ٹی ٹوئنٹی کے ارتقأ کے ساتھ ساتھ لیفٹ آرم سپن کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فی زمانہ ہر ٹیم یقینی بناتی ہے کہ ایک ماہر لیفٹ آرم سپنر اس کی پلئینگ الیون کا حصہ ہو۔ جارح مزاج کپتان تو عموماً پاور پلے کا آغاز ہی لیفٹ آرم سپن سے کرتے ہیں۔
پاکستان میں لیفٹ آرم سپن سے اننگز کے آغاز کی طرح ڈالی تھی سرفراز احمد نے۔ اسی حکمتِ عملی نے انھیں رینکنگ میں دنیا کی بہترین ٹیم بھی بنایا۔ عماد وسیم ان کے چنیدہ بولر ہوتے تھے جو ہمیشہ پہلا اوور پھینکتے تھے اور اپنی سلو لیفٹ آرم کی ڈرفٹ سے اے بی ڈویلیئرز جیسوں کو بھی چکرا دیا کرتے تھے۔
بابر اعظم بھی محمد نواز کو انہی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ ٹی ٹونٹی کرکٹ میں اوپنرز جس جارحانہ سوچ کے ساتھ پاور پلے میں بولرز کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں کوئی قابل لیفٹ آرم سلو بولر ہی انھیں من مانی کرنے سے روک سکتا ہے۔
حالیہ سیریز میں بھی بابر اعظم باقاعدگی سے انھیں ابتدائی اوورز میں استعمال کرتے آ ئے ہیں اور فِل سالٹ کا بھی لیفٹ آرم سپن کے خلاف ریکارڈ ہمیشہ قابلِ تشویش رہا ہے۔ یہی وجہ رہی کہ اس اننگز سے پہلے کی پانچ کاوشوں میں وہ کہیں بھی سرخرو نہیں ہو پائے تھے۔
یہاں نہ صرف ان کی ٹیم بلکہ خود سالٹ پہ بھی بہت دباؤ تھا۔ پی ایس ایل میں بھی ان کا حالیہ سیزن ناگفتہ بہ رہا تھا اور صرف اگلے ڈرافٹ سے پہلے اپنا مقدمہ پیش کرنا ہی مقصود نہیں تھا بلکہ ورلڈ کپ میں جاس بٹلر کے ہمراہ اوپننگ کا حق بھی ثابت کرنا ضروری تھا۔
اگرچہ ٹاس پہ بابر اعظم کا خیال تھا کہ یہاں 165 کے لگ بھگ مجموعہ کافی ہو گا مگر یہ کہتے ہوئے وہ دو چیزیں نظر انداز کر گئے۔ نہ تو یہ پچ پچھلے میچ کی طرح سست تھی اور نہ ہی انھیں یہاں حارث رؤف کی خدمات دستیاب تھیں جو ڈیتھ اوورز کے ساتھ ساتھ پاور پلے میں بھی ان کی الجھنیں دور کیا کرتے ہیں۔
محمد رضوان کی عدم دستیابی کے سبب بابر خود اننگز کو لے کر آخر تک چلے اور اپنے متوقع مسابقتی مجموعے سے چار رنز زیادہ ہی بنا کر پویلین لوٹے مگر جس طرح سے اوس نے حالات بولنگ کے لیے ناسازگار کر چھوڑے تھے، وہاں اپنے پیس اٹیک کے اولین انتخاب سے محروم بولنگ لائن کے لیے اس مجموعے کا دفاع کوئی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔
یہاں بالآخر پاکستان نے حارث رؤف کو آرام دیا جو ان کے لیے ضروری بھی تھا، مگر بدلے میں اس طرح کی پیس والا کوئی بولر الیون میں شامل نہیں کیا گیا جو پاور پلے ہی نہیں، ڈیتھ اوورز میں بھی اپنے کپتان کو کچھ ریلیف فراہم کر سکے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ پاکستان نے بہت بری بولنگ کی، پاور پلے کے ابتدائی اوورز میں چند ایک کوتاہیوں کے سوا بحیثیت مجموعی یہ اچھی بولنگ کا مظاہرہ تھا۔ مگر بولر کچھ بھی کر لے، جب بلے باز کے قدم حرکت میں آنے لگیں تو وہ ہر لائن اور ہر لینتھ کو اپنی سہولت میں ڈھال کر برتنے لگتا ہے اور بولرز فقط بے بسی کی تصویر بنے رہ جاتے ہیں۔
اگرچہ یہ حتمی نہیں کہ یہاں ایکسپریس پیس پاکستان کو میچ میں زندہ رکھ پاتی مگر یہ بات طے ہے کہ جب اوس میں بھیگی ہوئی گیند خوبصورتی سے بلے پہ آ رہی ہو، وہاں اچانک کوئی شدید تیز رفتار گیند اچھے بھلے رواں بلے باز کو بھی مخمصے میں ڈال سکتی ہے۔ پاکستان کے اس تجرباتی بولنگ یونٹ میں ایسی کوئی سہولت میسر نہ تھی۔
اس انگلش ٹیم کی بیٹنگ اپروچ جارحیت سے بھرپور ہے۔ یہ جارحیت پچھلے دونوں میچز میں اگرچہ ان کے گلے بھی پڑی مگر پھر بھی یہاں پلان میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ سالٹ نے ایک لمحے کو لیفٹ آرم سپن کے خلاف اپنا تمام تر ریکارڈ فراموش کر دیا۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ قسمت بہادروں کی یاوری کرتی ہے۔ اگرچہ یہ ہمیشہ درست نہیں ہوتا مگر یہاں سالٹ کی قسمت نے بھی ان کی بہادری کا ساتھ دیا۔ پاور پلے کی پہلی گیند محمد نواز کی طرف سے بہت اچھی کوشش تھی اور بعید نہیں تھا کہ پچھلے قدموں پہ سرکتے فل سالٹ لیٹ کٹ کھیلنے کے شوق میں کلین بولڈ بھی ہو جاتے مگر انھوں نے خطرہ مول لیا اور گیند دائرے میں موجود تھرڈ مین کو پھلانگ کر باؤنڈری پار جا پہنچی۔
جب تیسری گیند بھی ایک بے آہنگ شاٹ کے باوجود باؤنڈری پار کر گئی تو یہ واضح ہو گیا کہ یہاں قسمت بھی سالٹ کی بہادری کی طرف دار ہو چکی تھی جنھوں نے بابر اعظم کو ڈیتھ اوورز کی پلاننگ کے جھنجٹ سے بھی بچا لیا اور پاور پلے میں ہی کھیل تمام کر ڈالا۔
(بشکریہ: بی بی سی اردو)