میں نے ایک خواب دیکھا دوستو ، کہ میں ایک سر سبز ملک میں ہوں آس پاس کے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا ملک ہے جواب ملا پاکستان نہیں یہ تو اس قدر شاداب ہے جنت نظیر ہے وہاں تو جنگل تک مافیاز نے بیچ ڈالے جنگل کے باسی مر گئے یا نقل مکانی کر گئے ۔ یہ پاکستان ہو نہیں سکتا یہاں تو دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں مگر میرے پاکستان میں پہلے بیاس پھر ستلج کا قتل ہو گیا اور آ ہستہ آ ہستہ راوی بھی مر گیا۔ زمینیں بنجر ہو گئیں یہاں تو کھیتوں کی بالیاں مسکرا رہی ہیں پانی سے بھری پگڈنڈیاں نہروں کی جھومتی لہروں میں ناچتے ہوئے عکس کتنا حسین منظر ہے۔ میرے پاکستان میں تو ایک وقت تھا نہروں کی بھل صفائی اس وقت شروع ہوتی جب کسانوں کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی میں نے اپنے بڑوں کو اس بات پر رنجیدہ دیکھا ایک وقت تھا سفیدے کے درخت اتنے کاشت کیئے گئے کہ ہمارے بزرگ چیختے رہے کہ یہ زمین کا پانی خشک کر دیں گے پتہ نہیں وہ کیا تھا اور کیوں تھا؟
یہاں تو بوسیدہ کپڑوں والا دہقان زیادتی کرنے والے زردار کو منصف کے سامنے پیش کیئے کھڑا ہے کہ صاحب اس نے سال بھر میری ہڈیوں سے خدمات لیں اور اب معاوضہ سے گریزاں ہے یہ میرا پاکستان نہیں بس میرا خواب ہے ادھورا خیال ہے میرے وطن میں انصاف ہمہ وقت برائے فروخت ہے کبھی مال کے عوض کبھی تال کے عوض اور کبھی تھاپ کے عوض میرے وطن میں تو کوئی بڑے ملک کا شہری کچل کر ہلاک کر دے تو قصور وار متوفی ٹھہرے کہ آ گے کیوں آ گیا تھا۔۔
ہمارا اصل بادشاہ کوئی اور ملک ہے کیونکہ سیاستدان اسے وینٹی لیٹر کہتے ہیں یہ ملک کتنا سرائیت کر چکا ہمارے اندر کہنے کو ہم آ زاد ملک ہیں اکثریتی ووٹ لے کر بھی سیاست دان بے بس اہم عہدوں پر پتہ نہیں کہاں کہاں کے ناخداوں کی رضا حاصل کر کے تعیناتیاں معمول ہیں اور اعلیٰ عہدیدار کیونکہ سات آ ٹھ حقداروں کے سروں پہ پیر رکھتا ہوا سیڑھی کی آ خری حد پہ پہنچتا ہے وہ یہ ادراک رکھتا ہے کہ جس آ قا نے اتنی جلدی پہلی سیڑھی سے کھینچ کر آ خری پہ لا کھڑا کیا اب اسی کی رضا مقدم ہے ۔یہ قلم اپنے جگر پہ پتھر رکھ کر آ نکھوں میں آنسو بھر کر چلا رہی ہوں یہ لفظ نہیں انگارے ہیں جو حب الوطنی سے سرشار رعایا کے سینوں میں دہک رہے ہیں اور میں خوفزدہ دیکھ رہی ہوں کہ اگر یہ یہ انگارے الاؤ بن گئے تو کیا ہو گا ؟
میرے وطن میں کبھی کوئی حکومت مدت پوری نہ کر سکی آ خر ایسا کیوں ہوتا ہے کمزور کیس میں عدالت سے سزائے موت کا آ رڈر کروا چکے ہم کون لوگ ہیں میں بوجھل طبیعت کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ یہاں چیف جسٹس ایک دن بھی ریٹائر منٹ کے بعد رہنا پسند نہیں کرتا ہم وطنو سوچو ذرا ہمارے سپہ سالار کے پاس اہم ملکی راز ہوتے ہیں وہ بھی ریٹائر ہو کر باہر چلا جاتا ہے ہم کتنی بے بس رعایا ہیں ہم ان سیاستدانوں افسروں عہدیداروں کی بندر بانٹ خاموشی سے دیکھتے اور سہتے ہیں اتنی جائیدادیں تو صدیوں کی مشقتوں سے نہیں بنتیں کہ باپ سائیکل پنکچر لگائے اور بیٹے کے چار بزنس امپائر ایک ہی ملک میں سر اٹھائے کھڑے ہوں۔۔ میرے مظلوم پاکستانیو کاش تمہیں اپنی طاقت کا ادراک ہوتا ہم بھی تو ایسے ہی ہیں ہمیں تھانے سے چھڑوانے والا ایم پی اے چاہیئے ہم کیوں دیکھیں کہ وہ ہیروئن کا کاروباری ہے یا اسلحے کا انڈیا کا بس چلے تو ہمیں سانس نہ لینے دے وہاں کے بااختیار لوگ دعویٰ کر چکے کہ آپ کے ایک وزیراعظم کے چناؤ میں فنڈنگ کی تھی ویسے یہ انویسٹرز پیسہ لگاتے کیوں ہیں کبھی سوچنا اور انویسٹر بدترین دشمن ہو پھر میری قوم سب سے پہلے پاکستان گرہ سے باندھ لے صرف ایک بار حمیت کو جگا لیں پھر دیکھیں کیا اوقات کسی گیم چینجر کسی رجیم چینجر کسی سپریم پاور کی مگر صفائی گھر سے ہو گی ذلت کی عمیق گہرائیوں میں گر چکے اب تو باہر نکلنے کی بات کرو دوستو ۔ اکا دکا آ وازیں اٹھ رہی ہیں اگر مزید آوازیں ملتی چلی گئیں تو عزت آبرو خوشحالی منصفی سب لوٹ آ ئے گی ا س وقت زیادہ ضرورت مردوں کی ہے ۔
میں سوچ رہی ہوں میری قوم میں کتنے مرد ہیں ہم تو گھٹیا سے گھٹیا حرکتوں کی طرف داری میں دست بہ گریباں ہیں کہ کوئی غلط قرآن پڑھ جائے ہم چپ غلط بل آ ئے ہم چپ ننگی وڈیو کا حوالہ دے ہم چپ جعلی تصویریں آ ئیں ہم چپ عورتوں کو فحش القاب دو ہم چپ اور صرف خاموش نہیں بلکہ ان قبیحات کو جائز قرار دینے والی زبانیں اس سے بڑا لمحہء فکریہ یا اللہ میری قوم میں مرد پیدا کر ہم عورتیں احترام سے جینا چاہتی ہیں
فیس بک کمینٹ