گھرمیں ایک فقیر منش عزیز کی آمد ہوئی تو مختلف جانوروں کی عادات اور فطرت پر بات چل نکلی ۔میرے عزیز کا خیال تھا کہ ہر فقیر نے کتے کے صبر کی مثال دی ہے اور وفا کو بے مثال گردانا ہےبالکل ایسا ہی ہے بہت سی ضرب المثال بھی زبان زد عام ہیں ایک مثال تو میرے گھر میں موجود ہے کہ میری والدہ کی وفات پر ان کے پالتو کتے نے کھانا پینا چھوڑ دیااور اداس سر نیچے ڈال کر بیٹھا رہتا اور جدائی برداشت نہ کر سکا جلدی مر گیا۔ یہ حادثہ میرے ذہن پر آج بھی نقش ہے۔ بس اس موضوع پہ میرے ڈرائنگ روم میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک مثال مجھے یاد آ ئی کہ کتا کتے دا ویری یعنی جھنڈ میں رہیں گے اکٹھے پھریں گے مگر اکٹھے مل بانٹ کر نہیں کھا سکتے پھر خون خوار بن جائیں گے۔ میری عادت ہے کہ رات کو باہر نکلتی ہوں بچی ہوئی روٹیاں کھانا شاپر میں ڈالتی ہوں کہ کتوں کو دے دوں گی کیونکہ گھر کی بزرگ میری خالہ ایسا ہی کرتی تھی میں نے پوچھا تو بولی یہ بہت غریب مخلوق ہے لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں ۔ ہر فرقے کے عالم سے سوال کر چکی ہوں مجھے جواب پہ تسلی ہے مگر لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکوں گی جس قسم کی روایتیں وہ نیم ملا سے سن چکے ہیں ۔ بہرحال اس وقت میرا موضوع گفتگو یہ نہیں ہے میں اصل معاملے سے ہٹ گئی بات اور طرف چل نکلی ….تو گلی میں ہی دو کتے ہیں میں سب سے پہلے روٹی انہیں دیتی ہوں وہ دونوں ایک ہی جگہ پر اکٹھے سو رہے ہوتے ہیں مجھے دیکھتے ہی ایک دوسرے کو بھونکنے لگتے ہیں اور روٹی لے کر ایک دوسرے سے دور جا کر کھاتے ہیں آ پ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا فضول گفتگو ہے جس کا کوئی علمی معاشرتی فائدہ نہیں تو دوستو کتے کی یہ عادت جو میں نے observeکی وہ بتاتی ہے کہ شاید یہ درست ہو کہ وہ انسان کے جسم کی مٹی سے خلق کیا گیا ہے کیونکہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں بندہ یہی تو کر رہا ہے. اگر نام کے ساتھ حقیقی مثالیں دیں تو لوگ مار دیں گے. وہ سب چھوڑیں مجھے تو بہت سے لوگ کتے کے رشتہ دار ملے آ پ ناراض ہوتے رہیں کردار انسان بناتا ہے پھر کردار ہی عبداللہ بناتا ہے. میں ایسی دو لاوارث بہنوں کو جانتی ہوں جن کا اکلوتا بھائی کرنل ہے اور جائیداد کے کاغذات پر انگوٹھے لگوا چکا ہے اور وہ در در بھیک مانگنے پر مجبور ہیں معاف کیجئے میں ایسے شخص کو یہی کہوں گی. ایک بڑے سیاسی گھرانے کا کہا جاتا ہےکہ ساری جائیداد فوت شد بھائی نے چھوڑی اور اس کی دو یتیم بچیاں گھر میں نوکرانی تھی ویسے میں بڑے لوگوں بڑے گھروں کی مثالیں کیوں دوں؟ غریب کو تو غریب کے حالات کا بخوبی اندازہ ہے مگر کسی بھی دفتر میں چلے جائیں باہر بیٹھا چپڑاسی اپنے جیسے بندے کو بےعزت کرے گا ۔ میں ایک واقعہ سناؤں ایک نہیں دو واقعات سناتی ہوں جو میں نے خود دیکھے اور سنے سناؤں گی اس لیے کہ جس درد سے انسان خود گزرتا ہے کم از کم اس کا ادراک تو اسے ہونا چاہیے. یہاں کے مشہور گائناکالوجسٹ صاحب ہیں وہ مجھے بتانے لگےکہ میں ایف سی پی ایس کی ٹریننگ نرسنگ ہسپتال میں کر رہا تھا تھا خاتون لیبرتکلیف کے ساتھ پڑی تھی اور دو خاتون ڈاکٹر خوش گپیاں مریض کے سامنے ہی کھڑی کر رہی تھی کہ نوزائیدہ بچہ پیدا ہوا اور منہ کے بل فرش پر گرا میں بھاگا اور بچے کو اٹھا لیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ سترہ سال بعد کسی غریب کا بچہ پیدا ہوا تھا اب میرا خیال آپ برا نہیں مانیں گے کیونکہ عورت اس تکلیف کو سمجھتی ہے خود اس مرحلے سے گزر چکی ہوتی ہے.
مجھے افسوس صرف مڈل کلاس کے لوگوں پر ہوتا ہےجب وہ اپنی کلاس کے لوگوں کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے بھی ان پر زیادتی کرتے ہیں ایک آنکھوں دیکھا واقعہ اور سناؤں گی پتا نہیں آپ کو کیسا لگے مگر میرے ذہن میں وہ آج بھی نقش ہے میری بیٹی کا انٹرویو تھا ملٹری ہسپتال میں۔ بیٹی انٹرویو روم میں چلی گئی تو میں سی ایم ایچ کی انتظار گاہ میں مریضوں کے ساتھ بیٹھ گئی۔میرے ساتھ تقریبا 12 ، 13 سال کا بچہ بیگ ساتھ رکھ کر بیٹھا تھا اور ساتھ ہی ایک خاتون تھی اتنے میں دو لوگ ایک مریض کو لائے جو کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا دوسرے آدمی پر لیٹا ہوا تھا اس نے بچے سے کہا بیگ نیچے رکھ دو بیٹا۔ وہ بیگ سمیت کھڑا ہونے لگا تو ماں نے کہا نہیں بیٹھا رہ بیگ نیچے نہیں رکھنا.ماں کے اس حکم پر میری تقریبا ہوائیاں اڑ گئی کہ وہ خود تو اخلاق کے منصب سے دھڑام گری مگر بیٹے کی تربیت بھی کر گئی کہ کبھی کسی پر رحم مت کرنا. میں خاموشی سے اٹھی کہ بیمار کو یہاں بیٹھ جائیں مجھے مریض کی نظر یں یاد ہیں جیسے اس نے دیکھا۔ میرے الفاظ جن لوگوں کو سخت محسوس ہو وہ آج سے ہی اپنے اردگرد دیکھنا شروع کر دیں .اگر اچھی اچھی مثالیں دیکھنے کو ملیں تو مجھے ضرور آگاہ کیجیے گا.کیونکہ کل ہی فیصل موورز سے آنے کا اتفاق ہوا.ایک نوجوان بچی کی سیٹ مرد کے ساتھ تھی شاید بکنگ کے وقت خیال نہیں کیا گیا.عین پیچھے ایک عورت اور بچہ تھے گارڈ نے کہا کہ بچہ وہاں بھیج دیں لڑکی آپ کے ساتھ بیٹھ جائے گی۔خاتون اونچی آواز سے نہ صرف گارڈ سے لڑ پڑیں بلکہ بچے کو حکم دیا کہ تو نے یہاں سے اٹھنا نہیں ہے.میں نے کہا میں بھائی کے ساتھ بیٹھ جاتی ہوں نوجوان بچی کو یہاں بھیج دیں ۔تو یوں میرے صاحبو…. وہ ماں بھی بچے کو اچھا پیغام نقش کرچکی کہ اخلاقیات کی کوئی اوقات نہیں. آپ ضرور سوچیں گے کہ میں بار بار ماں لکھ رہی ہوں کیا کرو ماں ہی تو ہر وقت ساتھ ہے جب ہم سفید کاغذ کی طرح تھے وہ اپنے عمل سے پل پل ہمارے ذہنوں میں تحریر نقش کرتی ہے باپ تو تلاش معاش میں صبح سے نکلا رات آئے گا تو خیال کریں …..مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہا کہ ہماری ماں کمزور ہے وہ مضبوط کردار سازی میں تقریبا ناکام ہے. اس لیے جناح نے کہا تھا کہ تم مجھے تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں تعلیم یافتہ قوم دوں گا. بس قصہ اتنا سا ہے ہمارا مسئلہ دینیات نہیں اخلاقیات کا ہے ۔
فیس بک کمینٹ