پیرا ہیں لہذا پاکستان اس ضمن میں چینی حکام سے کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔چین میں یغوراورقازق نسل سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مسلمانوں کو ان کے مذہبی عقائد کی بنا پر چینی حکام کے ظلم و جبر کا سامنا ہے۔مسلمان ممالک میں چین کی بھاری سرمایہ کاری ان ممالک کو چینی مسلمانوں کےحق میں آوازاٹھانے کی راہ میں رکاوٹ ہے
پاکستان جسے روہنگا،بھارتی اورکشمیری مسلمانوں کا غم بہت ستاتا ہے اور ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں آئے دن ان کے حق میں جلسےجلوس منعقد کرتی رہیتی ہیں لیکن مجال ہے جو انھوں نے کبھی چین کے ٰیغوراورقازق مسلمانوں کے حقوق کے لئے کبھی کوئی آواز اٹھائی ہواوراس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے کہ ہماری عسکری اشرافیہ چین کو اپنا حلیف سمجھتی ہے اورمذہبی سیاسی جماعتیں عسکری اشرافیہ کی حلیف ہونے کی بنا پرچین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنکھیں اور منہ بند رکھتی ہیں
فیس بک کمینٹ